میری کوئی مرضی نہیں


میری کیا مرضی ہوگی میری تو گواہی بھی آدھی مانی جاتی ہے، چاہے میں جرم اپنے سامنے اپنے سامنے ہوتا دیکھ بھی لوں تو مجھے اپنی آدھی لولی لنگڑی گواہی کے ساتھ دیوار سے لگا دیا جاتا ہے اور اس کی گواہی پوری مان لی جاتی ہے جو شریکِ جرم ہوتا ہے۔ میری عزت سرِ بازار تار تار کردی جاتی ہے ہزاروں لوگوں کے سامنے برہنہ گھمایا جاتا ہے تب بھی مجرموں کو سزا دینے کے بجائے مجھے ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے یا پھر مک مکا کرکے مجرم آزاد گھومتے ہیں کہ دیکھو ہماری مرضی یہ ہے۔

میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئر، ٹیچر بن جاؤں تب بھی میری شادی کے وقت برادری میں رشتے ڈھونڈے جاتے ہیں اور اگر کسی ان پڑھ کا رشتہ منع کردوں تو لب ِ سڑک گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے کیونکہ میری کوئی مرضی نہیں، با اثر غنڈے ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور ان کے بچانے والے انھیں بچالیتے ہیں۔

میں وہ ہوں جو پس ماندہ ترین علاقوں میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کرلوں تب بھی میری تعلیم کام نہیں آتی، کام آتے ہیں تو قبیلے برادری کے قانون اور میری یہاں بھی مرضی نہیں چلتی۔ میں اپنے باپ بھائیوں کے کالے کرتوتوں کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہوں کہیں کاری کرکے کہیں ونی کرکے، کہیں باپ کی دوسری شادی میں وٹے سٹے کے نام پر دس سال کی عمر میں اپنے سے کئی گنا بڑے مرد سے بیاہ دی جاتی ہوں، میرے ہاتھ سے گڑیا چھین کر مجھ سے کھیلنے کے لیے بڈھے کے حوالے کردیا جاتا ہے یہ بھی میری مرضی نہیں ہوتی۔

میں ہنس کھیل نہیں سکتی اپنے رشتے داروں کی شادی میں ناچ گا لوں تو ویڈیو وائرل ہوجاتی ہے مجھ سمیت ویڈیو بنانے والوں تک کو قتل کردیا جاتا ہے میرا کیس لڑنے والوں کو بھی زندگی کی بازی سے ہارنا پڑتا ہے یہ بھی میری مرضی نہیں۔ میری مرضی تو وہاں بھی نہیں چلتی جہاں میں پڑھ لکھ کر گھریلو ذمہ داریوں میں مرد کے شانہ بشانہ جاب کرتی ہوں اور گھر بھی سنبھالتی ہوں لیکن پھر بھی مرد کے تشدد کا شکار ہوتی ہوں یہ بھی میری مرضی نہیں۔ دفاتر میں مرد باس کی اچھی بری حرکات سہتی ہوں، اپنی عزت داؤ پر لگا کر جاب کرتی ہوں یہ بھی میری مرضی نہیں کیونکہ میرے گھر میں یتیم بہن بھائی بھوکے مرجائیں گے۔

میرے مسائل ان نعروں سے حل ہونے والے نہیں کیونکہ میں ایک عورت ہوں ہزار نعرے لگالوں، ہزار مارچ کرلوں، میری ساری رسیاں تو ان مردوں کے ہاتھ میں ہیں جو مجھے کٹھ پتلیوں کی طرح اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں، ذرا میں ان کی حکم عدولی کروں مجھے دو کوڑی کا کردیتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کا سوچنا بھی میرا جرم ٹھہرتا ہے اور مجھے ان کی مرضی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے۔ کیا میں حاکم وقت سے یہ سوال کرنے کی حقدار ہوں کہ مجھے کب اول درجے کا شہری قرار دیا جائے گا کب آپ مجھے میرے جائز حقوق دلوائیں گے جو مجھے میرے مذہب اسلام نے بھی دیے ہیں، میری پسند سے میری شادی، میرا باپ کی جائیداد میں حصہ، مجھے کام کرنے کی اجازت، مجھے شوہر رہنے کے لیے الگ گھر دے، مجھے عزت دی جائے یہ سارے حقوق مجھے مل جائیں یا پھر آپ کی ہی مرضی چلے گی۔

آج جو عورت مارچ میں شریک ہوتی ہے وہ ان عورتوں کے لیے بھی لڑ رہی ہے جو اپنے گھروں میں فرسودہ روایات برداشت کر رہی ہیں، جنھیں گھر کے صحن سے آگے نکلنے کی اجازت نہیں، جو چپ چاپ مردوں کے حکم پر رسوم ورواج کی سولی چڑھ جاتی ہیں۔ عورت کے حقوق پر مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے آپس میں مل بیٹھ کر مسائل حل کیے جائیں نا کہ ایک نعرے کو لے کر عورت کی تذلیل کی جائے۔ عورت کی عزت اتنی ہی ہو جتنی مرد کی اس معاشرے میں ہے۔

اکیلی عورت بھی نکلے تو مرد کی ہوسناک نظروں کا سامنا نہ کر ے، کاش یہ دن بھی آئے۔ بے جا بحث مباحثے میں پڑنے کے بجائے مسئلے کی سنگینی کو سمجھ کر حل کیا جائے۔ آج اگر عورت اسلام کے مطابق بھی اپنے حقوق حاصل کرلے تو یہ ایک کامیابی ہوگی کیونکہ اسلام کا پرچار کرنے والے اسے یہ حق بھی نہیں دینا چاہتے شاید یہی وجہ ہے کہ عورت نے پہلا نعرہ ”میری مرضی“ سے شروع کیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments