”جوڑوں کا درد“ اور گھریلو عورت کی معاشی خود مختاری


ہمارے یہاں یہ اصطلاح مشہور ہورہی ہے اور زبان زد عام ہے۔ یہ دیکھنے میں بے ضرر مزاح لگتا ہے جب کہ یہ جنسی تفریق کی ہی مثال ہے اور وہ ہے کہ موسم بدلتے ہی خواتین کو ”جوڑوں کا درد“ ہونے لگتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا عورت کی معاشی ذمہ داری نبھانے کا وعدہ کرنے والا مرد، خصوصاً شوہر کیا یہ نہیں سمجھتا کہ موسم کی تبدیلی کے ساتھ گھر کے ہر فرد کو مناسب لباس کی ضرورت ہوتی ہے؟ کیا گھر کے مردوں اور بچوں کے موسم کی تبدیلی یا کسی تقریب کی آمد پہ مناسب کپڑوں کے بندوبست کے ساتھ ساتھ گھر کی خواتین کے کپڑوں کا بندوبست بھی بنیادی ضرورت میں نہیں آتا؟

یہاں پہ اکثریت کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ بنیادی ضروریات پوری کرنا الگ معاملہ ہے لیکن غیر ضروری خواہشات کرنا نامناسب مانگ ہے جس کو پوری کرنے کی سکت ہر کسی میں نہیں۔ لیکن ضروری اور غیر ضروری کی حد کون طے کرے گا؟

گھریلو خواتین جو مکمل طور پہ گھر کے مرد کے اوپر انحصار کرتی ہوں ہم ان کے عموماً دو طرح کے روئیے دیکھ سکتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنی بنیادی ضروریات کو بھی عیاشی گردانتی ہیں اور موسم کے مناسب لباس، مناسب غذا یعنی پھل وغیرہ کا استعمال حد یہ کہ اپنی بیماری پہ علاج اور دوا بھی اضافی خرچ سمجھ کے ہر ممکن حد تک نظر انداز کرتی ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ خواتین ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ معاشی حوالے سے ہر ضرورت پوری کرنا ان کے گھر کے مرد کا فرض ہے اور اگر وہ یہ استطاعت نہیں رکھتا تو یہ اس کی کوتاہی ہے۔

یہ صورت حال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے جب تعلیم اور معاشرتی روئیوں اور مسائل سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مرد و خواتین مسئلے کے منطقی پہلوؤں پہ توجہ دینے کی بجائے الزام تراشی سے مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس پیچیدگی کی کئی اہم وجوہات ہیں لیکن ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بطور مرد اور عورت صنفی کردار کی تفریق بہت سخت اصولوں کے ساتھ کردی گئی ہے۔ عورت حصولِ رزق میں شامل نہیں ہوگی اور مرد گھر کے کام نہیں کرے گا۔ میں نے کئی لبرل مرد بھی دیکھے ہیں جن کے پاس گھر کی عورتوں کا ہاتھ نا بٹانے کی کئی منطقیں ہوتی ہیں، کئی مذہبی افراد کے پاس مذہبی دلائل ہوتے ہیں۔ اور اسی جگہ کچھ لبرل مرد اور کچھ مذہبی مرد گھر کی خواتین کی سپورٹ کے لیے اپنے اپنے نظریات و عقائد کی بنیاد پہ دلائل رکھتے ہیں اور ان پہ عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔

جیسے جیسے معاشی مسائل بڑھتے جارہے ہیں ویسے ویسے یہ صنفی کردار کی تفریق گھریلو زندگی پہ شدید اثر انداز ہورہی ہے۔ وہ گھرانے جو کچھ عرصے پہلے تک ایک تنخواہ میں مناسب گزر بسر کر سکتے تھے ان کے لیے اب بنیادی ضروریات کے خرچے پورے کرنا ہی مشکل ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں گھریلو خواتین کو معاشی مدد کے لیے آگے آنا پڑتا ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ ان کی حدود گھریلو خاتون کی رہتی ہے لیکن ان کے دن کا بیشتر حصہ حصول رزق کی کوشش میں صرف ہورہا ہوتا ہے، وہ دوسروں کے کپڑے سی رہی ہوتی ہیں، بچوں کو ٹیوشن پڑھا رہی ہوتی ہیں، بیوٹی پارلر چلا رہی ہوتی ہیں، پاپڑ بنا کے بیچ رہی ہوتی ہیں، چھوٹی سی بچوں کی چیزوں کی دکان چلا رہی ہوتی ہیں اور یہ تمام کام وہ اپنی روزمرہ کے گھریلو کاموں کے ساتھ ساتھ کرتی ہیں۔

لیکن ان کے کسی کام کو پیشہ نہی گردانا جاتا۔ نہ اس کام کو جس سے انہیں پیسے مل رہے ہوں نہ گھریلو ذمہ داریوں کو، اور دونوں صورتوں میں گھر میں آنے والے اکثر پیسوں (شوہر اور ان کی کمائی) پہ ان کا حق نہیں ہوتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ معاملہ مرد کے ساتھ بھی ہے متوسط گھرانے کا مرد اپنی ذاتی خرچ کے لیے جو رقم نکالتا ہے وہ یا تو اس کے آنے جانے کا خرچ ہوتا ہے یا دوپہر کے کھانے کا، ورنہ اس کی تنخواہ کا بیشتر حصہ گھریلو اخراجات کی مد میں خرچ ہوتا ہے لیکن اس میں سب سے بڑا فرق ملکیت کے احساس کا ہے۔

خرچ کرنے کی آزادی کے احساس کا ہے۔ پہلی بات عورتوں کی اکثریت کے اپنے ہاتھ میں یا تو سرے سے پیسے ہوتے ہی نہیں اور اگر ہوتے ہیں تو وہ ماہانہ ہزار یا اس سے بھی کم پیسے ہوتے ہیں۔ جو کہ شوہر یا باپ کی طرف سے اپنے خرچے کے لیے ملتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں اور نچلے شہری گھرانوں میں مینٹینسس کی رقم دینے کا کوئی تصور موجود نہیں نہ ہی والدین نکاح کے وقت یہ رقم لکھواتے ہیں۔ شاید اکثر کو پتا ہی نہیں کہ یہ رقم لکھوائی جاسکتی ہے۔

ان کا زیادہ زور جائیداد میں حصہ لکھوانے پہ ہوتا ہے جو کہ کسی نا کسی حوالے سے گھر کے مرد کے قبضے میں ہی رہتی ہے۔ حق مہر کی رقم عموماً لڑکی کے والدین یا بھائیوں کو ادا کی جاتی ہے اور جہیز تو بہرحال ملتا ہی لڑکے اور اس کے گھر والوں کو ہے۔ یعنی عملی طور پہ لڑکی کی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا۔ بہت کم گھرانوں میں جو کہ تناسب میں 10 فیصد بھی نہیں ان میں لڑکی وہ رویہ اپناتی ہے جو کہ ڈرموں اور فلموں میں نافرمان بہو کا دکھایا جاتا ہے۔ اور جس کی بنیاد پہ اب ہر بہو کو خود غرض سمجھا جاتا ہے۔

عورت اگر کسی قسم کے معاشی، نفسیاتی یا گھریلو مسئلے کا شکار ہے یا بھلے بیمار بھی ہے تو اس کے ہاتھ میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے طور پہ اس مسئلے کو حل کرلے۔ جو مسئلہ اس کے لیے بہت اہم ہے دوسرے اسے سمجھنا تو دور کی بات سننے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اسے موسم کے لیے مناسب لباس لینا ہے، اس کا وہ سالن کھانے کا دل چاہ رہا ہے جو مہینوں سے شوہر کی وجہ سے نہیں پکا سکی مگر اسے پسند ہے، اس کی ماہواری بے قاعدہ ہے اور علاج کی ضرورت ہے، وہ اداس رہتی ہے اور اس مسئلے کو حل کرنا چاہتی ہے، وہ اپنی بہت قریبی دوست کی شادی میں اپنی پسند کا تحفہ دینا چاہتی ہے۔ ان سب فیصلوں پہ کئی افراد کی مرضی مسلط ہوتی ہے۔ جن میں سر فہرست شوہر اور ساس ہوتے ہیں۔

یہ صورت حال عورت کو نہ صرف ذہنی دباؤ کا شکار بناتی چلی جاتی ہے بلکہ وہ بتدریج کئی جسمانی مسائل کا ناصرف شکار ہوجاتی ہے بلکہ علاج کا مرحلہ تب آتا ہے جب بیماری علاج کی حدود سے نکل چکی ہوتی ہے۔

ان مسائل کا سب سے سادہ حل یہ ہے کہ گھریلو عورت کو بھی معاشی اعتبار سے قانونی تحفظ حاصل ہو۔ کہنے کو حق مہر اور ماہانہ خرچ کی رقم اس کا حل لگتے ہیں لیکن پہلا مسئلہ تو یہی ہے جو اوپر بیان ہوا کہ مذکورہ رقوم کی ادائیگی لڑکی کو ڈائریکٹ نہیں ہوتی۔ دوسری بات ان کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی قانونی حد مقرر نہیں ہے۔ یعنی دینے والا لاکھوں دے تو بھی عورت ناکافی کی شکایت کرسکتی ہے اور دس روپے دے کر بھی قانونی شرط پوری ہوسکتی ہے۔

ایک اور اہم مسئلہ یہ کہ گھریلو عورت جو گھریلو کاموں میں بھلے جتنی ہی طاق کیوں نہ ہو اسے بالکل باصلاحیت نہیں سمجھا جاتا۔ ہم ہر مدرذ ڈے پہ اس کے لیے زبانی کلامی شکریہ کے ڈھیر تو لگا دیتے ہیں لیکن اس کے مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کرتے ہم مانتے ہیں کہ وہ واحد مزدور ہے جو 24 گھنٹے مزدوری پہ ہوتی ہے لیکن اس مزدوری کی اجرت بھی مقرر ہو یہ نہیں چاہتے۔ جب کہ یہ باقاعدہ صلاحیت ہے اور اسے بطور پیشہ یا پروفیشن مانے جانا چاہیے۔

اور قانونی طور پہ اس کو بطور پروفیشنل حیثیت دے کر اس کی ماہانہ خرچ یعنی باقاعدہ تنخواہ کی حد مقرر کی جانی چاہیے جو کہ نکاح نامہ کی ضروری شق ہو۔ اور جو افراد یہ تنخواہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے ایسی صورت میں عورت کو قانونی حق ہو کہ وہ اپنا خرچ پورا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پہ کوئی کام کر سکے اور اس سے اپنی ضروریات کے خرچے نکال سکے۔ یہ جہاں ایک طرف عورت کی معاشی خودمختاری ہے وہیں ایک عورت کو معاشی حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس دلانے کا لیے بھی ضروری ہے۔

وہ خواتین جو ناصرف خود کو عضو معطل سمجھتی ہیں بلکہ عملی طور پہ اس کا ثبوت بھی پیش کرتی ہیں۔ شادی سے پہلے، شادی کے بعد، مطلقہ یا بیوہ یا ہمیشہ غیر شادی شدہ رہنے کی صورت میں وہ گھر والوں کے لیے معاشی طور پہ کڑی آزمائش بنی رہتی ہیں۔ کیوں کہ وہ کسی بھی قسم کہ نا تو ذمہ داری نبھاتی ہیں نہ گھر کے مرد کے معاشی مسائل سمجھتی ہیں۔ ایسے گھرانوں کے مرد معاشرتی دباؤ اور اپنی مردانگی کے زعم میں ان خواتین کو کبھی اپنی معاشی ذمہ داری اٹھانے کا نہیں کہتے اور گھریلو ماحول بد سے بدتر ہوتا چلا جاتا ہے۔

ایسی خواتین کو بھی ان کی معاشی ذمہ داری کا احساس ہونا بہت ضروری ہے۔ کہ قانونی بلوغت کی عمر تک وہ کوئی نہ کوئی ایسا ہنر ضرور سیکھیں وہ چاہے گھر سنبھالنا ہو یا کوئی اور پروفیشن جس کی بنیاد پہ وہ ایک فعال گھر کے فرد کا کردار ادا کرسکیں اور لاشعوری طور پہ احساس کمتری کا شکات ہوکے دوسروں کے لیے ذہنی تکلیف کا باعث نہ بنیں۔

شاید آپ میں سے بہت سے لوگ کہیں کہ ابھی بھی بہت سی خواتین گھر کے خرچوں میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں یا اپنا خرچ اٹھانے کی خود کوشش کرتی ہیں، لیکن جناب مسئلہ تو یہی ہے کہ وہ یہ سب کر کے بھی گھریلو خاتون کے خانے میں ہی رہتی ہیں اور شوہر، باپ، بھائی آکر سب سے پہلے یہی کہتے ہیں کہ تم آخر سارا دن کرتی کیا ہو؟ یقیناً ذہنیت بدلنے کے لیے ایک آرٹیکل، چند ماہ یا ایک قانون کافی نہیں لیکن قانونی تحفظ سے بہت کچھ بدلا جاسکتا ہے۔ عورت جب تک معاشی طور پہ خود مختار نہیں ہوگی وہ ”جوڑوں کے درد“ میں مبتلا رکھی جائے گی۔

خواتین محنت کشوں کا عالمی دن مبارک

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments