قطر اور افغانستان سے تعلقات میں ایک نازک موڑ


یہ شاہد خاقان عباسی کی گرفتار ہونے سے کچھ عرصے قبل کی بات ہے میں اور عزیز دوست صحافی طارق عزیز شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی غرض سے ان کے گھر پر موجود تھے اس ملاقات میں یہ واضح طور پر محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اپنی سیاسی سوچ کے سبب سے اپنی گرفتاری کی کسی وقت بھی توقع کر رہے ہیں۔ ایل این جی معاہدے کے حوالے سے ایک ایک تفصیل ان کو ازبر تھی لیکن اس بات پر پریشان بھی تھے کہ ان کو ایک ایسے کیس میں الجھانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ جس کے اثرات صرف پاکستان پر داخلی طور پر ہی نہیں تھے بلکہ قطر جیسے اہم ملک اور دیرینہ دوست کے حوالے سے خارجہ امور کے اثرات سامنے آسکتے تھے بہرحال اگر فیصلہ ساز اتنا سمجھنے کی صلاحیت رکھتے تو جو کچھ جولائی 2017 سے کھلے عام وطن عزیز کے ساتھ ہورہا ہے وہ نہ ہوتا۔

شاہد خاقان عباسی اپنی ضد پر قائم رہے ورنہ بہت عرصے قبل ہی زندان سے آزادی حاصل کر لیتے میری بات کی دلیل اسلام آباد ہائیکورٹ کے یہ ریمارکس ہیں کہ حکومت نے کسی اور ملک (امریکہ) سے گرانٹ لے کر اس ملک نے خودایک فرم کی خدمات حاصل کیں اس وقت صوبے کے لیے عوامی فنڈز کا استعمال نہیں کیاگیا بلکہ یو ایس ایڈ کے فنڈز استعمال کیے اس معاملے میں پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کے کوائف لاگو ہی نہیں، ان ریمارکس کے بعد کیس کی حقیقت کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا پاکستان جو توانائی کے شدید بحران کا سامنا کر رہاتھا اور بدقسمتی سے لگتا ہے کہ عنقریب دوبارہ کرے گا۔

اس کے ایسے معاہدے کو صرف سیاسی ضروریات کے تحت آلودہ کرنا کتنا بھیانک ہے اور یہ امر مزید کتنا بھیانک ہو جاتا ہے جب آپ کے سامنے قطر جیسا ملک ہو کہ جس کی بین الاقوامی اور وطن عزیز کے خارجہ معاملات سے لے کر دفاع اور معیشت تک میں حیثیت مسلمہ ہو چکی ہے۔ امریکہ اور افغان طالبان کا دوحہ میں ہونے والا معاہدہ اس دعوی کی منہ بولتی دلیل ہے۔ جب کہ اسی طرح گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان اور قطر کے باہمی تعلقات بتدریج بہت بڑھتے چلے گئے جس کی وجہ سے دونوں ممالک دوستی اور باہمی مفادات کے نئے رشتوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اسی دوران کیونکہ پاکستان میں عرب تنازعوں میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان کو ایک غیر جانبدار دوست کے طور پر بھی دیکھا جانے لگا

پاکستان میں قطر کے سفیر مبارک المنصوری اس دوستی کو بڑھانے میں غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں جیسا کہ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان جنرل مشرف کی آمریت کے دور میں توانائی کے سبب سے اندھیروں میں ڈوب گیا تھا کہ جن اندھیروں کا خاتمہ 2013 کے بعد بہت برق رفتاری سے ہورہا تھا اس میں قطر سے کیے گئے ایل این جی معاہدے کو ایک کلیدی حیثیت حاصل ہے اور یہ معاہدہ انہی پانچ سالوں میں ہوا تھا۔

معاملہ صرف انرجی کے بحران سے نمٹنے تک محدود نہیں رہا بلکہ قطر اور پاکستان میں دفاعی شعبوں میں بھی ایک دوسرے کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ قطر اپنی افواج کی جانب توجہ دے رہا ہے اور اس توجہ دیتے وقت اس کی نظریں پاکستان کے دفاعی طیارہ سازی کی صنعت کی طرف بھی اٹھی اور اس کے نتیجے کے طور پر قطر نے پاکستان سے آٹھ سپر مشاق طیارے خریدے اور پاکستان سے دفاعی تجارت میں ایک سنگ میل کو عبور کر لیا کافی عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی کہ پاکستان کو نئے بحری راستے اختیار کرنے انہیں تلاش کرنا چاہیے قطر اور پاکستان دونوں نے نئے بحری تجارتی راستے کا انتخاب کیا اور حماد پورٹ سے کراچی پورٹ تک سروس شروع کر دی۔ اس سروس کے نتیجے میں قطر سے اشیاء براستہ کراچی، امریکہ، یورپ اور ایشیاء ودیگر ممالک کو فراہم کی جارہی ہیں۔

خیال رہے کہ یہ بحری راستہ اس وقت اختیار کیا گیا اور ان دونوں بندرگاہوں کے درمیان رابطہ قائم کیا گیا جب پاکستان سی پیک کی بدولت بندرگاہوں کے معاملات میں ویسے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ جب کہ قطر کے اپنے خطے میں تعلقات کی نوعیت کچھ ایسی ہوگئی کہ قطر کو بھی یہ بحری راستہ بہت مناسب لگا۔ 2017 سے اب تک یہ راستہ رواں دواں ہے۔

اسی دوران قطر میں اسلام آباد اور کراچی میں دو ویزے کے دفاتر کھولے جب کہ آن ارائیول ویزے کی سہولت بھی مہیا کر دی۔ اسی دوران اسلام آباد میں قطر کے فوجی اتاشی کا بھی منصب سامنے آگیا۔ اسلام آباد میں قطر کے فوجی اتاشی کے آنے کا ایک واضح پیغام پوری دنیا کو گیا کہ قطر پاکستان سے دفاعی شعبے میں مزید قریبی تعاون کا خواہاں ہے۔ اور وہ پاکستان کی دفاعی مصنوعات میں گہری دلچسپی رکھتا ہے اور یہ دلچسپی صرف سپر مشاق کے خریدنے تک ہی محدود ہی نہیں بلکہ معاملات اس سے آگے کی طرف بڑھیں گے

اسی دوران پاکستان اور قطر کی باہمی تجارت 2.6 ارب ڈالر تک بڑھ گئی، 2018 میں یہ 233 فیصد تک بڑھ گئی۔ قطر نے 3 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری یاڈیپازٹ کی صورت میں بھی گزشتہ سال کی جب کہ سکول سے باہر 10 لاکھ پاکستانی بچوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی معاشی تعاون کے معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ اس وقت صرف دوحہ میں پاکستانی اور قطریوں کی چودہ سو مشترکہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور یہ سب صرف گذشتہ پانچ برس کے مختصر عرصے میں وقوع پذیر ہوا ہے۔

اس کے علاوہ امریکہ اور افغان طالبان کے معاہدے میں بھی قطر نے جو کردار ادا کیا ہے اس کی پاکستان کے لیے جو اہمیت ہے واظہر من الشمس ہے۔ ویسے امریکہ اورافغان طالبان کا معاہدہ ابھی بالکل ایک ابتدائی شکل رکھتا ہے سردست اس کو کسی کیفیت کے خاتمے کی بجائے صرف حالات کے دوران ایک قدم کے طور پر ہی دیکھا جا نا چاہیے، پاکستان کو اس سے زیادہ اُمیدیں نہیں وابستہ کرنی چاہیں

افغانستان کے جھگڑے میں افغان حکومت، افغانستان کے سیاسی بندوبست شامل گروہ، افغان طالبان اور امریکہ کے ساتھ ساتھ وہ گروپ بھی اہم فریق ہیں جو اس دوران افغان طالبان سے بھی علیحدہ ہو گئے ہیں، وہ اس معاملے پر کس حکمت عملی کے ساتھ سامنے آتے ہیں اور جو ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں یہ ابھی تک ایک راز ہے اور اگر یہ راز خدانخواستہ مثبت کی بجائے منفی ہوا تو اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ بہرحال یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ہم قطر افغان معاملات میں کتنی دانشمندی دکھلاتے ہیں کیونکہ اب تک تو صرف میڈیکل رپورٹوں پر جگتیں کسنا ہی دکھائی دے رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments