ہم گو۔ دُکھ کی پیداوار ہیں


\"Mustansar_Hussain_Tarar\"یہ بھول جانے، فراموش کر دینے والی، بے وفا ہو جانے کی روایت نہ ہوتی تو نہ صرف اردو شاعری اس درجۂ کمال تک نہ پہنچتی بلکہ ہمارے پاس رونے دھونے اور آہیں بھرنے کا کچھ جواز نہ ہوتا۔ یہ محبوب کے بھول جانے کی عادت ہے، بے وفائی کی خصلت ہے جس نے بڑی شاعری کو جنم دیا۔ آپ بے وفائی اور بھول جانے کی عادت کو اپنی اجتماعی نفسیات اور شاعری سے خارج کر دیجئے تو کہاں غالبؔ اور کہاں میرؔ ۔ سب کے سب پھیکے پڑ جائیں گے۔ دراصل برصغیر کے باشندے خوشی سے خوش نہیں ہوتے، اُنہیں رونے دھونے کے لئے بہانے چاہئیں۔ مجھے یاد ہے کہ انگلستان میں میری ایک مہربان لینڈ لیڈی مسز چیپ مین نے کہا تھا ’’مسٹر چوہدری، میں نے نوٹ کیا ہے کہ فوٹو اترواتے ہوئے آپ ہمیشہ منہ بھینچ کر نہایت سنجیدہ ہو جاتے ہیں، آپ کبھی اپنے خوبصورت دانتوں کی نمائش نہیں کرتے جب کہ ہم انگریز لوگ کیمرے کا سامنا کرتے ہی مسکرانے لگتے ہیں اگرچہ ہمارے دانت بوسیدہ اور گُھن زدہ ہوتے ہیں‘‘ تو میں نے اُن سے کہا تھا ’’مسز چیپ مین۔ ہم لوگ شاید دُکھ کی پیداوار ہیں۔ ہمیں مسکرانا زہر لگتا ہے۔ یہاں تک کہ ہم تو اپنے لئے سال کا آغاز بھی آہ و زاری اور ماتم سے کرتے ہیں‘‘۔

شاید کچھ میرے ہم عمر لوگوں کو یاد ہو کہ جب بھی اُن زمانوں میں فوٹو اُتروائی جاتی تھی تو ہم نہایت اداس سی شکل بنا کر آسمان کو دیکھتے تھے، گویا آسمان سے شکوہ کرتے تھے۔ میں یہاں بھول جانا اور بے وفائی اور بے مروّتی کے حوالوں کے لئے اپنی شاعری سے رجوع نہ کروں گا کہ اس کے لئے دیوان کے دیوان درکار ہیں اس لئے میں محض چند مشہور فلمی گیتوں کا تذکرہ کروں گا جو آپ کی یادداشت میں بہرطور محفوظ ہوں گے۔

مثلاً چراغ حسن حسرت کا وہ گیت کہ ۔ باغوں میں پڑے جھولے، تم بھول گئے ہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے۔

اور ہاں آغاز تو ’’جگر زخمی ہے دل گھبرا رہا ہے، محبت کا جنازہ جا رہا ہے‘‘ سے ہونا چاہئے اور میں بھی بھول گیا۔

مکیش پکارتا ہے ’’بھولنے والے یاد نہ آ۔ بھولنے والے یاد نہ آ‘‘۔

یہ بھی مکیش کا ہی ایک گیت ہے، غالباً ’’برسات‘‘ کا۔ زندہ ہوں اس طرح کہ غمِ زندگی نہیں، دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں۔ ہونٹوں پہ آئے ہنسی کیا مجال ہے۔

نورجہاں کہتی ہیں ’’ہم بھول گئے ہر بات، تیرا پیار نہیں بھولے‘‘۔

اور خواجہ خورشید انور کا کمپوز کردہ نورجہاں کی آواز میں ’’کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘‘۔

بے شک مومنؔ کی اس لازوال غزل کو ’’کبھی ہم میں تم میں بھی چاہ تھی۔ قرار تھا‘‘، اُستاد برکت علی خان نے اپنی آواز کی سحرانگیزی سے لازوال کر دیالیکن اُسی زمین میں جب نورجہاں نے فلم ’’گھونگھٹ‘‘ میں ’’کبھی ہم میں تم میں بھی پیار تھا‘‘ گایا تو خواجہ خورشید انور کی موسیقی میں اُستاد برکت علی خان کی گائیکی کو بھی ماند کر گئیں۔ اُس کی آواز اداسی اور جدائی کی لہروں کی مانند کبھی ایک کسک کے ساتھ اٹھتی ہے اور اگلے لمحے دُکھ کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاتی ہے۔ یہ بھی بھول جانے اور بے وفائی کا ایک گیت ہے جو ہم پر اس لئے اثر کرتا ہے کہ ہم دُکھ کی پیداوار ہیں۔ مہاتما بدھ نے بھی اس دنیا کو دُکھ کا گھر کہا تھا اور بابا فریدؒ کا بھی کہنا تھا کہ ۔دُکھ سبھائے جگ۔ آپ میں سے کچھ کو فلم ’’زینت‘‘ کی زنانہ قوالی شاید یاد ہو۔ آہیں نہ بھریں شکوے نہ کئے کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا۔ یعنی ہم یہاں بھی اسی غم میں گُھلتے ہیں کہ اگر زبان سے شکوے نہ کئے، آہیں نہ بھریں تو یہ زبان کس کام کی۔ خوشی اور مسرّت کے اظہار کے لئے زبان کا استعمال تو کوئی بات نہ ہوئی۔

مکیش صاحب نغمہ سرا ہوتے ہیں کہ ’ہونٹوں پہ آئے ہنسی کیا مجال ہے، دل کا معاملہ ہے کوئی دل لگی نہیں‘۔ ہنسی ممنوع قرار دی گئی ہے۔

اُدھر نورجہاں پھر بے وفائی کی شکایت کرتی ہیں۔ ابے او بے مروّت،ابے او بے وفا۔ ذرا ملاحظہ فرمایئے کہ محبوب کو ’’ابے او‘‘ ایسے بیہودہ طرز تکلم سے پکارا جا رہا ہے۔ جیسے ابے او گاؤدی، ابے او لونڈے وغیرہ۔

لتا منگیشکر کا وہ گیت یاد کیجئے۔ کٹتے ہیں دُکھ میں یہ دن۔

طلعت محمود نے تو رونے دھونے اور آنسو بہانے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ ’شامِ غم کی قسم آج غمگین ہیں ہم، آ بھی جا آ بھی جا۔ حضرت آج کیا آپ تو ہمیشہ ہی غمگین رہتے ہیں۔
اے مرے دل کہیں اور چل غم کی دنیا سے جی بھر گیا، جیتے جی میں مر گیا۔

مکیش کاوہ گانا بھی آپ کو یاد ہو گا کہ۔ تیری دنیا میں دل لگتا نہیں، میں سجدے میں پڑا ہوں مجھے اے مالک اُٹھا لے۔

یہاں تک کہ حبیب ولی محمد بھی زندگی سے بیزار پکار اٹھتے ہیں۔ جینے کی دعائیں کیوں مانگیں، مرنے کی تمنا کون کرے۔

جگجیت کور، خیام کی اہلیہ ساحر لدھیانوی کا کلام گاتی ہیں۔ تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو۔ تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو۔

بے شک بڑے ادب کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ وہ آپ کو ایک اداسی سے دوچار کرتا ہے۔ حیات کے دکھوں کا پرچار کرتا ہے۔ یونان کے عظیم المیہ ڈرامہ نگار۔ اسکلس، یورپی ڈیس، سوفو کلینر سب کے سب المناک منظروں کو بیان کرنے والے ہیں لیکن اُن کی اداسی نے یونانیوں اور یورپ والوں کو زندگی سے بیزار نہیں کیا۔ اُنہیں حد درجہ قنوطی نہیں کیا جب کہ ہم برصغیر کے باشندے بے وفائی، نارسائی اور آہ و زاری کی تفسیر ہو گئے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان دنوں ہمارے پاپ سنگرز کو جو پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور اُن میں سے بیشتر بے سُرے ہیں، اُن کی موسیقی کے شور میں اُن کی آواز سنائی نہیں دیتی اور صد شکر کہ نہیں سنائی دیتی تو اس کا سبب یہ ہو کہ اُن کے نغموں میں مسرت اور سرخوشی کا بے سُرا شور ہے۔ نہ وہ آہیں بھرتے ہیں نہ شکوے کرتے ہیں، نہ غمگیں رہتے ہیں اور نہ موت کی تمنا کرتے ہیں۔ بلکہ اپنے ڈھول اتنے زور سے بجاتے ہیں کہ موت قدرے ہراساں ہو کر پرے پرے رہتی ہے۔

مثلاً ابرارالحق پوچھتا ہے کہ ۔ کنّے کنّے جاناں اے بِلو دے گھر۔ اور اگر جانا ہے تو ’’آ جا بہہ جا سیکل تے‘‘ فریحہ پرویز اپنے پتنگ باز سجناں کو پکارتی ہے کہ دِل ہوا بوکاٹا۔ عالمگیر گانے لگتا ہے کہ ۔یہ شام اور تیرا نام کتنے ملتے جُلتے ہیں۔ محمد علی شہکی اور الن فقیر مست ہوتے ہیں کہ ’’اللہ اللہ کر بھیّا۔ اور ۔جھوم جھوم کر اعلان کرتا ہے۔ تیرے میرے گھر کے سامنے لاری اڈہ، لاری اڈہ۔ حدیقہ کیانی کہتی ہے۔ دوپٹہ میرا ململ کا۔ میرے پاس اس بھول جانے والی روایت، بے وفائی، موت کی تمنائی، اداسی اور دنیا سے بیزاری کی کوئی توجیہہ نہیں ہے، شاید اس کی بنیاد معاشرے کی ناہمواری ، بے انصافی، تعصب اور تنگ نظری ہے جہاں آپ دل کی بات نہیں کہہ سکتے، اگر کہتے ہیں تو آپ کا گلا گھونٹنے کے لئے مقدس ہاتھ آگے آ جاتے ہیں۔ یوں آپ موت کی آرزو کرتے ہیں۔ اگرچہ میں جب پاپ موسیقی سنتا ہوں تو زندگی کے شور سے لطف اندوز ہوتا ہوں، لیکن میں پُرانے زمانوں کا ایک شخص ہوں، مجھ میں دُکھ سرایت کر گئے ہیں اس لئے مجھے وہی گیت پسند آتے ہیں جن میں رنج و غم اور پریشانیاں ہوں۔ کیا کروں میں دُکھ کی پیداوار ہوں۔

تیری دنیا میں دل لگتا نہیں، مجھے اے مالک اُٹھا لے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments