عورت مارچ


جذباتیت اور جلد بازی شاید برصغیر کے لوگوں کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ من حیث القوم ہم لوگ سوچنے سمجھنے کا کام دماغ کی بجائے دل سے لیتے ہیں۔ دنیا میں نت نئی تحقیقات، تبدیلیاں اور ایجادات ہو رہی ہیں۔ جو قومیں ان تحقیقا ت میں اپنا حصہ نہیں ڈالتی یا ان نئی ایجادات اور تبدیلیوں سے ذہنی طور پر ہم آہنگ نہیں ہو پاتیں وہ ترقی کے اس سفر میں باقی قوموں سے بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔ ہم مسلمانوں کی تو یہ تاریخ رہی ہے ایک تو پچھلے کئی سو سال میں کسی قسم کی تحقیق میں ہمارا کوئی حصہ نہیں ہے مگر اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام جو ایجادات یا تھیوریز پیش کر رہی ہیں ہم ان کو تسلیم کرنے یا ان سے استفادہ حاصل کرنے میں بہت وقت لگا دیتے ہیں۔ جس کی مشہور زمانہ مثال پرنٹنگ پریس کی ہے جس کی ایجاد 1454 میں ہوئی مگر مسلمانوں نے اس کا استعمال کئی سو سال بعد شروع کیا اسی طرح لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے کے خلاف مختلف فتاویٰ تاریخ کا حصہ ہیں۔

اس وقت پوری دنیا میں ویمن امپاورمنٹ کی تحریک کئی دہائیوں سے چل رہی ہے۔ جوں جوں 8 مارچ قریب آتا جا رہا ہے ہمارے ملک میں ایک معرکہ کا سماں بندھتا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی اس ایشو پر دو حصوں میں تقسیم نظر آ تی ہے۔ مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ایک طوفانِ بد تمیزی برپا ہے۔ ایک طرف تو عورت مارچ کے حامی مردو زن ہیں جو اس حوالے سے نت نئے سلوگن تیار کر رہے ہیں۔ پچھلے سال بھی ”میرا جسم میری مرضی“ اور اپنا کھانا خود گرم کر لو جیسے سلوگن سوشل میڈیا کی زینت بنتے رہے جن پر ہمارے مذہبی اور سماجی حلقوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

دوسری طرف ہمارے مذہبی اور روایت پسند حلقے ہیں جن کی چڑ آج کل عورت مارچ بن چکا ہے۔ چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر ڈرامہ رائٹر خلیل الرحمان قمر اور سماجی کارکن ماروی سرمد آمنے سامنے ہوئے اور پھر وہی نتیجہ ہمارے سامنے آیا جو دو مختلف انتہاؤں پر بیٹھے افراد کے مابین بحث کا ہو سکتا تھا جہاں دلیل سینہ کوبی کرتی رہی اور اخلاقیات کا سفینہ جذبات کے بھنور میں غوطہ زن رہا۔

عورتوں کا عالمی دن ویسے تو پہلی دفعہ 1909 میں امریکہ میں منایا گیا مگر 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ 1913 میں کیا گیا جس کا بنیادی مقصد خواتین کے ساتھ برتے جانے والے صنفی امتیاز، مختصر ورکنگ آوورز، مردوں کے برابر اجرت اور ووٹنگ رائٹ کا مطالبہ تھا۔ کہتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرے خیال میں تو مغرب کی تقلید میں ان این جی اوباز خواتین نے MY BODY، MY RIGHTکا ترجمہ ہی غلط کیا ہے۔ کیونکہ میرا جسم میرا حق اور میرا جسم میری مرضی ان دو فقروں میں کافی فرق ہے۔

معاشرہ مرد اور عورت کے باہمی اشتراک سے بقائے باہمی کی بنیاد پرتشکیل پاتا ہے۔ کسی بھی مرد یا عورت کی برتری کی بنیاد درحقیقت معاشی خود مختاری ہوتی ہے۔ جب تک مرد ہو یا عورت اس کے پاس معاشی طاقت نہیں ہو گی یا مالی وسائل پر اس کی دسترس نہیں ہو گی تو درحقیقت وہ غلام ہی رہے گا۔ سامنے کی بات ہے ایک ایسے معاشرہ جس میں 80 فیصد دولت کے مالک 20 فیصد افراد ہیں جن میں مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی جن کے ذاتی جہاز ہیں۔

اربوں ڈالر کی جائیدادیں بھی۔ ان اربوں ڈالر رکھنے والے مردوں اور عورتوں میں جینڈر امپاورمنٹ کا مسئلہ کبھی سر نہیں اٹھاتا۔ باقی 80 فیصد میں سے اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق 50 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یعنی یہ 100 ڈالر ماہانہ سے بھی کم کماتے ہیں۔ اس 50 فیصد آبادی کو پیٹ بھر کر کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا، ان کو تو ہم نے زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دیا، ان کی بپتا سننے کو کوئی تیار نہیں، ان کے لیے تو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا ایک جہد مسلسل ہے، تو آخر یہ مسئلہ ہے کیا؟ یہ مسئلہ ابھرتی ہوئی مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کا ہے۔ جس کے نمائندے ماروی سرمد اور خلیل الرحمان جیسے لوگ ہیں۔

میں ان خواتین سے یہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ یہ جو حقوق مانگ رہی ہیں، اس سے کہیں زیادہ حقوق تو دین اسلام نے آج سے 14 سو سال پہلے ہی خواتین کو دے دیے تھے انہوں نے یہ مطالبہ کیوں نہ کیا کہ دین اسلام نے جو حقوق خواتین کو دیے ہیں ہمارا معاشرہ وہ حقوق خواتین کو کیوں نہیں دے رہا تو ان کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور کسی طبقے کے پیٹ میں مروڑ بھی نہ اٹھتے۔ آخر ہم ہر معاملے میں مغرب کی ہی پیروی کیوں کرتے ہیں۔ آپ کیمونسٹ فلاسفی کو ہی دیکھ لیں یہ نظا م مزدوروں کے حقوق کی بات کرتا ہے مگر اس سے زیادہ حقوق مزدور کو اسلام نے دیے ہیں جب ہمارے پاس ایک اپنا نظام موجود ہے جو مزدوروں کے حقوق کا بھی تحفظ بھی کرتا ہے اور سرمایہ دار کو بھی اس سے نقصان نہیں پہنچتا تو ہم اس نظام کی پیروی کیوں نہیں کرتے؟

جب ہمارے پاس ایک ایسا نظام موجود ہے جو خواتین کو با اختیار بھی بناتا ہے جو نام نہاد مغربی تہذیب سے بھی زیادہ خواتین کے حقوق کا بھی خیال رکھتا ہے تو ہم اس نظام کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟ جو ہمارے زمینی حقائق سے بھی میل کھاتا ہے جو ہماری مذہبی، معاشرتی، سماجی اور اخلاقی روایات کا بھی امین ہے، تو آخر ہم اس سسٹم کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اپنے معاشرتی ڈھانچے میں کچھ تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ مردوں کی بچپن سے ہی ذہن سازی کرنی ہو گی، ان کے ذہنوں سے یہ خمار ختم کرنا ہوگا کہ مر د خواتین سے برتر ہیں۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ لڑائی مردوں کے درمیان ہوئی اور صلح کے لیے رشتہ لڑکی کا دے دیا جاتا ہے اور وہ بے چاری ساری زندگی اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا بگھتتی رہتی ہے۔ مرد اگر عورت سے بے وفائی کرے تو جائز اگر عورت کرے تو معاشرے کی ناک کٹ جاتی ہے۔

اب وقت آگیا ہے کی اس فرسودہ سوچ کو ختم کیا جائے عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دیا جائے مگر اس کے لیے سنجیدہ حلقوں کو میدان عمل میں آنا ہو گا۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لوگ ایسی سوچ کو پروان چڑھائیں یا کوئی ایسی پالیسی وضع کریں جو خواتین کے حقوق کا بھی تحفظ کرے اور ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار سے بھی متصادم نہ ہو۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ماروی سرمد اور ان جیسی دوسری این جی او زدہ خواتین کا ایجنڈا ہمارے معاشرے میں یوں ہی زہر گھولتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments