عورت مارچ غیر اسلامی نہیں ہے


خواتین کے حقوق کی جنگ اب ترقی یافتہ ممالک کی سرحدوں سے نکل کر تیسری دنیا کے ممالک تک پھیل چکی ہے۔ عورت مارچ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان کے تناظر میں بات کرنے سے قبل یہ ضروری ہے کہ عالمی سطح پر خواتین کے تسلیم شدہ بنیادی انسانی حقوق کی فہرست مرتب کر لی جائے۔ جو کچھ یوں ہے۔

شخصی حقوق: زندگی کا تحفظ۔ نقل و حرکت کی آزادی۔ جائیداد کی ملکیت کا حق۔ پبلک یا پرائیویٹ جگہ پر مذہب کے اظہار اور مذہبی رسومات کی آزادی۔ غلامی، تشدد اور ذلت آمیز سزاؤں سے بچاؤ۔ رشتہ استوار کرنے کی آزادی۔

قانونی حقوق: قانون کی نظر میں برابری۔ قانونی معاملے کی صورت میں انصاف کی فوری فراہمی۔

سیاسی حقوق: سیاسی سرگرمیوں بشمول جلسے، جلوس کی مکمل آزادی۔

معاشی اور سماجی حقوق: تعلیم اور روزگار کے برابر مواقع کا حصول، معقول اور غیر امتیازی معاوضہ، کام کی جگہ پر جنسی ہراسگی سے تحفظ، صحت کی بہتر سہولیات تک رسائی۔ بلوغت کی قانونی عمر سے پہلے شادی سے تحفظ۔ ماں بننے کی چوائس۔

اگر ہمارے معاشرے کا مشاہدہ کریں تو گھروں سے دفاتر، اسکولوں کالجوں سے ایوانوں تک بہت حد تک مندرجہ بالا حقوق کی پامالی نظر آتی ہے۔

دُنیا بھر میں قریباً پانچ ہزار خواتین ہر سال غیرت کے نام پر قتل ہوتی ہیں جن میں سے 900 سے 1 ہزار کیسز پاکستان میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ قاتل عموماً بھائی، باپ یا شوہر ہوتا ہے اور قتل کا مدعی بھی قریبی رشتے دار بن جاتا ہے جو بالآخر قاتل کو سزا سے بچا لیتا ہے۔

گزشتہ بیس برس میں چار ہزار سے زائد خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکا گیا۔ گھروں میں خواتین پر تشدد کے ہزاروں واقعات ہر سال رپورٹ ہوتے ہیں اور اس سے کئی گنا زیادہ ایسے واقعات ہیں جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔

خواتین کی تعلیم کے معاملے میں گو حکومتی رویہ روز بروز بہتر ہو رہا ہے لیکن معاشرے کی سوچ ابھی بھی خاطر خواہ معاون نہیں ہے۔ والدین کا لڑکیوں کے تعلیم کے لئے بہت زیادہ پرجوش نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ اُنہیں گھر سے باہر نکلنے پر جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا ہے۔

خواتین کو ملازمت کے مواقع اول تو آسانی سے دستیاب ہی نہیں، شومئی قسمت اگر ملازمت مل جائے تو ہر روز ساتھی کولیگز، باسز، اور آمد و رفت کے دوران اوباشوں کی جانب سے جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ کام کے معاوضے میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں خواتین کی ملازمت کی حوصلہ شکنی کی اس سے بڑھ کر مثال کیا ہو گی کہ پاکستان میں میڈیکل جیسی پروفیشنل تعلیم حاصل کر کے بھی 85 ہزار سے زائد خواتین ملازمت نہیں کر پا رہیں۔

لڑکیوں کی چھوٹی عمر میں زبردستی شادی، مذہب کی جبری تبدیلی، اور ونی، سوارہ اور وٹہ سٹہ جیسی فرسودہ روایات کی بھینٹ چڑھانا ناقابلِ تردید مسائل ہیں۔ 14 ہزار چھوٹی عمر کی لڑکیاں ہر برس دورانِ زچگی پاکستان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

خواتین کو وراثت میں حق مذہب بھی دیتا ہے اور قانون بھی، لیکن معاشرہ انکاری ہے۔ نتیجتاً خواتین اس بنیادی حق سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔ آپ بدقسمتی کا لیول ملاحظہ فرمائیں کہ ایک عام خاتون پہلے اپنے باپ کے گھر میں رہتی ہے، پھر اپنے شوہر یا بھائی کے گھر میں اور آخر میں اپنے بیٹے کے گھر میں۔ اُسے ساری زندگی اپنا گھر کی ملکیت ہی میسر نہیں آتی۔

وطنِ عزیز کا سماجی نظام ایسا ہے کہ خواتین زیادہ تر گھریلو کام کاج میں مصروف رہتی ہیں اور یہ مشقت سرکاری و سماجی سطح پر کام ہی تصور نہیں کیا جاتا۔ گھر میں کیا جانے والا کام جی ڈی پی میں بھی شامل نہیں ہے۔

المختصر، خواتین کو بیشتر بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں۔ یہاں قابلِ ذکر امر یہ بھی ہے کہ اِن میں سے بہت سے حقوق ایسے ہیں جن کو مذہبِ اسلام بھی مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے بچیوں کو پیدا ہوتے ہی غیرت کے نام پر قتل کرنے سے منع کر کے خواتین کو زندگی کا تحفظ فراہم کر دیا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا عرب معاشرے میں ایک بین الاقوامی بزنس وومین ہونا ایک درخشندہ مثال ہے جو خواتین کی مالی خودمختاری کی وکالت کرتی ہے۔

ایجاب و قبول کو نکاح کی بنیادی شرط قرار دے کر خواتین کو مرضی سے شادی کرنے کا حق دے دیا گیا تھا۔ وراثت میں ماں، بہن، بیٹی کا حصہ واضح کر کے جائیداد کے حقوق فراہم کر دیے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دورِ خلافت میں خلیفہ کو سیاسی خطوط لکھنے اور مسجد میں خطاب کرنے، پھر جنگِ جمل میں بھرپور کمپین کرنے سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خواتین کے سیاسی کردار کے لیے بھی ایک توانا مثال قائم کر دی تھی۔

جب آج پاکستان جیسے ترقی پذیر اسلامی مُلک میں خواتین بنیادی حقوق سے محروم ہیں تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ صرف بین الاقوامی تسلیم شدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ اسلامی اقدار و احکامات کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ عورت مارچ اسلام کے خلاف مغرب کی سازش نہیں، بلکہ ہماری فرسودہ سوچ اور جاہلانہ روایات کے خلاف ایک تحریک ہے جو خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں، مظالم اور قانونی جرائم کے بارے میں آگاہی پیدا کرتی ہے۔ ہماری قانونی، اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم نہ صرف اپنی حد تک خواتین کے حقوق فراہم کریں بلکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بنیادی فلسفہ کے تحت مظلوم خواتین کی آواز بھی بنیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments