عورت نے مرد کو جنم دیا! مردوں نے انہیں بازار دیا؟


چھت پر بے فکری سے کھیلتی تتلی کو قابو کرنے کی جستجو میں اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ کب سب نیچے چلے گئے۔ اس نے بھی اپنے قدم سیڑھیوں کی جانب بڑھائے تب ہی سامنے اپنے چچا (ابا کے کزن) کو کھڑے پایا۔ سکون کا سانس لیتے ہوئے عائشہ بولی، آپ دروازہ لاک کر کے آئیے گا اور اسی اثناء میں اس نے عائشہ کو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ بارہ سال کی عمر میں یہ حصار عائشہ کو کسی بھی طرح محبت یا تحفظ کا نہیں لگا۔ وہ بوسہ جو اس کے گالوں سے لبوں پر اور وہ ہاتھ جو گردن سے چھاتی تک پہنچا اس تتلی کے سب رنگ چرا لے گیا۔

کبھی سوچا ہے آپ نے اس لمحے کی اذیت کو اور پھر اس تکلیف کو بھی بیان نہ کر پانہ۔

بد قسمتی یہ بھی کہ وہ چچا کب تک اسے اسی طرح پیار کرتا رہا اور وہ اس پیار کو رشتوں کے احترام میں سہتی رہی کیونکہ وہاں ایسی آوازیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔ ہاں ایک بار کوشش کی تھی کہ اماں ضرور سنیں گی تب گال پر پڑنے والا تھپڑ اور بے حیا ہونے کا میڈل ایسا ملا کہ تتلی پکڑنے کی خواہش بھی دم توڑ گئی اور خواب دیکھنے کی تمنا بھی رخصت ہوئی۔

آپ کے ساتھ ہوا ایسا کبھی؟

وہ اماں کے ساتھ بازار میں اپنے لیے کپڑ ے اور جوتے لینے آئی تھی جب اماں جوتے پسند کرنے میں مصروف تھیں اور دکاندار جوتا پہنانے کے چکر میں جس طرح اس کے پا ؤں کو چھو رہا تھا و ہ اس کی جان نکالنے کو کافی تھا۔ تبھی اماں نے ایک جوتے کی طر ف اشارہ کیا اور ساتھ ہی بولیں پچھلے آٹھ سال سے یہی آتی ہوں اب تو مکمل اعتبار ہے آپ پر۔ مگر صائمہ نے جوتا پہننے سے انکار کر دیا جس پر امی ناراض اور حیران ہوئیں۔

کپڑے کی دکان پر دکاندار سے کہا گیا ذرا بیٹیا کے ساتھ لگا کر سائز چیک کر لو۔ ان معزز صاحب کا ہاتھ نہ صرف صائمہ کے سینے پر آ کر رک گیا بلکہ باقاعدہ اس سینے کو دبایا بھی گیا۔ وہ بجلی کی تیزی سے دکان سے یہ کہتے ہوئے نکلی کہ مجھے کچھ نہیں لینا۔ گھر جا کر امی نے ثابت کیا کہ وہ بہت بدتمیز ہیں۔

کیا آپ کے ساتھ ہوا کبھی ایسا؟

سر راہ چلتے چلتے کوئی آپ کے جسم کو چھوتا ہوا گزرے۔ سامنے سے سینہ ہو یا پیچھے سے کمر اور ہپس۔ کہنا کتنا گندہ لگ رہا ہے نہ!

میرا جسم میری مرضی! اف گندی بات۔

رسول اکرم صلی اللہ کے پاس ایک خاتون آئیں کہتیں یا رسول اللہ میرے والد نے جہاں میری شادی کی ہے مجھے وہ شخص پسند نہیں۔ اس میں خرابی کوئی نہیں ہے بہت اچھا ہے۔ بس مجھے پسند نہیں۔ بتائیے میری رہنمای کیجئے۔ میرے آقا محمد ص نے فرمایا۔ تم اس سے طلاق لے لو۔ یہ تمہارا حق ہے۔

جناب قابل احترام معزیزین شہر۔ ا س نعرے پر رہنے کی بجائے بحیثیت مسلمان ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ آپ جیسے مردوں کے معاشرے میں ایک مسلمان بیٹی یہ آواز لگا رہی ہے۔

ماروی سرمد نے کہا کہ میری مرضی کہ میں اپنے شوہر کے ساتھ جسمانی تعلق رکھنا چاہوں یا نہ۔ کیا کفر کے فتوئے لگائے اس پر۔ یہ درست ہمارا دین اس حوالے سے واضح تعلیمات دیتا ہے۔ مگر ان حضرات کے بارے میں ہمارا دین کیا کہتا ہے جو اپنی بیویوں کو ان کے شرعی حق نہیں دیتے، وہ خواتین جو جسمانی آسودگی کے لیے اپنے شوہروں کی منتظر ہو تی ہیں مگر وہ اپنی ہوس کہیں اور پوری کر چکے ہوتے ہیں! کیا حکم ہے ان کے لیے؟

جسم پر مرضی کا اختیار صرف جنسی خواہشات نہیں ہیں صاحب۔ اب ذہنی، جسمانی اور تعلیمی تشدد سے انکار ہے۔ نہیں جلنا سسرال میں جہیز نہ لانے کی وجہ سے، نہیں مرنا چولہا پھٹنے سے، بیٹیاں پیدا کرنے کی وجہ سے، نہیں پاؤں پکڑنے شوہر کے کہ وہ طلاق کی دھمکیاں دے دے کر اپنے نا جائز مطالبات منوائے، نہیں شو پیس بن کر اچھے رشتوں کے چکر میں اپنی انا اور خوداری کو مزید کچلنا۔

ہر اس چچا، ماموں، کزن، استاد، بھائی، جو عزت پر ان رشتوں کے ر وپ میں ہاتھ ڈالے گا اب اس کا ہاتھ ہم خود کاٹیں گے۔ ہر وہ شخص جو ہمارے ماں باپ کو جہیز کے لیے اپنے سامنے جھکائے گا اس کو ٹھوکر ہم خود ماریں گے۔

اس کے علاوہ میرا جسم میری مرضی کا کوئی اور مقصد ہے ہی نہیں۔ ہم خلیل الرحمان قمر نہیں ہیں جو اپنی زندگی کی محرومیوں کو کبھی ڈراموں میں دو ٹکے کا کر کے بیان کرتا ہے ا ور کبھی ٹی وی سکرین پر اپنی گندی زبان کے ذریعے بتاتا ہے کہ وہ عورت کو کس نظر سے دیکھتا ہے۔

اور نہ ہی ہم ماروی سرمد ہیں جن کو یقین ہی نہیں کہ مرد باپ، بھائی، بیٹے اور شوہر کی صورت میں محا فظ بھی ہوتے ہیں اور محبت، عز ت دینے والے بھی۔

ہم آوازیں اونچی کرنے پر نہیں بلکہ د لائل مضبوط کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم وقت آنے پر اپنی اولاد کے لیے باپ بھی بنتیی ہیں اور ماں باپ کے لیے بیٹا بھی۔ ہمارے، خلوص، محبت، بہادری او ر بے لوث محبت کو جانچنا ہو تو دیکھنا اللہ خود کو ماں سے تشبیہ دیتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments