عورت مارچ


عورت مارچ جو اس سال 8 مارچ کو ہونے جا رہا ہے۔ اس پر کافی سارے لوگ جہاں تنقید کر رہے ہیں وہیں بہت سارے لوگ اس کے حق میں بھی آواز اٹھاتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح عورت مارچ کے حوالے سے چند روز قبل ماروی سرمد صاحبہ اور خلیل الرحمن قمر کے درمیان ایک لائیو ٹی وی شو میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ جس میں خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے ماروی سرمد صاحبہ کے خلاف نا زیبا زبان استعمال کی جو کہ سرا سر ماروی صاحبہ کی توہین تھی۔ اور اس پر خلیل الرحمٰن قمر صاحب کو معافی بھی مانگنی چاہیے۔

اب بات کرتے ہیں عورت مارچ اصل میں ہے کیا؟ عورت مارچ ایک موومنٹ کا نام ہے جو عورتوں کے حقوق اور ان کی آزادی کے لئے کام کر رہی ہے۔ اور آزادی سے مراد عورتیں اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں، ان کے ساتھ کسی قسم کی زبردستی نہ کی جائے، شادی سے انکار پر ان پر تیزاب نہ پھینکا جائے، غیرت کے نام پر ان کا قتل نہ کیا جائے، جہیز کی ضَد میں ان کو بیچا نہ جائے، یعنی جو حقوق اسلام نے ایک عورت کو دے رکھے ہیں وہ سب ان کو دیے جائیں اور جوکہ میرے خیال میں ہر ایک انسان کا حق ہے خواہ وہ عورت ہو یا مرد۔ ہم کسی کو غلط یا صحیح تو نہیں کہہ سکتے کیونکہ بہت سی عورتیں بھی کئی معاملوں میں قصوروار ہوتی ہیں اسی طرح مرد بھی۔ لیکن اس کی آڑ میں سارے مردوں یا خواتین کو برا بھلا کہنا صحیح نہیں ہے۔

عورت مارچ کے حوالے سے پاکستان میں یہ چیز دیکھنے کو ملی ہے کہ چند لوگ جو عورت کی آزادی سے ڈرتے ہیں کہ کہیں عورت ہمارے برابر آ کے کھڑی نہ ہو جائے یا ہم سے آگے نہ نکل جائے۔ انہوں نے عورتوں کی آزادی کو غلط رنگ ”یعنی یہ عورتیں اصل میں سیکشول آزادی چاہتی ہیں، اور ہمارے اسلامی معاشرے کو خراب کرنا چاہ رہی ہیں وغیرہ“ دے کر ایک پروپگنڈا پھیلایا۔ جس کا ردعمل یہ سامنے آیا کہ بہت ساری خواتین کو ٹی وی اور سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارمز پر حراساں کیا گیا، گالیاں دی گئیں اور توہین کی گئی جو کہ سرا سر غلط تھا۔ اور جو ذہنی ٹارچر ان خواتین نے برداشت کیا اس کا ذمہ دار کون ہے؟

پھر یہاں پر ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اسلامی معاشرے کی بات کرنے والوں سے کہ کس اسلامی معاشرے کی بات کر رہیں ہیں یہ لوگ؟ آپ کوئی بھی چیز اٹھا کے دیکھ لیں مثال کے طور پر ٹی وی پر چلنے والی فلمیں، ڈرامے، مختلف کمپنیوں کے اشتہارات، اخبارات وغیرہ میں چھپنے والے اشتہارات اس کی علاوہ ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز پر عورت کی تصویر آویزاں کی جاتی ہے تاکہ ان کمپنیوں کی چیزیں زیادہ سے زیادہ بک سکیں۔ ان سب میں کسی کو بے حیائی نظر نہیں آئی آج تک۔

مختلف اداروں میں جب لوگ عورتوں کو ہراساں کرتے ہیں یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کے ساتھ زیادتیاں کی جاتی ہیں وہاں کسی کو وہ بے حیائی نظر نہیں آئی۔ اگر کوئی خوبصورت لڑکی بازار میں جا رہی ہو تو سب اس کو ہوس بھری نگاہوں سے دیکھے ہیں۔ وہاں کسی کو اسلام نظر نہیں آیا۔ بچوں کے ساتھ ریپ اور پھر ان کا قتل کرتے ہوئے کسی کو اسلام نظر نہیں آیا۔ لیکن جوں ہی خواتین نے اپنے حق کے لیے آواز بلند کی تو اِن نام نہاد مسلمانوں کو اسلام یاد آ گیا۔

ہم سب کو اس چیز کا پتہ ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بے شمار مسائل ہیں اور آج اگر ان پر آواز نہ اٹھائی گئی تو کل کو معاشرے میں زیادہ بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے۔ آج اگر یہ خواتین اپنا حق مانگنے نکلی ہیں تو مجبور ہو کے۔ اور ہم نے انہیں مجبور کیا ہے کہ یہ سڑکوں پر نکلیں اپنے حق کے لئے، کیونکہ ان کو جو حقوق دینے چائیں تھے وہ نہیں دیے گے۔

اب اگر خواتین کے مسائل کے حل پر بات کی جائے تو بجائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے سے لڑیں، ایک دوسرے کی عزتوں کو اچھالیں یا ایک دوسرے پر تہمت بازی کریں ہمیں مل بیٹھ کر ان مسائل پر اور ان کے حل پر بات کرنی چائیے۔ کیونکہ جب ہم ایک دوسرے کی عزت اچھالتے ہیں، ایک دوسرے پر تہمت لگاتے ہیں یا ایک دوسرے سے لڑتے ہیں تو جو اصل مقصد ہوتا ہے کسی بات کا، ہم اس سے ہٹ جاتے ہیں یا دور ہو جاتے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ چند علماء ( جو صاحبِ علم و عقل ہوں ) کی کمیٹی اور عورت مارچ کی خواتین ( جو صاحبِ علم و عقل ہوں ) کی کمیٹی بنائے۔ اور پھر ایک ٹیبل پر بیٹھ کے خواتین کے جو جو مسائل ہیں ان پر شریعت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کا حل نکالا جائے۔ اور پھر جو بھی حل نکلے حکومت کو چائیے کہ اس کو قانون کا حصہ بنائے اور پھر جو بھی اس کی خلاف ورزی کرئے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی خواتین سے زیادتی نہ کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments