میں اپنی ماں، بہن، بیٹی کے حقوق کے خلاف کیسے ہو سکتا ہوں؟


میں ایک عام پاکستانی، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا، ایک عورت کا بیٹا جس نے مجھے اپنے بطن میں نو ماہ رکھا۔ اپنا دودھ پلا کر مجھے زندگی بخشی۔ اپنی گود میں کھلا کر بڑا کیا، اس قابل بنایا کہ میں دنیا کی جھنجھٹوں کا مقابلہ کر سکوں۔ ایک عورت کا بھائی، جس کے ساتھ کھیل کود کر بڑا ہوا۔ بہن بھائی کی محبت کی مثالیں دنیا دیتی ہیں۔ ایک عورت کا باپ جس کی خوشی کے لیے ہر حد تک جا سکتا ہوں، جس کو میں اپنے لیے رب کی رحمت سمجھتا ہوں۔ کیا میں ان کے حقوق کے خلاف ہوں، یا ہو سکتا ہوں اور کیا میں ان کے حقوق مانگنے کے حق کو چھین سکتا ہوں، ہر گز نہیں۔ میں تو ان کے حقوق کا سب سے بڑا داعی ہوں۔

یہاں یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ جو چند بیبیاں، جن مسائل کا ذکر کر رہی ہے یہ میری ماں، بہن اور بیٹی کا مسئلہ ہی نہیں ہیں۔ یہ اس عورت کا مسئلے نہیں جو بڑے شہروں کی گہما گہمی، چمچماتی بتیوں اور رونقوں سے کئی دور اس دنیا سے بے خبر اپنی ایک چھوٹی سی دنیا میں رہتی ہے۔ وہ روزانہ اپنے بچے کو گود میں اٹھائے، ایک معمولی سی اجرت پہ، برابری کی دور سے کئی دور سارا دن کھیتوں پہ اپنے مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔ شاید ان عورتوں کو بھی آپ لوگ ورکنگ خواتین ہی مانتے ہو گے، لیکن جب آپ ان سے ان کے مسائل پوچھے گے تو وہ آپ کو اپنا مسائلہ ”میرے جسم میری مرضی نہیں بتائے گی“، وہ اپنا مسئلے کم اجرت روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم اور بنیادی ضروریات کا نہ ہونا بتائے گی۔

اب اگر آپ اس خاتون سے پوچھیں جو ایک پرائویٹ سکول میں، دس ہزار ماہانہ کی اجرت پہ استانی کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ کرائے کے گھر میں اپنے دو بچوں اور شوہر کے ساتھ رہ رہی ہے۔ وہ آپ کو اپنا مسئلہ ”کھانا گرم کر دوں گی بستر خود گرم کر لوں“ نہیں بتائے گی وہ ان کم پیسوں میں اپنے گھر کے اخراجات کا پورا نہ ہونا، آسانی سے گزر بسر نہ ہونا کا دکھڑا سنائے گی۔ معاشرے کے ظلم و ستم کی داستان سنائے گی۔ حکومت کی طرف سے اپنے فرائض کو پورا نہ کرنے کا گلہ کرتے ہوئے دکھائی دے گی۔

صرف ان دو قسم کی خواتین جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ان کا تعلق ہمارے معاشرے کی نصف آبادی سے بھی زیادہ کا ہی ہو گا۔ لیکن ان کے مسائل کا کوئی ذکر نہیں۔

ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے اور شاید کچھ ایسے مسائل بھی ہوں گے جن کا مجھے شاید ادراک بھی نہ ہوں۔ لیکن یہاں پہ سوال یہ ہے کہ کیا عورت کے حقوق کی علمبردار جن کا یہ نعرہ ہے کہ ”ہم ان کی آواز بھی اٹھا رہی ہے جو اپنی آواز خود نہیں اٹھا سکتی“ ایسی کسی عورت جن ذکر میں نے کیا ان کے مسائل کی ترجمانی کیں۔

ایسا نہ کہنا زیادتی ہوگی کہ چند ایک پلے کارڈ ایسے ضرور تھے چلے ٹھیک ہے لیکن اکثریت ان کی تھی۔ جو شاید اپنی گھر میں کام کرنے والی بائی کے گھر کے حالات سے بھی نا واقف ہوں جن کا مسئلہ دولت نہیں، جن کا مسئلہ، روٹی کپڑا اور مکان نہیں۔ اور جن کا مسئلہ تعلیم کی فراہمی نہیں بلکہ ان سب بہنوں کا تعلق ان یونیورسٹیوں سے ہیں جن کی فیس شاید میرے والد صاحب کی پورے سال کی تنخواہیں ملا کر بھی ادا نہ ہو سکے۔ چا ہے وہ ملک کی یونیورسٹیوں ہو یا باہر کی۔ میرا ان کی مہنگی تعلیمی اداروں سے پڑھنے پر کوئی گلہ نہیں یہ ان کا حق ہے۔ میرا مسئلہ وہ ”نعرے“ ہے اود بظاہر نظر نہ آنے والے مقاصد ہیں جو میری ماں، بہن بیٹی کے مسائل کی ترجمانی نہیں کر رہے اور نہ ان ہی وہ مغربی ثقافت کا فروغ چاہتی ہے۔ سادہ لفظوں میں وہ اس معاشرے کو ”Monkey town“ بنانا نہیں چاہتی جس میں کوئی اخلاقی، مذہبی نامی روایات کا کوئی عمل دخل نہ ہوں۔

میں نے اسلام میں عورت کے کیا حقوق ہے، کیا ذمہ داریاں ہیں ان کا ذکر نہیں کیا۔ اس بات پہ بھی کوئی شک نہیں ہماری عورتوں کو ان حقوق کے حصول میں بھی مسائل کا سامنا ہے جو اسلام نے انہیں دے رکھے ہیں۔ یہاں میں ذکر اس وجہ سے نہیں کر رہا، کیونکہ وہ فریضہ اور بہت سے لوگ بخوبی سر انجام دے رہیے ہیں۔ میں تو اپنے ارد گرد موجود ان عورتوں کے مسائل کا ذکر کر رہا ہوں جو کہ میرے روز کے مشاہدے میں آتے ہیں، کیونکہ میری ماؤں بہنوں کا تعلق اس ملک کی نصف آبادی سے زیادہ سے ہیں اور اس طبقے کے ساتھ ہے جس کو آپ لوگ شاید متوسط طبقہ یا نچلے طبقے کے نام سے جانتے ہیں۔

خدارا اپنے مقاصد کے حصول کے لیے میری ماؤں بہنوں کا نام استعمال نہ کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments