عورت مارچ: اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے


کبھی اپ نے سوچا ہے کہ جو کردار آج آپ کے گھر کی خواتین کا ہے، جس طرح فیصلہ سازی میں وہ شریک ہوتی ہیں۔ کیا ایسا ہی کردار ایک نسل پہلے تھا؟ کیا آپ ماضی کے مردوں کے مقابلے میں گھر کے ان معاملات میں جو خواتین کی ذمہ داری ہوتے تھے، زیادہ شریک نہیں ہیں؟ کیا اپ نے کبھی غور کیا جس طرح کے اسٹڈی آپشن آپ آج اپنی بیٹیوں کو دیتے ہیں، کیا ویسے ہی آپشنز آپ کی بہنوں کو یا آپ کی والدہ کی جنریشن کو تھے؟ کیا کبھی آپ نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا چکر لگایا اور ان شعبوں میں بھی خواتین کی بڑی تعداد کو دیکھا ہے جو ماضی میں میل ڈومین سمجھے جاتے تھے یا جہاں مرد حضرات ایک طرح سے برابر کی تعداد میں ہوتے تھے وہاں اسی سے نوے فیصد خواتین ہیں جیسے میڈیکل کا شعبہ جہاں خواتین نے تقریباً مردوں کو ریپلیس کر دیا ہے۔ کیا اپ نے پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھی ہے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد وہاں بیٹھی ہوتی ہے، خواتین تمام بڑی پارٹیز کی ترجمان بن کر ٹی وی پر نظر آتی ہے۔ ملک کی ایک بڑی پارٹی کا ووٹ بینک ایک شہید خاتون کی وجہ سے ہے اور دوسری بڑی پارٹی کی مستقبل کی قیادت ایک خاتون کو سمجھا جارہا ہے۔

آٹھ مارچ آنے والا ہے اور اسی کے ساتھ وہ مباحث بھی شروع ہوچکے ہیں جو پچھلے چند سالوں سے عورت مارچ کے حوالوں سے سوشل میڈیا کی زینت ہوتے ہیں۔ فیمنسٹ موومنٹ کی ہسٹری کیا ہے؟ کس طرح عورتوں کے بنیادی معاشرتی حقوق حاصل ان معاشروں میں حاصل کیے گئے تھے جو آج کل ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں خواتین کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، اس مارچ کے سلوگن معاشرے پر منفی مثبت کیا اثر ڈالیں گے؟ یہ وہ بنیادی ٹاپکس ہیں جو اگلے پورے مہینے ڈسکس ہوں گے۔ مگر میرا موضوع ان مباحث کو ٹچ کرنا نہیں ہے بلکہ کچھ بنیادی حقائق بتانا ہیں جن پر بحثیت معاشرہ ہم غور و فکر اور تحقیق نہیں کرتے۔

انسانی معاشرے بھی ارتقائی عمل سے گزرتے ہیں اور یہ ارتقائی عمل اس نظام کے زیر طبع ہوتا جو بالادست ہوتا ہے، اس نظام میں ہونے والی تبدیلیاں پورے معاشرتی ڈھانچے میں پڑتی ہیں اور اس سے اپ چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے۔ معاشرے چاہے بظاہر ان اثرات سے جتنا بچنا چاہے، جتنی مزاحمت ہو مگر آخر میں ان کو وہ تبدیلیاں قبول کرنی پڑتی ہیں۔ آج پاکستانی مردوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ”اپنا کھانا خود گرم کرو“، ”میرا جسم میری مرضی“، ”لو بیٹھ گئی“ اور اس طرح کے نعرے ایک فتنہ ہیں تو وہ حقیقت کے ادراک کرنے سے قاصر ہے کہ وقت کے ساتھ ناصرف مردوں کو امور خانہ داری میں حصہ لینا پڑ رہا ہے، بلکہ کھانا گرم کرنے کے ساتھ ساتھ بنانا بھی پڑ رہا ہے، جس طرح عورت کا کام کرنا معاشی طور پر ناگزیر ہوتا چلا جارہا ہے تو وہ وقت دور نہیں جب مردوں کو برابر کی شراکت کرنی پڑے گی۔

کراچی لاہور اسلام آباد میں خواتین موٹر سائیکل چلا رہی ہے اور وہ موٹر سائیکل پر مردوں جیسے پوز میں بیٹھیں گی اور ہو سکتا ہے مستقبل میں حفاظتی قوانین ایسے بن جایئں کہ کسی دوسری طرح بیٹھنا قانونی طور پر ممکن نہ ہو۔ جس طرح مردوں کو لباس اور جسم کا معاملات میں آزادی ہے، وقت کے ساتھ بتدریج وہ آزادی عورتوں کا مقدر بن رہی ہے۔ ہم ان ارتقائی تبدیلیوں کے آگے جتنا بند باندھ لیں مگر یہ ہونا ہے اور اپ مردوں اور عورتوں کی حثیت اور حقوق میں جنریشن وائز تحقیق کریں تو تبدیلیاں بہت ہی گہری ہے۔

ایک بنیاد پرست باپ بھی میڈیکل کالج، انجینیرنگ یونیورسٹی، فائنانس انسٹیٹیوشن وغیرہ کی لائن میں کھڑا ہوکر اپنی بچی کے لئے فارم لیتا ہے، ایک بھائی جس کو پتا ہے کہ معاشرہ خواتین کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے وہ اپنی بہن کو باہر جانے پر پابندیاں نہیں لگاتا بلکہ اپنے گھر کی خواتین کے لئے الگ کردار ہوتے ہیں کیونکہ بیک آف دی مائنڈ یہ سب جانتے ہیں کہ مستقبل ایک پڑھی لکھی مضبوط خاتون کا ہے اور ہم کو اپنی گھر کی خواتین کو کس طرح تیار کرنا ہے۔

جب اسمبلی میں خواتین کی مختص سیٹس پر نامزدگیاں ہوتی ہے تو مذہبی لیڈرز اپنے گھر کی خواتین کو آگے کرتے ہیں، وہ اسمبلی میں مردوں کے شانہ بشانہ بیٹھ کر قانون سازی کرتی ہیں۔ سو غیر ارادی طوریا غیر شعوری پر معاشرہ نے خواتین کے حقوق پر ایک طرح سے اتفاق کر لیا ہے۔ اب شعوری سطح پر تسلیم کرنے کا معاملہ بچا ہے۔

معاشرتی ارتقائی عمل کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجیکل ایڈوانسمنٹ نے بھی اس عمل کو تیز تر کر دیا ہے۔ جو شعبہ ایک زمانے میں مردوں کی اجاراداری سمجھے جاتے تھے اور ہارڈ اسکل کی ریکوائرمنٹ ہوتی تھی وہاں انسانوں کو مشینوں نے یا تو تبدیل کر دیا ہے یا بتدریج تبدیل کر رہی ہے اور وہاں سوفٹ اسکل کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے، مردوں کا ایڈوانٹیج ختم ہورہا ہے۔ خواتین پڑھ رہی ہیں تو موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق دن بہ دن فنی لحاظ ان کی ورک فورس بڑھ رہی ہے۔

جو کام امور خانہ داری میں عورتوں کے سمجھے جاتے تھے وہاں بھی ٹیکنالوجی انقلاب برپا کرنے کے دار پر ہے، روبوٹک کلینیر، ڈش واشنگ مشین، کپڑے دھونے کی مشین وغیرہ نے گھر کے کام میں خاتون کی ریکوائرمنٹ کو کم سے کم کر دیا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو پی ایج ڈی ہیں وہ سنگاپور میں اس کمپنی کے ساتھ منسلک تھے جو روٹی بنانے کی مشین روٹی میٹک بنا رہی ہے، اس میں اپ کو آٹا، پانی اور آئل ڈالنا ہے اور روٹیوں کی تعداد لکھنی ہے اور حسب ضرورت ”گول“ روٹی، پراٹھے یا پوری وہ مشین نکال کر دے گی۔

دنیا میں ورکنگ آورز پر تبدیلیاں ہورہی ہیں تاکہ مرد اور خواتین دونوں بچوں اور فیملی کے ساتھ اچھا ٹائم گزر سکیں۔ سو وقت کے ساتھ ساتھ ترجیجات تبدیل ہورہی ہے، کسی خاص جنس کی مونوپولی ختم ہورہی ہے اور بعض جگہ انسانوں کی ضرورت ہی ختم ہورہی ہے، جو نئے شعبے بن رہے ہیں وہ کسی جنس کی اجارہ داری نہیں، اگر اجارہ داری ہے تو وہ ہنر مندی کی ہے، سوفٹ سکل کی ہے، اپ کی تعلیم کی ہے، اور ہمارے معاشرے میں یہ ایڈوانٹیج خواتین حاصل کر رہی ہیں۔ پچھلے سالوں میں میڈیکل یونیورسٹیز میں مردوں کی نہایت ہی کم تعداد کے سبب میل کوٹہ فکس کرنے کی بات ہورہی ہے، انجینرنگ جو ایک زمانے میں میل دومیننٹ شعبہ ہوا کرتا تھا اس میں خواتین نصف کی تعداد تک پہچ رہی ہیں، کوئی تعلیمی شعبہ اٹھا لیں خواتین جھنڈے گاڑ رہی ہیں۔

جب سماجی، معاشرتی اور ٹیکنالوجیکل محاذ پر دیوار پر لکھی ہی تحریر صاف نظر آرہی ہو تو عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم ایک مکالمہ کریں، جہاں زیادتیاں ہیں ان کا ازالہ ہو، قانونی سطح پر جو سقم ہیں، ان کو بیٹھ کر دور ہو۔ پچھلے دو تین سال سے 8 مارچ کے آنے پر جس طرح کا شور ہوتا ہے وہ ہمارا غیر شعوری عدم تحفظ ہے کہ یہ خواتین مضبوط ہو رہی ہیں اور صدیوں سے جن چیزوں پر قبضہ جمائیں بیٹھیں ہیں، وہ مسندیں خطرے میں ہیں۔ ہم جتنا شور کر لیں مگر وقت کے ساتھ مردوں کو سپیس چھوڑنی پڑ رہی ہے، اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں شکست تسلیم بھی کرنی پڑے گی۔

سو کیوں نہ باوقار طریقہ سے جس طرح مغرب نے یہ معاملہ تسلیم کر لیا ہے، ہم بھی ان معاملات کو تسلیم کریں۔ ورنہ اگر ہم ڈٹے رہے تو ہم کو یاد رکھنا پڑے گا کہ ہم کو مستقبل میں اس استحصال کا سامنا نہ ہو جو آج تک ہم کرتے آئے ہیں، عورت کی بجائے مرد آبجیکٹیفائی ہو، ہم صرف کھیل تماشے تک محدود ہو جائیں۔ اگر اپ کو لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا تو اپنے ملک کی تاریخ دیکھیں کہ جب یہ یقین ہوجائے کہ طاقت کا سرچشمہ کہاں ہے تو تمام اصول، مذہبی دلیلیں، انا پرستی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

اور وہ لوگ جو خواتین کی حکمرانی کے قائل نہیں ہوتے، وہ فاطمہ جناح کے پیچھے کھڑے ان کو صدارتی امیدوار بنا رہے ہوتے ہیں، یا ایک خاتون وزیر اعظم کی سربراہی میں قائم حکومت میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بنے ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مرد اگر اس طرح کی ثانوی پوزیشن حاصل نہیں کرنا چاہتے تو ابھی بھی موقع ہے کہ تاریخ کی عدالت میں ہم آوٹ آف دی کورٹ سیٹلمنٹ کر لیں۔ اس سے پہلے کہ مقدمے کا فیصلہ آ جائے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments