عورت کا جسم مرد کی مرضی


ہم ان خواتین کے خلاف مورچہ زن ہونے کو عین جہاد سمجھتے ہیں جو ”میرا جسم، میری مرضی“ کے غلیظ اور فحش سلوگن کو مشرق اقدار کے دشمنوں کی فنڈ سے چلا رہے ہیں۔ بھلا عورت کے جسم پر عورت کی مرضی کیسے ہو سکتی ہے؟

عورت کو قدرت نے مرد کی تسکین کے لیے پیدا کی ہے اور اس کے جسم پر مرضی بھی مرد کی ہی چلے گی۔ معروف لکھاری اور فحاشی کے خلاف جہادی ڈرامہ نگار نے بہت خوبصورتی سے اپنے ہٹ ڈرامے میں واضح کیا ہے کہ ”مرد کی فطرت خدا جیسی ہوتی ہے، جس طرح خدا شرک معاف نہیں کرتا اسی طرح مرد بھی عورت کی نافرمانی برداشت نہیں کر سکتا۔ “ اب ایسے میں فحش سلوگن ”میرا جسم میری مرضی“ کو غیرت مند اور باحیا مرد کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔

ہم اپنے پُرکھوں سے سنتے آئے ہیں کہ پہلے مرد کو تخلیق کیا گیا، جب اس کا دل نہ لگا تو اسے بہلانے کے لیے مرد کے ہی جسم کے ٹکڑے سے عورت کا جنم ہوا۔ یوں عورت مرد کے ہی جسم کا حصہ ہے تو پھر اس کے جسم پر بھی مرد کا ہی حق ہے اور مرد اس اختیار کا استعمال تا قیامت کرتا رہے گا۔

سادہ الفاظ میں عورت کا جسم مرد کی پراپرٹی ہے، اور ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پراپرٹی کو جب چاہیں جیسے چاہیں استعمال کریں۔ صدیوں سے مردوں نے یہی جائز حق ہی تو استعمال کی ہیں۔ مثلاً مرد کو حق حاصل ہے کہ وہ ایک لڑکی کی شادی چاہے تو دس سال کی عمر میں ہی کروا دے یا پھر ستر سال کی عمر میں دس سالہ بچی سے نکاح کر لے۔ اسی طرح مرد جب چاہے تو خون بہا میں عورت کو دے سکتی ہے جیسے ہمارے ہاں عمومی طور پر کیا جاتا ہے۔

اس نقطے کو مزید واضح کرنے کے لیے یہ مثال کافی ہے کہ ہم میں سے کیا کسی نے اس بات پر کبھی اعتراض کیا کہ مالک کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ اپنے پالے ہوئے جانوروں کو زبح کر دے یا فرخت کر دے؟ مگر مرد ظالم نہیں ہے، وہ اپنے عورتوں کی بہت طریقوں سے خیال رکھا ہے۔ حدود میں آزادی دی ہے ؛ کھانا کھلاتا ہے اور زندہ رہنے کے لیے کافی کچھ عنایت کی ہے۔ اب کوئی عورت اس احسان سے ناجائز فائدہ اٹھا کر نافرمانی کا مرتکب ٹھہرتی ہے تو سزا تو بنتی ہے۔

انھی نافرمانیوں کی بدولت ہی مجبوراً مرد کو سختی کرنا پڑتا ہے جو کہ عین جہاد ہے۔ اب ”محبت اور جنگ میں سب جائز ہے“، تو ایسے میں تیزاب پھینکنے، ریپ، مارپیٹ اور ہراسمنٹ کے واقعات ہوتے ہیں۔ اب فیصلہ عورت کے ہاتھ میں ہے کہ وہ مرد کی فرمان بردار بن کر جیتی ہے یا چند شر پسند عورتوں کے دھوکے میں آکر حقوق کا شوشہ چھوڑ کر مردوں کے حقوق پر ڈھاکہ ڈالنے کی کوشش کرتی ہے۔

جو بھی ہو مرد جہاد کے لیے تیار ہیں چاہے تشدد کا جائز حق یعنی تیزاب، مار پیٹ، جبری سیکس، غیرت میں آکر قتل یا کھڑے کھڑے طلاق کی صورت میں ہو یا ہردلعزیز لکھاری خلیل الرحمن قمر کی قیادت میں قلم سے جہاد کی شکل میں۔ انشاءاللہ ہر شکل میں فتح ہم مردِ حق مردوں کی ہی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments