انسان خوف اور ڈر پر کیسے قابوپاسکتا ہے؟


ہم سب کے لئے لکھی گئی آج کی تحریر خوف اور ڈر کے بارے میں ہے۔ اس تحریر میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ آخر یہ ڈر ہے کیا اور کیسے انسان کی زندگی کو اس خوف نے جکڑا ہوا ہے؟ کیسے ہم ڈر کے قیدی بنے ہوئے ہیں؟ یہ خوف ہمیں جہاں لے جاتا ہے ہم وہاں چلے جاتے ہیں کسی قسم کی مزاحمت تک نہیں کرتے؟ تحریر کو غور، مشاہدے اور سمجھداری سے پڑھیں۔ اس دنیا کا ہر انسان لامحدود ڈر اور خوف کا شکار ہے۔ پیدائش سے موت تک انسان ڈر کی کیفیت میں رہتا ہے۔

صبح سے شام اور رات تک ہر وقت ہمارے اعصاب پر خوف کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔ ہم میں سے کسی ایک شخص نے آج تک مشاہدہ نہیں کیا کہ یہ خوف کیا ہے اور کیسے اس پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ خوف سے آزادی ہی حقیقی اور فطری زندگی ہے جو ہم ایک لمحہ بھی انجوائے نہیں کرتے۔ ہم جو بھی کام کررہے ہیں یا آگے جس کام کو کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ہمیشہ ڈر کا شکار رہتے ہیں؟ ناکام ہوگیا تو معاشرہ کیا کہے گا؟ ماں باپ کا سامنا کیسے کروں گا؟

نوکری چھن گئی تو زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی؟ بزنس میں نقصان ہوگیا تو کیا ہوگا؟ ابھی تک کچھ نہیں بھی کیا تو بھی ڈر ہے، کر لیا تو بھی خوف ہے؟ یاد رکھیں یہ خوف ہی ہے جو انسان کوزندگی بھر معذور بنائے رکھتا ہے۔ زندگی میں یہ خوف انسان کو آزادی سے کچھ بڑا اور کوبصورت عمل کرنے نہیں دیتا۔ ہمارا مائنڈ سیٹ ایسے بنادیا گیا ہے کہ ہم خوف سے نکل ہی نہیں پاتے؟ اس مائنڈ سیٹ کو بننے میں صدیاں لگیں ہیں لیکن اس سے آزاد ہونے میں لمحہ بھی نہیں لگتا۔ کیونکہ خوف سے نکلنا دنیا کا سب سے دلکش تخلیقی آرٹ ہے۔ معاشرہ کیا سوچتا ہے یہ اہم نہیں ہے معاشرہ تو کہے گا کہ انسان ڈر میں زندگی کاٹے کیونکہ یہ معاشرے کے لئے اچھا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ خوف اس انسان کے لئے اچھا ہے جو اس کا شکار ہے؟ ہم تمام انسانوں کی زندگی کے تمام پہلووں پر ڈر کو سوار کردیا گیا ہے۔ خوف ہی وہ بلا ہے جس سے انسان کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔ آفس میں نوکری چھن جانے کا ڈر، گھر میں ماں باپ کا خوف، انسان سانس بھ ڈر ڈر کر لیتا ہے۔ خوف یا ڈر سے نجات کے لئے کسی قسم کی نصیھت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ جو ہمیں خوف سے نجات دلانے کی نصیحت کرتے ہیں انہوں نے خود ساری زندگی خوف میں گزاری ہوتی ہے۔

اصل مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ یہ کہ آخر یہ خوف ہے کیا؟ ہم انسان زندگی کا ہر لمحہ بے خوف ہوکر انجوائے کرسکتے ہیں اور مستقل ساری زندگی بے خوف زندگی جی سکتے ہیں۔ یاد رکھیں خواہش انسانی خوف کی جڑ ہے۔ کسی انسان سے اٹیچمنٹ ڈر کی وجہ ہے؟ انسان کیونکہ خواہشات کو نہیں چھوڑ سکتا اور نہ ہی اٹیچمنٹس سے نجات حاصل کرسکتا ہے اس لئے وہ ڈر اور خوف کی دنیا میں ہی رہتا ہے۔ خواہش ہے کہ دولت کمانی ہے؟ نہ کما سکا تو کیا ہوگا؟

ثابت ہوا خوف اور کواہش ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں؟ فلاں سے محبت ہے یہ خواہش ہے، محبت کھو دی تو کیا ہوگا یہ خوف ہے؟ خوف اور خواہش آپس میں جڑے ہوئے ہیں ایک ہی ہیں۔ یہ بزنس کررہاہوں کامیاب کرکے دیکھاوں گا خواہش، ساتھ ہی بزنس میں ناکام ہو گیا تو کیا ہوگا خوف۔ جس سے اٹیچمنٹ ہے اسے کھو دینے کا بھی خوف ہے۔ جس چیز یا انسان کو ہم زندگی کا اہم حصہ سمجھتے ہیں اسے اہمیت دیتے ہیں اس چیز یا انسان کو کھونے کا بھی ڈر ہوتا ہے۔ اس لئے خوف خواہش اوراٹیچمنٹ سب جڑے ہوئے ہیں۔ جس انسان میں بہت زیادہ خواہشات ہوں گی اس میں اتنے ہی خوف ہوگا۔ جس انسان میں کسی قسم کی خواہش نہیں، اس میں کسی قسم کا ڈر یا خوف نہیں ہوگا۔ وہ ڈر اور خوف سے آزاد ہوگا۔

اب سوال یہ کہ ایسی صورتحال میں ہم بغیر کسی خوف کے زندگی کیسے انجوائے کریں۔ اب ہر انسان خود اپنے آپ سے سوال کرے کیا اسے خوف والی زندگی چاہیے؟ کیا ڈر ڈر کر زندگی کاٹنے کا نام زندگی ہے؟ ایک کام پسند نہیں پھر بھی کیے جارہے ہیں؟ کیا یہ زندگی ہے؟ کیا یہ احمقانہ عمل نہیں ہے؟ اب سوال کہ ہماری اٹیچمنٹ کس سے ہوتی ہے؟ کام سے یا کام سے ملنے والے پیسے سے؟ اٹیچمنٹ اگر انسان سے ہے تو خوف بھی کہ یہ انسان کہیں میری زندگی سے نکل نہ جائے۔

سوچیں سمجھداری سے ایشو کیا ہے؟ یاد رکھیں محبت پیار ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو خوف کی دنیا سے نکال دیتا ہے۔ محبت اٹیچمنٹ نہیں ہے محبت کو جب ہم اٹیچمنٹ سے جوڑتے ہیں تب مسئلہ ہے۔ جہاں خوف ہوگا وہاں محبت نہیں ہوگی۔ جہاں خوف ہوگا وہاں اٹیچمنٹ ہوگی۔ محبت انسان کو آزادی سے نوازتی ہے۔ انسان جب محبت کی کیفیت میں ہوتا ہے تو وہ آزاد ہوتا ہے قید سے نکل جاتا ہے۔

۔ ہمارے تمام تعلقات ماں باپ سے، چیزوں سے، کام سے اٹیچمنٹ والے ہیں۔ ماں باپ سے بچپ اٹیچڈ ہے اس وجہ سے ماں باپ اس پر دباؤ دالتے ہیں یہ کام کر، ناکام ہوگیا تو برباد ہوجائے گا۔ محبت یہ ہے کہ ماں باپ کہیں جا میرے بیٹے جو کرنا چاہتا ہے دل سے کر، یہ تیری زندگی ہے اسے انجوائے کر، یہ محبت ہے؟ کیا ایسی محبت سے ماں باپ بچے کو نوازتے ہیں؟ پیار محبت کسی پر قبضہ کرنے کا نام نہیں اسے آزادی دینے کا نام ہے۔ یہ نہیں کہ والدین کو جو لگتا ہے کہ ان کا بیتا وہ کرے جو انہیں درست لگتا ہے۔

بیٹے سے پوچھیں اسے کیا کرنا ہے اور اسے آزادی دیں۔ کسی کام سے محبت ہے تو انسان بغیر کسی لالچ یا خوایش کے وہ کرتا چلا جاتا ہے اسے اس کام سے محبت ہے وہ آزاد ہے اور تخلیق کیے جارہ اہے۔ اسے یہ خوف نہیں کہ جو کام میں کررہاہوں ناکام ہوگیا تو کیا ہوگا۔ جس کام سے انسان کو پیار ہوتا ہے وہ پھر ناکامی کے بارے میں سوچتا ہی نہیں، ناکام ہو بھی جائے تو اس کا اس کام سے پیار کم نہیں ہوتا۔ اب میں اس تحریر کا آخری فقرہ بول لکھ رہا ہوں کہ اگر کوئی انسان خوف سے نجات چاہتا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ ہے محبت؟ محبت آزادی کا نام ہے۔ کسی انسان کو ہر قسم کی شرائط سے آزاد کرنے کو محبت کہتے ہیں۔ امید ہے تحریر میں جو میں کہنا چاہتا تھا وہ بات سب تک پہنچ چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments