جاوید احمد غامدی جلا وطنی ختم کر کے جلد وطن واپسی کے لئے پرامید


جس معاشرے میں دین کو سمجھنے سمجھانے کا موضوع نہ بنایا جائے، وہاں دین کو ہمیشہ جذبات کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، جذبات کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور جذبات کو ہی ان کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں جذباتی مذہبی فکر لوگوں میں سرایت کر گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں انتہا پسندی، دہشت گردی اور قتل و غارت کو مذہب کے نام پر تقویت دی جاتی ہے۔

پاکستانی قوم میں کئی عشروں سے ایک سنگین اخلاقی مسئلہ پیدا کر دیا گیا ہے جس سے ہر شخص کی زندگی غیر محفوظ ہو گئی ہے۔ کافی عرصے سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہوئی ہے کہ یہاں پر موجود کچھ دہشت گرد جماعتیں صرف اس شخص کو ہی ہدف نہیں بناتی جس سے انھیں اختلاف یا دشمنی ہو بلکہ اس ماحول میں موجود بے گناہ لوگوں کو بھی اڑا دیتی ہیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہم تنزل کی بدترین دلدل میں گر چکے ہیں۔

یہی وہ غیر اخلاقی مسئلہ تھا جس کے نتیجے میں پاکستان کی ایک ممتاز مذہبی شخصیت محترم جاوید احمد غامدی کو سر زمین پاکستان سے ہجرت کرنا پڑی۔ 2010 میں ان کے لئے یہ ملک اتنا تنگ کر دیا گیا ان کا اپنے گھر کے سامنے والی مسجد میں جانا بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔ جاوید صاحب نے ان حالات کا بارہا نقشہ کھینچا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ”میرے گھر کے سامنے ایک مسجد تھی، میرے ایک ہمسائے نے کہا کہ میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے۔ الگ جا کر اس نے کہا کہ آپ مسجد میں نہ آیا کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں معلوم تھا یہ ظالم صرف آدمی کو نہیں مارتے بلکہ مسجد اڑا دیں گے پوری کی پوری۔ میں نے پھر اس رات فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصے کے لئے باہر چلا جاؤں۔ “

پاکستان چھوڑنے کی وجوہات کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ”پاکستان میں میرے دست راست اور عزیز دوست ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب شہید ہو گئے۔ اسی طرح میرے ایک اور بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر حبیب الرحمان صاحب کو کلینک میں گھس کر مار دیا گیا کہ وہ جو بات اپنے نزدیک صحیح سمجھتے تھے اس کی کچھ خدمت انجام دے رہے تھے۔ میرے رسالے کے مدیر سید منظور الحسن صاحب کے منہ میں میرے دفتر سے نکلنے کے بعد گولی مار دی گئی۔ وہ گولی اب بھی ان کے جسم میں ہے، وہ بڑی اذیت سے گزرے ہیں۔

میرے ساتھ بھی یہ معاملات ہو رہے تھے پے در پے۔ میرے گھر کے پاس سے کچھ لوگ پکڑے گئے۔ میں یہ دیکھ رہا تھا کہ میرے ہمسائے بہت خوفزدہ رہنے لگ گئے، اس وجہ سے جن لوگوں سے واسطہ ہے وہ کچھ سامنے آ کر تو وار کرتے نہیں۔ ان کے نزدیک کوئی آدمی ہدف ہے اور وہ نماز پڑھ رہا ہے تو پوری مسجد کو اڑا دیں۔ اگر کسی جگہ رہتا ہے تو ان کو کوئی پرواہ اس سے نہیں کہ کتنے بے گناہ مارے جائیں گے۔ انھوں نے یہ فلسفہ قائم کر لیا ہے۔

میرے ایک دوست ہیں جو پاکستان رینجرز کے سربراہ رہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو شخص ان کو مارنے کے لئے آیا تھا، تو اس نے دیکھا کہ اس کے پاس بڑے نمایاں قسم کے سنی افسر ز بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ واپس چلا گیا۔ اور جا کر اس نے پوچھا کہ میں تو وہاں مارنے کے لئے گیا تھا وہاں تو دوسرے بھی مارے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں وہ جہنم میں جائے گا دوسرے جنت میں جائیں گے، دونوں کا فیصلہ کر دیا۔

اس اصول پر ہمارے ہاں قتل و گری ہوتی رہی ہے۔ میں نے یہ دیکھا کی میرے ہمسائے خوف محسوس کرتے ہیں تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ کچہ دیر کے لئے ملک سے باہر چلا جاتا ہوں۔ میرے پاس ایسے وسائل نہ تھے کہ میں ایسا گھر بناؤں جس کے قریب قریب کوئی ہمسایہ نہ ہو۔ اس کی بنیاد پر مجھے فیصلہ کرنا پڑا میں پانچ سال سے ملائیشیا میں ہوں (یہ ایک پرانے انٹرویو سے اقتباس ہے، آج کل آپ امریکہ میں مقیم ہے ) ۔ دیکھئیے اللہ تعالی کب حالات بہتر کرتا ہے تو پاکستان میں جو میرا وطن ہے ضرور واپس جانا چاہوں گا ”

حال ہی میں انہوں نے میڈیا پر عندیہ دیا ہے کہ امید ہے کہ وہ جلد ہی پاکستان منتقل ہو جائیں گے۔

اس مسئلہ کا حل بھی کئی دفعہ وہ پیش کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک مذہبی فکر کو reform نہیں کیا جائے گا، تب تک پاکستان کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور قتل و غارت کو مذہب کے نام پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ پوری جرات مندی کے ساتھ قوم کو educate کرنا چاہیے، میرا احساس یہ ہے کہ جو اس طرح کے رویے کو غلط سمجھتے ہیں انھیں بھی آزادی نہیں کہ وہ اسے عوام میں بیان کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو لعنت کہہ کر نہیں بلکہ جہالت کہہ کر ختم کرنا چاہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments