اے میرے دل کہیں اور چل گاتے امان اللہ چلا گیا


میرا جسم میری مرضی میں ایسا الجھے کہ امان اللّٰہ پر لکھنے میں دیر ہو گئی۔ ہم سب کی ادارتی ٹیم نے عورت مارچ سے متعلق میری مغلظات کو جگہ نہ دے کر روشن خیالی کا مظاہرہ کیا۔ ن م لطیفی یاد آ تے ہیں کہ

، ”وابستہ میری یاد سے کچھ تلخیاں بھی تھیں / اچھا کیا کو مجھ کو فراموش کر دیا“۔

خیر امان اللّٰہ خان کے کامیڈی کنگ ہونے میں تو کوئی دو رائے نہیں لہزا ان کی کامیڈی سے زیادہ میرا فوکس امان اللّٰہ صاحب کی شخصیت پر ہو گا۔ خبرناک میں دو تین برس ان کے ساتھ گزارنے کا موقع ملا اور اس کے بعد بھی وہ آ تے جاتے رہتے تھے۔ بہت ہی مشفق اور سیدھے سادے آدمی تھے۔ ہر بات سے مزاح کا پہلو نکالتے رہتے۔ خواتین کو بیٹا بیٹا کہہ کر پکارتے اور حفظ مراتب کا بڑا لحاظ رکھتے۔ ایک بڑا سا ٹفن گھر سے آ تھا کر لاتے تھے اور قیمہ کریلے ”بھنڈی گوشت وغیرہ سے ٹفن بھرا ہوتا تھا۔

خاں صاحب اس میں سے کچھ نہیں کھاتے تھے۔ سب سے نیچے ایک چھوٹا ٹفن ابلے انڈوں کی سفیدی سے بھرا ہوتا اور ان تمام انڈوں کی زردیاں ایک علیحدہ ڈبے میں ہوتیں۔ خاں صاحب صرف سفیدی کھایا کرتے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ جب اسٹیج پر ناچ شروع ہوا تو خاں صاحب کی مارکیٹ ایسی گری کہ ان کے لئے نقاہت سے چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا۔ ڈاکٹرز نے سفیدی تجویز کی اور خاں صاحب بھلے چنگے ہو گئے۔

” جے میں چاہواں تے اک وہیا ہور وی کر سکنا آ ں“ خاں صاحب یوں کہتے جیسے بتا رہے ہوں کہ عبرت نہ پکڑتا لیکن جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا۔

خان صاحب کی ایک عجیب عادت۔ تھی کہ وہ سگریٹ پیتے پیتے اس کی راکھ ہتیلی ہر پھینکتے اور تھوڑی دیر میں چبانے لگتے۔ میں کبھی اس کی وجہ نہیں جان سکا۔ شاید امانت ان کا صاحبزادہ اس میں کوئی راہنمائی کرے۔ یہ ہمیشہ ہوتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اہک یادو بار ہوا۔ خاں صاحب کو شجرے بہت یاد تھے۔ کسی کی بات چھیڑیں اور خاں صاحب اس کے دادا پڑدادا تک سارا شجرہ نسب بیان کر دیتے لیکن مجال ہے خاں صاحب نے کسی کی برائی کی ہو۔

یہ بات ان کے بارے میں سب لوگ کہیں گے بلکہ میں نے تو کئی بار انہیں چھیڑتے ہوئے مختلف لوگوں کے بارے پوچھا جو واقعی پھیکے تھے لیکن ہر بار خاں صاحب کوئی نہ کوئی روشن پہلو نکال کر پہلو تہی برت لیتے۔ کسی کی برائی نہیں کرتے تھے لیکن ان لوگوں کا مذاق ضرور اڑاتے تھے جو خوامخواہ ایک۔ مصنوعی سنجیدگی طاری کیے رکھتے مثلاً ایک بار کسی بیوروکریٹ کی دعوت پر کارپوریٹ کا کوئی فنکشن بھگتا نے گئے اور واپسی پر ان کی سنجیدہ شکلیں بنا بنا کر ہمیں ہنسایا۔ کہتے جاتے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ سڑے لکھے زیادہ ہوتے ہیں۔

جب خاں صاحب جیو نیوز چھوڑ کر دنیا گئے اور ہائر مینیجمینٹ سے ملاقات ہوئی تو کسی نے کہہ دیا کہ خاں صاحب نے جیو نیوز اس لئے چھوڑا ہے کہ آفتاب اقبال صاحب بہت سخت تھے اور خاں صاحب کو پیشاب نہیں کرنے دیتے تھے۔ سب لوگ بہت جز بز ہوئے۔ آفتاب صاحب بہت نرم مزاج ہیں اور سخت گیری کا تاثر بڑی کامیابی سے دیتے ہیں۔ لوگ اس چکر میں آ جاتے ہیں۔ طاہر سرور میر صاحب امان اللہ خاں کو سیڑھیاں چڑھا کر اوپری منزل پر۔ لے گئے اور کہا یہاں ریسٹ رومز کھلے پڑے ہیں۔ آپ جتنا چاہے پیشاب کریں خاں صاحب۔ آفتاب صاحب عموماً خاں صاحب کو ان کی گرتی صحت کے پیش نظر الٹا سیدھا پینے سے منع کرتے رہتے تھے اور سختی سے منع کرتے تھے تاکہ کام کر حرج نہ ہو۔

خاں صاحب ایک گانا اکثر خبرناک میں گنگنایا کرتے تھے، ”اے میرے دل کہیں اور چل“۔ طلعت محمود کا یہ خوبصورت گیت اکثر ان کے ہونٹوں پر غیر ارادی طور پر مچل جاتا تھا اور میں بہت لطف اٹھاتا کہ مجھے طلعت صاحب بہت پسند ہیں۔ واقعی خاں صاحب کہیں اور چلے گئے۔ کوئی اور در انہوں نے ڈھونڈ لیا۔ خاں صاحب کی تدفین سے متعلق کچھ غلط فہمی جان بوجھ کر پیدا کی گئی اور وہ یہ کہ مولوی صاحب نے کہا کہ یہ نیک لوگوں کا قبرستان ہے میراثیوں کا نہیں۔

دراصل ایسا نہیں ہے۔ خاں صاحب کے لواحقین تین قبروں کی جگہ مانگ رہے تھے جبکہ سوسائٹی قوانین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک ہی قبر کی جگہ دے رہی تھی لیکن فیاض الحسن چوہان صاحب نے بہرحال دو قبروں کی جگہ لیے کر دی اور ایک وڈیو بھی ریلیز کردی کہ انہوں نے شہنشاہ کامیڈی کی آخرت سنوار دی۔ سیاستدان تنکا بھی ہلائیں تو بتانا چاہیے ورنہ بزدار صاحب جیسا حال ہو گا یعنی روز دودھ اور شہد کی نہریں نکال رہے ہیں لیکن ہمیں پتہ ہی نہیں۔ کسی د۔ ن باؤنسر ماریں گے تو پتہ چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments