عورت اور مرد کے جھگڑے سے باہر آئیے


یونانی فلسفی ارسطو نے انسان کی معاشرتی نوعیت کے بارے میں سختی سے کہا تھا: انسان فطری طور پر ایک معاشرتی جانور ہے۔ اگر کوئی فرد اتفاقی طور پر یا حادثاتی طور پر اس زمرے میں نہیں آتا تو پھر یا تو وہ انسان سے بہت اوپر کی کوئی چیز ہے یا پھر وہ انسان ہی نہیں۔ سماج میں رہتے ہوئے ایک نارمل انسان کو سماجی رویوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ عورت اور مرد نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔

اللہ تعالی نے یہ نر اور مادہ کی موجودگی نہ صرف انسان میں رکھی ہے بلکہ دنیا کی ہر چیز چاہے وہ جاندار ہے یا بے جان، ان سب کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے۔ اور اسی قدرتی نظام کی وجہ سے سے دنیا کی بقا ہے اور زندگی کی ریل پیل نظر آتی ہے۔ باقی جاندار کیونکہ گفتگو نہیں کر سکتے اور کرتے بھی ہیں تو ہم ان کی زبان اور الفاظ کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے ان کے خیالات اور احساسات کو ہم نہیں پرکھ سکتے۔ مگر سائنس کے لوگ جو جانداروں اور بے جانداروں کو سمجھنے کا علم رکھتے ہیں وہ یہ بات ضرور جانتے ہیں کہ ان میں نر اور مادہ ایک دوسرے کے لیے کتنی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ نر اور مادہ کی تخصیص صرف جنسی اعتبار سے نہیں ہے بلکہ غیر جاندار اجسام میں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ کیمسٹری اور فزکس کے لوگ جانتے ہیں اگر پازیٹیو نیگیٹیو اور نارتھ ساؤتھ پول نہ ہوں تو سائنس کی کوئی بھی ایجاد ممکن نہیں۔

خدا کی بنائی ہوئی کسی بھی تخلیق سے انکار ہرگز ممکن نہیں اور ہر چیز کے بنانے میں اس کی کوئی نہ کوئی منطق ضرور ہے بس انسان ہی ہے جو اس کو شاید عارضی طور پر سمجھنے سے قاصر ہے۔ خدا کے ہر تخلیق اپنی جگہ پر بہت اہم ہے۔ ہاں یہ ممکن ضرور ہے کہ شاید اس وقت انسان کے پاس عقل فہم نہ ہو تو اس کی اہمیت افادیت کو سمجھ سکے۔ لیکن جوں جوں وقت گزر رہا ہے انسان اپنی عقل اور فہم سے فطرت کی بنائی ہوئی چیزوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا جا رہا ہے۔ جب اس بات پر یقین کامل ہو جائے کہ خدا کی بنائی ہوئی ہر چیز اہم ہیں۔ تو پھر انسان اپنے معاشرے میں یہ سوال اٹھاتا ہے کہ کون سی چیز کم اہم ہے اور کون سی چیز زیادہ اہم ہے۔

آج کل وطنِ عزیز میں عورت اور مرد کو برابر کرنے کی ایک جنگ جاری ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ عورت اور مرد اپنی اپنی جگہ پر انتہائی اہم ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے مرر امیج ہیں لہذا یہ ایک دوسرے کے مخالف ہوتے ہوئے ہی اچھے لگتے ہیں۔ آپ اپنے ہم مزاج شخص کا بائیاں ہاتھ اپنے دائیں ہاتھ میں لے کر آگے کی طرف چل سکتے ہیں۔ کیونکہ دایاں ہاتھ ہی بائیں ہاتھ کا مرر امیج ہے۔ لہذا یہ بات تو ذہن سے نکال دیں کہ کسی بھی فرد کی اہمیت سے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اب آگے بات آتی ہے ان کی ضروریاتِ زندگی اور حقوق کی۔ اگر آپ دونوں کو انسان سمجھتے ہیں تو دونوں کی ضروریاتِ زندگی اور حقوق بھی برابر ہی ہونے چاہئیں۔

اگر عورت کے کسی عمل سے مرد کے جذبات، عزت و وقار، غیرت اور مردانگی پر اثر پڑتا ہے تو بالکل اْسی طرح مرد کے کسی عمل سے عورت کے جذبات، عزت و وقار، غیرت اور نسوانیت پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ہم نے ساری عزت، غیرت اور مردانگی عورت سے ہی منسوب کیوں کر لی ہے۔ عورت کچھ غلط حرکت کرے تو مرد کی عزت غیرت جوش کھا جاتی ہے۔ جبکہ یہی مرد جو مرضی برائی کر لے عورت کو خاموشی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے اس کو بھی تو تکلیف ہوتی ہے۔

بیٹی یا بہن کوئی غلط حرکت کرے تو مرد کی غیرت آپے سے باہر ہو جاتی ہے یہی غیرت اس وقت بھی آپے سے باہر ہونی چاہیے جب بیٹا یا بھائی کوئی غلط حرکت کرتا ہے۔ جائیداد میں بیٹے اور بھائی کا حصہ ہے تو اسی طرح سے بیٹی اور بہن کو بھی جائیداد میں شرعی حصہ دینا چاہیے۔ شریعت تو دونوں کو ان کے حقوق دینے کا کہتی ہے تو پھر یہاں پر ہمارے مذہبی اور غیر مذہبی لوگ ڈنڈی کیوں مار جاتے ہیں۔ اپنی عقل اور فہم استعمال کرتے ہوئے اپنے حق میں مختلف اختراع بنا لی جاتی ہیں۔

لوگ اپنی بہنوں کے شرعی حصے اپنے حق میں معاف کروا لیتے ہیں اور ان پر یہ احسان جتایا جاتا ہے کہ تمہیں تعلیم اور جہیز بھی تو دیا ہے۔ برائے مہربانی جہیز کو ختم کرکے اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو ان کا شرعی حقِ جائیداد دے دیں۔ قرآن سے شادی اور غیرت کے نام پر قتل بھی عورت ہی کی جاتی ہے کبھی کسی مرد کی قرآن سے شادی یا غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوا۔ اگر عورتیں مردوں کو غیرت کے نام پر قتل کرنا شروع کردیں تو مرد صرف بیالوجی کی کتابوں میں ہی نظر آئیں۔

زمانہ جاہلیت جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہاں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ وہی تاریخ ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ مکہ مکرمہ میں بڑے بڑے تاجروں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام کاروباری حلقوں میں سب سے معتبر تھا۔ مرد اگر دنیا کے دکھ اور تکلیف برداشت کرتا ہے تو ایک سلجھی ہوئی عورت بھی اینٹوں سے بنے ہوئے مکان کو محبت سے بھرا گھر بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھائے رکھتی۔ ہمارے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب پہلی بار وحی نازل ہوتی ہے تو وہ گھبرائے ہوئے پریشانی کے عالم میں گھر آتے ہیں۔

اس وقت وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کو دلاسا اور حوصلہ دینے والی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ایک عورت ہی تھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت کے ایک بڑے عیسائی عالم کے پاس لے جاتی ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوت پر سب سے پہلے ایمان لے آتی ہیں۔ اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ صرف بھرپور مدد کرتی ہیں بلکہ تادمِ مرگ ان کے لیے خوشی اور اطمینان کا باعث بنتی ہیں۔ ہر جنس کا کارخانہ کائنات میں ایک اہم مقام ہے۔ مرد کا اپنا رتبہ ہے اور عورت کا اپنا مقام ہے۔ عورت اگر اپنا حق مانگتی ہے تو مرد کو اس کا جائز اور شرعی حق دینا چاہیے۔

میرے ایک دوست جو کہ ماشاءاللہ ایک مذہبی انسان ہیں اور ان کا پورا گھرانہ صوم و صلوۃ کا پابند ہے۔ کچھ دن پہلے مجھ سے کہنے لگے یہ عورتیں بہت بے حیا ہو گئی ہیں یہ آخر کس چیز کا حق مانگ رہی ہیں۔ دین اسلام میں چودہ سو سال پہلے ان کو تمام حقوق دے دیے ہیں۔ میں نے عاجزانہ طور پر ان سے گزارش کی کہ اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ سے ایک سوال کر سکتا ہوں۔ کہنے لگے جی ہاں آپ پوچھ سکتے ہیں۔ میں نے کہا آپ ساری دنیا کی باتوں کو چھوڑیں۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا آپ کی والدہ ماجدہ کو ان کے والد صاحب کی جائیداد سے شرعی حصہ ملا تھا۔ کہنے لگے نہیں ہمارے ماموں نے قبضہ کر لیا تھا۔ میں نے پھر پوچھا کیا آپ نے اپنی بہن اور بیٹی کو اپنی جائیدادوں سے شرعی حصہ دیا ہے۔ کہنے لگے کہ بہن پر تو ہم نے بہت خرچہ کیا تھا اس کو ڈاکٹر بنایا بہت سارا جہیز دیا تو شرعی حصے کی کیا ضرورت۔ بیٹی کے بارے میں بھی ان کا جواب نہیں میں ہی تھا ایک اور منطقی اور مضبوط دلیل کے ساتھ جو کہ ان کی اپنی ہی ایک اختراع تھی۔ میں نے عرض کی جناب یہی حق تو وہ مانگ رہی ہیں جو اسلام نے تو چودہ سو سال پہلے ان کو دے دیا ہے مگر ہم نے اور ہمارے معاشرے نے ان کو نہیں دیا۔

حق مانگنے والے پر ہم الزامات اور ناراضگی کا اظہار کرکے اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عمل انفرادی سطح سے لے کر ملکی سطح پر دیکھنے میں آتا ہے۔ عورت سے محبت کا دعویٰ کرنے والوں کا یہ عالم ہے کہ ہر شخص ہمیشہ اولادِ نرینہ کی ہی دعا کرتا ہے اور بیٹی کے پیدا ہونے پر نہ صرف اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے بلکہ بیٹی پیدا کرنے والی عورت پر بھی طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد دوسری شادی بھی اولادِ نرینہ کے لیے ہی کرتا ہے۔

حالانکہ سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ بیٹے یا بیٹی کی پیدائش کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد ہے۔ یہ جائیداد والی صرف ایک مثال میں نے آپ لوگوں کے سامنے رکھی ہے اس طرح کے سینکڑوں حقوق ہیں جو ہم لوگ مذہب کا لیبل لگا کر عورت کو چپ کرا دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ حقوق عورت کو کبھی نہیں دیے جاتے۔ مرد عورتوں کے حکمران ہیں ان سے ان کی رعایا کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔

عورتیں مرد کی حکمرانی کو تسلیم کریں اور مرد حضرات عورتوں کے تمام شرعی اور جائز حقوق ان کو ادا کریں۔ میرا نہیں خیال کہ پھر کسی عورت کو عورت مارچ کی ضرورت پیش آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments