کیساجسم، کیسی مرضی


کہانی آپ اُلجھی ہے یا الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ تب کھلے گا جب تماشا ختم ہو گا

آخر ہر بار ایسا ہی کیوں ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شروع کی جانے والی لاحاصل بحث قومی مسئلے کی شکل اختیار کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ آزادی اظہار اور حقوق نسواں یہ دونوں سلوگن آج تک ہماری ناقص عقل میں سما نہیں پائے۔

مثلاً ہمارے سماج میں آزادی اظہار پر لوگ اتنا زیادہ اظہار کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ فی الوقت اس سے بڑا انسانی مسئلہ کوئی اور ہے ہی نہیں ہر خواہش مند حسب توفیق اور حتی المقدور اپنی رائے کا اظہار مختلف طریقوں سے کر دیتا ہے کوئی اخبارات، رسائل کے ذریعے، کوئی میڈیا چینلز کے ذریعے اور باقی تمام امیدوار سوشل میڈیا کے ذریعے اور کچھ لوگ تو یہ کام پمفلٹ چھاپ کر یا پھر یہ سہولت بھی میسر نہ ہو تو شہر کی دیواروں پر سیاہی سے لکھ کر۔ الغرض اس سلسلے میں مایوس کوئی نہیں ہوتا۔ سب ہی پیٹ کا اپھارہ اور دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے طریقے ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔

الحمدللہ پاکستان میں بڑے ہی ذہین اور فطین لوگ بستے ہیں۔ کسی نہ کسی شکل میں ہر مشکل کا حل تلاش کر ہی لیتے ہیں۔

لیکن یہ ہمارا آ ج کا موضوع نہیں ہمیں اصل تعجب ”آزادی نسواں“ کے انتہائی ترقی یافتہ نعرے پر ہوتا ہے اس لیے نہیں کہ ہم عورت کی آزادی کے خلاف ہیں۔ بلکہ اس لیے کے نسوانی حقوق کی جنہیں زیادہ اشد ضرورت ہے اور جو اس کو حاصل کرنے کی تگ و دود میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھتیں۔ ان آزاد ترین خواتین کو اس کی ضرورت ہے؟ کمال است

کیا ہمارے معاشرے میں عورت آزاد نہیں؟

آپ آزاد ہونے کی صحیح تعریف کیا کرتے ہیں یا آپ کے ذہن میں آزادی کا خاکہ کیا ہے۔

یہی ناں کہ تمام انسانوں کو بغیر صنفی امتیاز کے اقوال و اعمال کی مکمل آزادی ہو۔ اور ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں چونکہ کفالت کی ذمہ داری زیادہ تر مرد حضرات کی ہوتی ہے اس لیے ایک مجموعی سا تاثر قائم کیا گیا ہے کہ خواتین چونکہ مردوں کے زیر کفالت ہیں اس لیے وہ قول و فعل میں آزاد نہیں ہیں۔

یہ تاثر یکسر تو نہیں مگر زیادہ تر غلط ہے۔ کچھ جگہوں پر یہ صورت حال ہو سکتی ہے مگر مجموعی طور پر ایسا ہرگز نہیں۔ زیادہ تر خواتین اپنی مرضی کرنے میں مردوں کی طرح ہی آزاد ہیں۔ اب یہ تو جسمانی ساخت اور توانائی پر منحصر ہے کہ وہ مردوں جیسے جانفشانی کے کام کس حد تک کر سکتی ہیں۔

اور اگر آزادی خاندان اور گھروں کے امور میں مطلوب ہے تو جناب ہمیں تو پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص خواتین ہر جگہ زیادہ حاوی نظر آتی ہیں۔ اور اس کی بڑی وجہ ہماری مذہبی تعلیمات اور معاشرتی اقدار ہیں۔ ہمارے یہاں درجہ اول جس عورت کو بغیر کسی مقابلے کے حاصل ہے وہ ”ماں“ ہے۔ حتی کہ باپ کا درجہ بھی عموماً ماں کے بعد ہی رکھا جاتا ہے۔ چاہے ہمارا تعلق دیہی و شہری کسی بھی طرز معاشرت سے ہو۔

بہنوں کو ہمارے کلچر میں جیسی عزت، اور بیٹی کو جیسی تکریم حاصل ہے کیا وہ دنیا کے کسی اور معاشرے میں نظر آتی ہے۔

اور بیوی کو تو وہ مراعات حاصل ہیں جن میں شوہروں کی ذہن سازی تک شامل ہے اس کا مشاہدہ ہر شخص اپنی ذات میں اپنے گھر میں اچھی طرح کر سکتا ہے۔ اکثر گھروں میں تو بیوی کا کہا ہی حرف آخر ہے۔ چاہے شوہر کتنا ہی طرم خان ہو۔

اپنی مرضی کے کپڑے، اپنی مرضی کا کھانا، اپنی مرضی کی تفریح، اپنی مرضی کی تعلیم، اور اپنی مرضی کی شادی۔

زیادہ تر خواتین اس فارمولے پر عمل کر رہی ہیں بس یہ ہے کہ جس کو اللہ نے جتنی توفیق دی ہے اتنا ہی کام جاری ہے۔ کہیں زیادہ کہیں کم آمدنی کے مسئلہ درپیش ہیں تو وہاں خوتین اور مرد ایک دوسرے کے شانہ بشانہ محنت کر تے ہوئے نظر آتے ہیں ملازمت پیشہ خواتین کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ مسائل اخلاقی طرز عمل کے ہیں۔ ان کا آزادی سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ اگر کچھ مرد غلط ہیں تو یہ ان کا انفرادی رویہ اور تربیت ہے۔ اس کا تعلق آزادی نسواں سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ ہاں اس کو معاشرے میں پھیلتی ہوئی اخلاقی پستی کا نام دیا جا سکتا ہے۔

اوراگر کچھ گھرانوں میں میاں بیوی کے تعلقات کم آمدنی کی وجہ سے یا کسی بھی قسم کی ذہنی و جسمانی ہم آہنگی میں کمی یا فقدان کے باعث خراب ہوتے ہیں تو یہ بھی معاشرے کی مجموعی شکل تو نہیں۔ افراد کا انفرادی رویہ ہے جس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے۔ مگر اس رویے یا باہم اختلافی مسائل کو حقوق نسواں سے کیسے جوڑا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں تو دونوں فریقین متاثر ہوتے ہیں۔

رزق کے معاملات تو اللّہ کے ہیں اس کی شکایت مرد سے نہیں کرنا چاہیے مگر خواتین کر دیتی ہیں۔

پھر یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہماری نام نہاد فلاحی حقوقِ نسواں تنظیموں کو مزید کون سی مرضی کرنی ہے جبکہ وہ طبقہ تو پابندی کے کسی بھی رنگ سے آشنا ہی نہیں ہے۔ میرا جسم، میری مرضی پرتو یہ لوگ پہلے ہی سے عمل پیرا ہیں اس کے لیے بینر اٹھانے کی ضرورت تو اس طبقہ نسواں کو کبھی تھی ہی نہیں۔

میرا جسم میری مرضی کا نعرہ تو ان خواتین ہی نہیں مردوں کو بھی لگانا چاہیے جن کے جسم معاشی جدوجہد کی سختیاں جھیلتے ہوئے تھکن سے چور چور ہیں۔ ان سفید پوش لوگوں کو لگانا چاہیے جو اپنے گھر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے طاقت سے بڑھ کر جسم کو تکلیف دیتے ہیں۔

اس طبقے کو لگانا چاہیے جو مہنگے داموں بکنے والے برانڈڈ لباس نہیں پہن سکتے۔ جن کے جسم مہنگے ریسٹورنٹس میں بکنے والے مہنگے کھانوں سے محروم ہیں۔ اورصاحب ثروت لوگوں کی تحقیر آمیز نگاہیں برداشت کرتے ہیں۔

یہ نعرہ تو فیکٹریوں اور گھروں میں کام کرنے والی ان خواتین کا حق ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ بوجھ اٹھا کر اپنے گھر کا چولہا جلاتی ہیں شوہروں کی مددگار بنتی ہیں اور ساتھ ہی بچوں کی پرورش بھی کرتی ہیں۔ اور ہماری یہ سوکالڈ تنظیموں میں شامل سوشل ورکر ٹائپ خواتین ایسی عورتوں کو مارے حقارت کے آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتیں۔ انہیں ایسے جسموں سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔

یہ نعرہ تو ان نحیف جسموں کا حق ہے جو اکثر ٹریفک سگنلز پر، مہنگے شاپنگ مالز کے باہر سڑکوں پر کندھے سے کسی کمزور بچے کو لگائے ہوئے، یا کبھی کسی گاڑی پر کپڑا لگاتے ہوئے ملتجیانہ نگاہوں سے لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں اور نفیس خواتین کو ایسے جسموں سے کراہت محسوس ہوتی ہے۔

یہ نعرہ تو ان لڑکیوں کا حق ہے جنہیں بیٹے کی شادی کے لیے پسند کرنے بن سنور کر آئی ہوئی خواتین دیکھتی ہیں اور انہیں کسی لڑکی کا رنگ کم لگتا ہے، کسی کا قد، کسی کا جسم موٹا، کسی کا سوکھا اور وہ مال مفت کی طرح ریجیکٹ کر کے چلی جاتی ہیں۔ اور ان ہی جیسی بے چاری عورتیں ان کی مائیں ایک دوسرے سے بھی منہ چھپانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

کیا ان خواتین نے کبھی کسی پوسٹر پر لکھا ہے میرا جسم، میری مرضی آپ مجھے مسترد کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ کیا جسم پر مہنگے لباس نہ ہونا میرا جرم ہے۔ کیا جسم کا رنگ بنانے کا اختیار ہمارا ہے۔ کیا رزق کی تقسیم کا اختیار میرا ہے۔ کیا معاشی لحاظ سے دولت کی تقسیم کا اختیار ہمارا ہے۔

ہر گز نہیں تو پھر آپ کا احتجاج کس بات پر ہے رب کی تقسیم پر اس نے مرد کو مضبوط اعضا عطا کیے اس پر عورت کو جسمانی طور پر مرد سے کمزور رکھا اس پر یا اس پر کے آپ کو جسم کی ستر پوشی کا حکم دیا اس پر تو یہ تو جس نے دیا ہے اس سے احتجاج کریں کسی مرد سے کیا احتجاج کرنا اس اللہ نے تو آدم و حوا کو دانہ گندم کھانے سے منع اسی لیے فرمایا تھا کہ حجاب ہٹ گیا تو شرمسار ہونا پڑے گا۔ پر گندم بھی کھائی گئی اور ستر پوشی کی ضرورت بھی پڑی اور دنیا بھی تخلیق کی گئی۔ پھر کیسا جسم، کیسی مرضی

سو اب جھوٹے نعرے لگا کر انسانوں کو ان کے اصل حق سے محروم کرنے کی کوششیں ترک کر دیں اور مثبت مقاصد کے لیے جدوجہد کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments