عورتوں کی تحریک۔ ایک نئی فکر کی ضرورت


ہر برس آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں عورتوں کا دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد ریاستی، حکومتی، ادارہ جاتی سمیت معاشرے کے تمام طبقات میں عورتوں سے جڑے مسائل پر آگاہی اور ان کے سیاسی، سماجی شعور کی اہمیت کو پیش کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں بھی اس دن کی بڑی اہمیت ہے۔ کیونکہ پاکستان میں عورتوں کی سیاسی، سماجی، معاشی یا قانونی حیثیت کے زمرے میں لاتعداد مسائل موجود ہیں۔ خاص طور پر معاشرے میں موجود عورتوں کے بارے میں تنگ نظر، انتہا پسند، روایتی یا قبائلی، جاگیر دارانہ ذہنیت پر مبنی سماجی وسیاسی تعصبات کی مختلف جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اسی طرح اگر ہم اپنے تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، ماحول سمیت دیگر معاملات میں ریاستی سطح پر موجود اعداد و شمار کو دیکھیں تو اس میں ہمیں واضح طور پر صنفی بنیادوں پر تفریق نظر آتی ہے۔

اسی طرح پاکستان میں عورتوں سے جڑی قومی یا صوبائی پالیسیوں یا قانون سازی کے معاملات میں ماضی کے مقابلے میں بہت بہتری نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود دو مسائل اہم ہیں۔ اول کچھ پالیسیوں اور قانون سازی میں سقم یا کمزوریاں موجود ہیں جو یقینی طو رپر اصلاع کا تقاضا کرتی ہیں۔ دوئم اصل چیلنج ان پالیسیوں اور قانون پر عملدرآمد سے جڑا کمزور نظام ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اگر اچھی پالیسی یا قانون کی موجودگی بھی ناقص، کمزور اور عدم نگرانی، عدم شفافیت یا عدم جوابدہی کی وجہ سے عورتوں کی سیاسی اور سماجی حیثیت میں کوئی بڑی نمایاں تبدیلی کا عمل نظر نہیں آتا۔

اس وقت عالمی دنیا سمیت پاکستان میں ”پائدار ترقی اہداف 2015۔ 30“ کے تناظر میں بڑی بحث اور سیاسی کمٹمنٹ دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہماری ریاستی عالمی سطح پر اس امر کو یقینی بنانے کی پابند ہے کہ وہ 2030 تک عورتوں اور بچیوں کے تناظر میں تعلیم اور صحت کے اہم شعبوں میں موجود صنفی تفریق کو ختم کرنے میں اہم اقدامات کرے گی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بلاوجہ عورتوں سے جڑے مسائل یا ان سے جڑی تحریک کو ایک منفی سوچ کے ساتھ دیکھا جاتا ہے۔ بالخصوص یہاں پر موجود قدامت پسند یا مذہبی طبقہ یا قبائلی یا جاگیر درانہ مزاج عورتوں سے جڑے مسائل یا ان کی تحریکوں کو عورتوں کے خلاف ایک بڑ ی عالمی سازش کے طو رپر جوڑ کر اسے منفی انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں یہاں عورتوں کے مسائل یا تحریک کے حوالے سے جو تقسیم کا عمل نظر آتا ہے وہ بلاوجہ اس تحریک کو متنازعہ بھی بناتا ہے۔

حالانکہ پاکستان میں عورتوں کے مسائل پر کوئی بڑی تقسیم کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہی وہ بنیادی حقوق ہیں جو 1973 کے دستور میں موجود پہلے باب بنیادی حقوق سے جڑے ہوئے ہیں جو آئین کی شق ایک سے اٹھائیس میں موجود ہیں۔ ان میں تعلیم، صحت، روزگار، فیصلہ سازی، تنظیم سازی، ووٹ، تحفظ، انصاف، عدم تشدد، جبر اور طاقت کا استعمال، کام کی آزادی، معلومات کا حق سے جڑے مسائل ہیں۔

اس لیے یہ سمجھنا کہ عورتوں سے جڑے بنیادی مسائل ہمارے سیاسی، سماجی، قانونی یا آئینی فرئم ورک سے باہر ہیں تو یہ درست نہیں ہوگا۔ یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ عورتوں کے مسائل پر چلنے والی تحریکوں کو بھی اسی سیاسی، قانونی اور آئینی فرئم ورک کے اندر ہی رہ کر اپنی سیاسی اور جمہوری جدوجہد کو آگے بڑھانا ہے۔ اصولی طور پر تو جو عورتیں معاشرے میں اپنی حیثیت کے تناظر میں کمزور ہیں یا ان کی حیثیت کمزور اور محروم طبقہ میں آتی ہے اس پر مجموعی طور پر ریاست اور حکومت سمیت معاشرے کا ذمہ دارانہ کردار اور زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

معاشرے میں مختلف نوعیت کے روایتی اور تنگ نظر پر مبنی رسم ورواج کی بنیاد پر عورتوں کے لیے ایک ایسا ماحول پیدا کرنا یا ان پر دباؤ ڈال کر مختلف معاملات پر مجبور کرنا یا ان کی ترقی کے عمل میں رکاوٹیں پیدا کرنا ایک صحت مند معاشرے کی عکاسی نہیں کرتی۔ روزانہ کی بنیادوں پر ہمیں کمزور عورتوں کے ساتھ مختلف نوعیت سے جڑے استحصال، تشدد اور عدم انصاف کی جھلکیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔

شہروں اور دہیاتوں کی سطح پر عورتوں یا لڑکیوں کو مختلف طرز کے مسائل کا سامنا ہے اور بالخصوص ہمارا سماجی، سیاسی، قانونی اور انتظامی ڈھانچہ دیہی سطح پر بہت کمزور ہے اور عورتوں کو بہت کم آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتوں کا کردار عورتوں کے حقیقی مسائل سے بہت دور ہے۔ ان کی کمزور سیاسی کمٹمنٹ اور محض سیاسی نعروں تک خود کو محدود کرنے سے عورتوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے اور زیادہ بڑھ رہے ہیں۔

قومی، صوبائی اسمبلیوں یا سینٹ کی سطح پر عورتوں کی موثر نمائندگی کے باوجود ہمیں عورتوں سے جڑے قومی ایجنڈے میں مختلف نوعیت کے مسائل اور تضادات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ میڈیا کی سطح پر عورتوں کے کاموں سے جڑ ے مثبت کردار کو پیش کرنے کی بجائے مجموعی طور پر ان کے کاموں کو منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ عورتوں کے حقیقی مسائل پر بحث بہت کم اور ایسے مسائل پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے جو ریٹنگ میں مدد فراہم کرے اور اس کے نتیجے میں عورتوں کے مسائل پر لوگوں کو یکجا کرنے کی بجائے ان کو عملا تقسیم کرنا یا ان میں ٹکرا و پیدا کرنا مقصد بن جاتا ہے۔

ہماری مذہبی جماعتیں اور علمائے کرام کے سیاسی ایجنڈے میں عورتوں سے جڑے مسائل کی اہمیت بہت کم ہے اور جو لوگ بھی ان کے حقوق کی بات کرتے ہیں ان کومعاشرے میں مختلف تعصبات کی بنیاد پر تنقید کی جاتی ہے۔ حالانکہ مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کو تو عورتوں کے اہم مسائل کے حل میں خود کو ایک بڑے کردار کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔ اس تاثر کی نفی ہونی چاہیے کہ مذہب عورتوں کی ترقی کے خلاف اور مذہبی جماعتیں عورتوں کی ترقی کو ایک دشمن ایجنڈا سمجھتی ہیں۔

سول سوسائٹی، سیاسی ومذہبی جماعتوں، میڈیا اور ریاستی و حکومتی اداروں کے درمیان عورتوں کے مسائل پر ایک بڑا اتفاق رائے سامنے آنا چاہیے۔ ان کے درمیان ٹکراؤ اور الزامات کی سیاست سے عورتوں کے مسائل یا ان کی تحریک کو کوئی بڑا فائد ہ نہیں بلکہ نقصان ہوگا۔ ریاست اور حکومت کو اپنے موجودہ معاملات یا طرزعمل میں نظر ثانی کی ضرورت ہے اور پالیسیوں یا قوانین پر ایک بڑے علمدرآمد کے نظام سے جڑی ہے۔

بنیادی مسائل تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، تشدد سے پاک سازگار ماحول اور ہر شعبہ میں انصاف اور صنفی تفریق کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ عورتوں کو ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنا ہوگا اور ان پر جبر اور طاقت کی بنیاد پر فیصلوں کو مسلط کرنا ختم ہونا چاہیے۔ اصل بات آج کی دنیا میں عورتوں کو معاشی تحفظ کی فراہمی بھی ہے۔ ریاستی و حکومتی یا نجی سطح پر عورتوں کے لیے معاشی روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور ان کو کام کرنے کا ایسا ماحول فراہم کرنا جہاں وہ بغیر کسی خوف، ڈر اور ججھک یا جنسی خوف و ہراس کے بغیر کام کرسکے۔

یہ صرف ریاست یا حکومت ہی کی نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کی ذمہ داری بنتی ہے۔ یہ جو عورتوں کے بارے سماجی رسم ورواج یا روایات کی بنیاد پر عورتوں کا برے انداز میں استحصال کیا جاتا ہے اس کے لیے رائے عامہ بنانے کی سطح پر کام کرنے والے انفرادی یا اجتماعی کام کرنے والوں کو ایک بڑی سماجی سطح پر تحریک کی ضرورت ہے۔ ایسی تحریک جو بنیادی طور پر عورتوں کو معاشرے میں نہ صرف مضبوط بناسکے بلکہ ان کو بہتر تحفظ دے کر ان کی ترقی کے عمل کو زیادہ مضبوط اور با اختیار بنایا جائے۔

ہمارا مقصد لوگوں یا مردوں سمیت با اختیار طبقات کو عورتوں کے مسائل پر جوڑنا ہونا چاہیے اور ہر طرح کی تقسیم کو پیدا کرنے سے گریز کرکے ایک ایسے ماحول کو یقینی بنایا جائے جہاں کمزور عورتیں اپنے بنیادی حق کو تسلیم بھی کرواسکیں اور حق کے لیے لڑ بھی سکیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ عورتوں کے مسائل محض عورتوں سے نہیں جڑے ہوئے۔ یہ قومی سطح کے مسائل ہیں اور ان کو قومی مسائل کے طور پر ہی دیکھا جانا چاہیے اور ا س تحریک میں خود مردوں کو بھی پیش پیش ہونا چاہیے۔

خاص طو رپر ہماری نئی نسل جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں وہ خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کروائیں اور آج کے جدید میڈیا یعنی سوشل میڈیا کی مدد سے عورتوں کے مسائل کے حل میں خود کو ایک بڑے سیاسی اور سماجی سفیر کے طور پر پیش کریں۔ کیونکہ جب عورتیں ترقی کرتی ہیں تو یہ ترقی محض ان تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ یہ مجموعی طور پر ان کے، خاندان اور معاشرے کی ترقی پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments