شکریہ کرونا وائرس


ہم انسانوں نے اتنی ترقی کر لی تھی کہ اب دنیا میں سبھی کچھ ہماری مرضی سے ہونے لگ گیا تھا۔ اور جب آپ کے ارد گرد سبھی کچھ آپ کی مرضی سے ہونے لگ جائے تو یہ صورتحال ہمارے دماغ میں ایک خلل بھی پیدا کر دیتی ہے۔ میرے ایک چچا ظہور خان اکثر بچپن میں ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ”جب کسی کی بات چالیس دن تک مانتے چلے جائیں تو اس کے دل میں ایک چھوٹا سا خدا پیدا ہو جاتا ہے اور پھر وہ شخص اپنی ہر بات کو صحیح سمجھنے لگتا ہے۔ “ اور شاید ہم ترقی یافتہ سبھی انسانوں کے ساتھ بھی چالیس دن والا معاملہ ہو گیا تھا۔

ہم نے روئے کائنات کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اور یہ کنٹرول اتنا میکانکی تھا کہ اس میں زندگی کہیں گم ہو گئی تھی، آنے والے چوتھے صنعتی انقلاب نے انسانوں کو نہ صرف مشینوں سے تبدیل کر دیا تھا بلکہ جو چند انسان رہ گئے تھے وہ بھی مشینوں کی طرح ری ایکٹ کر رہے تھے۔ ہم انسان ایک چھوٹی سی مشین (موبائل) ہاتھ میں آجانے سے قریب بیٹھے اپنی جان سے بھی پیارے سے سینکڑوں میل دور چلے گئے تھے کہ اب احساس کی گرمی نا پید ہوگئی تھی اور پھر اچانک سے ”کرونا وائرس“ آگیا۔

یہ بھی دنیا میں کیا کمال آئٹم آیا۔ اس کے آنے سے مجھے ایک پنجابی ڈائیلاگ جو کہ مصطفیٰ قریشی صاحب نے بہت عمدگی سے ادا کیا تھا جو بعد میں زبان زد عام ہوا ”آئیا ایں تے چھا گئیا ایں سوہنیا“ (یعنی آتے ہی چھا گئے ہو پیارے ) بہت شدت سے یاد آرہا ہے۔ اسی ڈائیلاگ کے مصداق کرہ ارض پر چاروں اطراف میں اب صرف اسی ایک ”کرونا وائرس“ کا ذکر رہ گیا۔ جہاں صنعت رک گئی، معاشی نقصانات بڑھنے لگے وہیں پر دنیا کا سب سے طاقتور جذبہ مذہب بھی کچھ دیر کو سستانے لگ گیا۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ اس چھوٹے سے وائرس نے دنیا میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور اس سے جو معاشی نقصانات ہو رہے ہیں وہ کتنے ہیں اور اس کے کتنے دور رس نتائج مرتب ہوں گے؟ اس کا ایک پہلو اور بھی ہے جو ہم یکثر نظر انداز کر بیٹھے ہیں اور اسی پہلو نے مجھے ”کرونا وائرس“ کا شکریہ ادا کرنے پہ مجبور کردیا ہے۔

مجھے یہ بات کہنے میں کوئی عار نہیں کہ جس طرح ہمارے ہاں موسم کے انگڑائی لیتے ہی لان کی نئی کلیکشن مارکیٹ میں آجاتی ہے اور اس کی آمد کے اشتہارات سے سڑکیں بھر جاتی جونہی آپ شہر کی معروف شاہراہ پر چڑھتے ہیں تو آپ کو اطراف میں ایک ہی نازک اندام مختلف رنگوں کی نمائش کرتی نئی لان کلیکشن اپنی طرف کھنچتی نظر آتی ہے۔ اسی طرح اس ”نئے وائرس“ نے بھی ایسی دھوم مچائی کہ ترقی یافتہ انسان کے اندر کی انسانیت جاگ گئی۔ اس کی ترقی کی مزید بھاگ دوڑ کو جیسے ایک قرار سا آگیا اور وہ کچھ دیر کے لئے اپنے پیاروں کے پاس سستانے لگا۔

اس نے اپنا موبائل سائیڈ پہ رکھ کر اپنے گھر والوں سے بات چیت شروع کر دی۔ اب کھانے کی میز سارا خاندان اکٹھا ہونے لگ گیا، اور دوران کھانا موبائیل پر نوٹیفیکیشن دیکھنے کی بجائے ایک دوسرے سے بات چیت شروع ہو گئی۔

اب گھر میں پڑے بوڑھے ماں باپ کو گفتگو کے لئے ان کی اولاد میسر آگئی اور وہ مزید جینے کی خواہش کرنے لگ گئے ہیں۔

اب تو گھر کے سربراہ جن کے سر پر ہر وقت دفتر سوار رہتا تھا اپنے کنبے کے باقی افراد کے ساتھ خوش گپیوں میں مصروف رہنے لگے ہیں۔

شیلف سے کتابیں باہر نکلنے لگیں، ان سے گرد صاف کر کے ورق گردانی شروع ہوگئی۔ انسان لامحدود وسائل سے محدود وقت کے لئے زندگی کی طرف لوٹ آیا اور یہ صرف ”کرونا وائرس“ نے ممکن بنایا۔
”شکریہ کرونا وائرس“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments