نظام بدلے گا کیسے؟


پاکستان کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ مو جودہ نظام اس قابل نہیں کہ عوام کی فلاح و بہبود کاکار خیر اس سے لیا جاسکے۔ اگر ملک کو صحیح معنوں میں فلاحی مملکت بنانا ہے تو موجودہ فرسودہ نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ بوسیدہ نظام کو زمین بوس کرکے اس کی جگہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نئی عمارت بنانی ہو گی۔ اگر ہم ان الفاظ پر غور کرلیں تو یہ وہ الفاظ ہیں کہ گزشتہ دو عشروں میں جو بھی حکومت میں آیا اس نے یہی نعرہ لا یا کہ عوام کی تقدیر تب بدلے گی جب مو جودہ نظام بدلے گاورنہ تبدیلی ممکن نہیں۔

پرویز مشرف نے جب اقتدار سنبھالا تو انھوں نے یہی نعرہ لگا یا تھا۔ آصف علی زرداری جب صدرمنتخب ہو ئے توانھوں نے بھی یہی کہا۔ میاں نواز شریف جب تیسری مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انھوں نے بھی عوامی مسائل کا حل یہی دیا کہ موجودہ نظام کو بدلے بغیر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو ووٹ ہی تبدیلی کے نام پرلئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے بھی اقرار کیا کہ ملک اور قوم کی حالت تب بدلے گی جب ملک کا نظام بدلے گا۔

گزشتہ بیس سالوں سے ہر حکمران یہی نسخہ تجویز کر رہا ہے کہ اگر ملک اور قوم کی تقدیر بدلنی ہے تو موجودہ نظام کو بدلنا ہو گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب ہر آنے والے حکمران کو معلوم ہے کہ ملک اور قوم کی حالت تب بدلے گی جب موجودہ نظام بدلے گا تو پھر وہ اس نظام کو بدلنا کیوں نہیں چاہتے؟ جب مرض معلوم ہے تو پھر وہ علاج کے لئے دوا تجویز کیوں نہیں کر تے؟

ریاست کے امور ٹیکس دینے والوں کی پیسوں سے چلائے جاتے ہیں۔ بدلے میں ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کو زندگی کی معیاری بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ پاکستان میں جو لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان میں اکثریت کو اس ملک کے کسی بھی نظام پر اعتماد نہیں۔ ٹیکس دینے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جن کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں کی بجائے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حا صل کرنے پر مجبور ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ سرکاری تعلیمی ادارے ان کو معیاری تعلیمی سہولیات دینے میں ناکام ہے۔

جو لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان میں اکثریت علاج سرکاری ہسپتالوں میں نہیں کرتے۔ کیوں؟ اس لئے کہ سرکاری شفاخانوں میں معیاری سہولیات دستیاب نہیں، اس لئے وہ ٹیکس ادائیگی کے باوجود نجی شفاخانوں میں علاج کرانے پر مجبور ہے۔ ٹیکس دینے والوں میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنے گھروں میں پالے ہوئے پروندوں اور فالتوں جانوروں کو وہ خوراک اور چارہ بھی نہیں دیتے جو پاکستانی کمپنی کا تیارہ کردہ ہو اس لئے کہ وہ اس کو مضر صحت سمجھتے ہیں جس سے وہ اپنے پرندوں اور فالتو جانوروں کا صحت خراب نہیں کرتے۔

ریاستی امور چلانے کے لئے اعلی بیوروکریسی کا ایک منظم اور مربوط نظام ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی نظام حکومت اور ریاست چلانے کے لئے اعلی تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل بیوروکریسی کا نظام موجود ہے۔ امور ریاست اور حکومت چلانا ان کی مستقل ذمہ داری ہے۔ لیکن بیوروکریسی کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ان کا بھی اس ملک کے نظام پر اعتماد نہیں ہے۔ اعلی بیوروکریسی کے بچے سرکاری تعلیمی اداروں کی بجائے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم حا صل کر تے ہیں۔ جو نصاب تعلیم یہی بیوروکریٹ قوم کے بچوں کے لئے بناتے ہیں اسی نصاف تعلیم کو اپنے بچوں کے لئے شجرہ ممنوعہ سمجھتے ہیں۔ یہ اگر بیمار ہوجاتے ہیں تو سرکاری شفاخانوں سے علاج کرانے میں عار محسوس کرتے ہیں۔ یہی اعلی بیوروکریٹ اندرون ملک نجی شفاخانوں یا بیرون ملک علاج کرانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

آپ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ادارے کا جائزہ لیں۔ اس ادارے کی بنیادی ذمہ داری امیر لوگوں سے ٹیکس جمع کرنا ہے لیکن آج تک یہ ادارہ سالانہ ٹیکس ہدف حا صل کرنے میں کامیاب نہیں رہا۔ کیوں؟ اس لئے کہ اس ادارے میں موجود تمام افسران اس بوسیدہ نظام کے نیچے ملازمت کرنے پر راضی ہے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ ہمت نہیں کرتا کہ ٹیکس حدف کے حصول کے لئے قابل عمل تجاویز دیں۔ ہر حکمران کو معلوم ہے کہ ایف بی آر ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن پھر بھی اس ادارے کو دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کو شش نہیں کرتے۔

پاکستان کو اس وقت معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے۔ ضروری ہے کہ حکومت معاشی استحکام کے لئے جامع منصوبہ بندی کریں۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹا بہہ رہی ہے۔ پالیساں بنانے کی بجائے سکیمیں بنائی جاری ہے۔ عوام کو روز گار فراہم کرنے کی بجائے ان کو بھکاری اور سوالی بنا یا جارہا ہے۔ گزشتہ دو عشروں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ طالب علموں کو معیاری نظام تعلیم دینے کی بجائے تمام پیسہ لیپ ٹاپ دینے پر برباد کیا گیا۔ مارکیٹ میں آٹے کے بحران کو ختم کرنے کی بجائے پیسہ سستے تندورں میں جھونک دیا گیا۔

خواتین کو ہنر مند بنا کر ان کو معاشی استحکام میں حصہ دار بنانے کی بجائے انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت نے تو اتنی سکیمیں شروع کردی ہے کہ نام یاد رکھنا بھی مشکل ہو گیاہے۔ جتنی توانائیاں اور پیسے ان سکیموں پر حکومت خرچ کر رہی ہے اگر یہی سب کچھ جامع پالیساں بنا کر مارکیٹ میں روزگار کے مواقع فراہم کرتے تو عوام کو زیادہ فائدہ ہوتا۔

اب یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکتا؟ یہ سب کچھ تب ممکن ہے کہ حکمران اور بیوروکریسی اپنے آپ سے آغاز کریں۔ جب تک حکمران اور بیوروکریسی آپ اپنے شروعات نہیں کرتی اس وقت تک موجودہ بوسیدہ نظام کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اگر محکمہ تعلیم کے ایک اعلی بیوروکریٹ کا بچہ سرکاری تعلیمی ادارے میں پڑھے گا تو تب عوام کا اعتماد بحال ہوگا۔ جب صحت کے محکمے کا اعلی افسر سرکاری ہسپتال سے علاج کرے گا تو تب عام آدمی اور ٹیکس دینے والے کا اعتماد بحال ہو گا۔

جب تک حکمران اور اعلی سرکاری عہدوں پر فائز لوگ سرکاری اداروں کا رخ نہیں کرتے اس وقت تک اس ملک میں کوئی بھی نظام درست نہیں ہوسکتا۔ جب بھی اعلی سرکاری عہدے داروں نے سرکاری اداروں کا رخ کیا تو سب کچھ بدل جائے گا۔ پھر یہی تعلیمی ادارے ہوں گے لیکن طالب علموں کو تمام بنیادی سہولیات میسر ہوں گی۔ یہی سرکاری ہسپتال ہوں گے لیکن سب کو تمام سہولیات میسر ہوں گی۔ جس نظام پر اس کے بنانے والوں، چلانے والوں اور اس کے لئے پیسہ دینے والوں کا اعتماد نہیں وہ دوسروں کے لئے کیسے قابل اعتماد بن سکتا ہے؟ موجودہ نظام کی تبدیلی کا واحد راستہ حکمرانوں، ٹیکس دینے والے امیروں اور اعلی سرکاری عہدے داروں کو سرکار کے محکموں پر اعتماد کی بحالی ہے جب یہ لوگ یہاں کا رخ کریں گے تو سہولیات بھی آجائیں گی اور نظام بھی بدل جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments