ملک پر ’’خداجانے کیوں‘‘ نازل ہوئی مندی


میں جس سے بال ترشواتا ہوں وہ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔اس کی دیرینہ خواہش ہے کہ ازخود اس کی دوکان پر اچانک کسی روز پہنچ جانے کے بجائے میں اسے فون کرلیا کروں۔ فارغ ہوتے ہی وہ مجھے فون کردیا کرے گا اور مجھے اس کی دوکان پر بیٹھے ہوئے اپنی باری کا انتظار کرنے کی زحمت اٹھانا نہیں پڑے گی۔اس کی خواہش کا میں نے بارہا اصرار کے باوجود آج تک احترام نہیں کیا۔وجہ اس کی منافقانہ عاجزی نہیں رپورٹوں والی خود غرضی ہے۔

اس کالم کے موضوعات بھی اکثر اس کی دوکان پر اپنی باری کا انتظار کرتے ہوئے ذہن میں آئے تھے۔میرے گیسو تراش کی دوکان اسلام آباد کے مرکز میں واقعہ پُررونق مارکیٹ کے ایک پلازے کے عقبی حصہ میں ہے۔اس کے سامنے والے فٹ پاتھ پر کئی ٹھیلے لگے ہوئے ہیں۔ وہاں سے رزق کمانے والے کئی لوگ اس کی دوکان پر محفل لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔اپنی باری کا انتظارکرتے ہوئے میں اپنے فون میں محو دِکھ رہا ہوتا ہوں۔میرے کان مگر اِردگرد ہوئی گفتگو پر ٹکے رہتے ہیں۔

صحافتی زبان میں مختلف معاملات پر ’’عوامی فیڈبیک‘‘ وہاں بیٹھے ہوئے مل جاتا ہے۔تین ماہ قبل میں نے محسوس کیا کہ گیسو تراش کی دوکان پر لگے ٹی وی پر ان دنوں کسی 24/7چینل کا خبرنامہ نہیں لگاہوتا۔ اس سے مجھے شبہ ہوا کہ شاید ہمارے عام افراد نے ’’نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز‘‘میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔بعدازاں اپنے پروفیشنل دوستوں سے تفصیلی گفتگو کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ ’’نیوز اینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ پروگراموں میں ’’وہ کشش‘‘ باقی نہیں رہی۔ Ratingsکا بحران پیدا ہورہا ہے۔

مختلف خواتین سے گفتگو کے بعد دریافت یہ بھی ہوا کہ ان کی اکثریت اب قسط وار ڈراموں کی جانب لوٹ رہی ہے۔غالباََ اسی وجہ سے حال ہی میں ختم ہوئے ایک ڈرامے کو بہت شہرت ملی جس کے ایک کردار کو ’’دوٹکے کی عورت‘‘ پکارا گیا۔ اس ڈرامے کی آخری قسط سینما ہائوسز میں بھی دکھائی گئی تھی۔ وہاں ہائوس فل رہے۔اس ڈرامے کے لکھاری ان دنوں ہماری ’’اقدار‘‘ کے بلند آہنگ محافظ کے طورپر ’’نیوزاینڈ کرنٹ افیئرز‘‘ والوں کو بھی ٹاک شوز میں اپنی موجودگی سے Ratings دلوانا شروع ہوگئے ہیں۔

بہرحال پیر کے روز مجھے اپنے بال بنوانا تھے۔ بغیر فون کئے حسبِ عادت اپنے گیسو تراش کی دوکان پر چلا گیا۔مجھے کم از کم 20منٹ انتظار کا حکم ہوا۔ایک کونے میں رکھے صوفے میں دبک کر اپنا فون دیکھنے میں مصروف ہوگیا۔ اِرد گرد لگی محفل میں گفتگو فقط PSLمیچوں کی بابت ہورہی تھی ۔ میں کرکٹ کا شیدائی نہیں۔اس گفتگو پر لہٰذا توجہ نہیں دے پایا۔

دریں اثناء قریب کی دوکان سے ایک شخص وہاں آیا۔ اس نے گیسو تراش سے گلہ کیا کہ فلاں دن اس نے فلاں دوست کا خط بنانے سے انکار کردیا۔ ان دونوں کا وہ مشترکہ دوست اس کے انکار سے بہت خفا ہوگیا ہے۔گیسو تراش نے اپنا دفاع کرنے کے بجائے ’’میری ہٹی-میری مرضی‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور محفل بھرپور قہقہوں سے گونج اُٹھی۔ میں نے یہ فرض کرلیا کہ گیسو تراش کے اس فقرے سے لطف اٹھانے کے بعد محفل اتوار کو ہوئے ’’عورت مارچ‘‘‘ کو زیر بحث لائے گی۔ کسی ایک نے بھی مگر اس میں دلچسپی نہیں لی۔

گیسو تراش نے بالآخر وضاحت بھی کردی کہ اسے دوکان بند کرکے گھر جانے کی جلدی تھی۔ اسے ’’لاہور قلندر‘‘ کا میچ دیکھنا تھا۔’’لاہور قلندر‘‘ کا نام سنتے ہی اس محفل کے تمام شرکاء یکسو ہوکر اس ٹیم کی دادوتحسین میں مصروف ہوگئے۔ ایک کھلاڑی کی بہت تعریف ہوئی جس نے اپنی ٹیم کی جیت کو یقینی بنانے کے لئے 12یا 13 چھکے لگائے تھے۔

محفل کے تمام شرکاء اس امر پر بھی بہت شاداں تھے کہ مذکورہ کھلاڑی نے اپنے چھکوں سے ’’کراچی والوں کا غرور خاک میں ملادیا۔ ‘‘کراچی والوں کے ’’غرور‘‘کی شکست پر شادمانی کے اظہار کے بعد اس محفل کے تمام شرکاء ’’لاہور قلندر‘‘ پر ’’کروڑوں خرچ کرنے والے‘‘ فواد رانا کی دادوتحسین میں بھی مصروف ہوگئے۔ بہت مان سے وہ یہ بھی یاد دلاتے رہے کہ کسی زمانے میں فواد رانا بھی ان جیسا ’’فقرا‘‘ تھا۔’’ربّ نے کرم کیا‘‘۔ وہ لکھ پتی ہوگیا۔اب اپنی رقم کو کرکٹ میں رونق لگانے کے لئے خرچ کررہا ہے۔اس کی ٹیم مگر ابھی تک ’’نکمّی‘‘ ثابت ہورہی تھی۔ فواد رانا کو البتہ نیک نیتی کا ثمر اس کھلاڑی کی صورت نصیب ہوگیا جس نے لگاتار 12یا 13چھکے لگاکر ’’کراچی والوں کا غرور خاک میں ملادیا‘‘۔

بالآخر میری باری آئی تو محفل برخاست ہوگئی۔اس کے شرکاء نے فرض کرلیا کہ میرے بال بہت لگن اور توجہ سے کاٹنا ہوں گے۔گیسو تراش کو اس کے لئے ’’تخلیے‘‘ کی ضرورت ہے۔

گیسو تراش نے قینچی اور کنگھی اٹھائی تو میں نے اسے مطلع کیا کہ ’’کراچی والوں‘‘ کے خلاف اس کا ’’تعصب‘‘ مجھے پسند نہیں آیا۔گیسو تراش محض لاہور سے ملحق پتوکی سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ’’قلندر‘‘ کا دیوانہ ہے۔ اسے ہر صورت کامیاب دیکھنا چاہتا ہے۔ میری گفتگو کو بہت انہماک سے سننے کے بعد اس نے بہت سنجیدگی سے مجھے آگاہ کیا کہ اسے ’’کراچی والوں‘‘ سے ہرگز نفرت نہیں۔اپنے کام میں مہارت اس نے بلکہ اس شہر ہی میں حاصل کی تھی ۔ وہاں کے گاہک بہت نفیس ہوا کرتے تھے۔

اصل مسئلہ اسے کراچی سے منسوب PSL کھیلنے والی کرکٹ ٹیم سے ہے۔اس کے کھلاڑی گیسو تراش کی دانست میں بہت ’’مغرور‘‘ ہیں۔کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔حتیٰ کہ بقول اس کے کراچی کی ٹیم کے ایک رکن نے کسی ٹیم کے ’’غیر ملکی‘‘ کھلاڑی سے بھرے میدان میں ’’بدتمیزی‘‘ کی تھی۔اپنے ’’مہمانوں‘‘ کے ساتھ یہ رویہ قطعاََ غیر مناسب تھا۔ خود کو ’’غیر متعصب‘‘ ثابت کرنے کے بعد اس نے بہت خلوص سے مجھے یہ بھی بتایا کہ اگر ’’کراچی والوں‘‘ کا اسلام آباد کی ٹیم سے بھی مقابلہ ہوا تو وہ دل سے یہ چاہے گا کہ اسلام آباد جیت جائے۔’’لاہور قلندر‘‘کی مگر اسلام آباد سے جیت کا خواہاں ضرور ہوگا۔

تفصیلی وضاحتوں کے بعد اس نے بہت دُکھ سے یہ اطلاع بھی دی کہ اس ماہ کے آخری ہفتے میں PSL ختم ہوجائے گا۔اس جیسے لوگوں کا دل بہلانے کو ٹی وی سکرینوں پر اس کے بعد کوئی اور شے میسر نہیں ہوگی۔ اس کے دُکھ نے مجھے یاد دلانے کا موقعہ فراہم کردیا کہ دل بہلانے کو ’’ٹاک شوز‘‘ جو ہیں۔

’’ٹاک شوز‘‘ کا ذکر آتے ہی وہ تقریباََ طیش میں آگیا۔ اسے بخوبی علم ہے کہ میں خودبھی دس برس تک ایک ’’ٹاک شو‘‘ کا مہمان رہا ہوں۔اسے یاد رکھے ہوئے تھا مگر یہ کہنے سے باز نہیں رہا کہ آج کل تمام ’’ٹاک شوز‘‘ ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ان کے پاس دکھانے اور کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ اکثر ’’جھوٹ‘‘ پھیلاتے ہیں اور ’’حکومت کی خوشامد‘‘ میں مصروف۔

ٹی وی ٹاک شوز کی اجتماعی مذمت کے بعداس نے مزید اطلاع یہ دی کہ پاکستان کے تمام سیاستدان بھی ’’ایک جیسے ‘‘ ہوچکے ہیں۔انہیں غریب کے دُکھوں کا احساس تک نہیں ہے۔نون والوں کو نوازشریف کی صحت کی فکر لاحق ہے۔پیپلز پارٹی سندھ میں ’’مال بنارہی ہے‘‘۔ عمران حکومت مہنگائی کئے چلی جارہی ہے۔عوام کے اصل مسائل کا اسے ادراک تک نہیں۔عوام کے ’’اصل مسائل‘‘ کی جانب توجہ دلاتے ہوئے اس نے اپنے کاروبار کی مندی کا رونا شروع کردیا۔اس کا دعویٰ تھا کہ بیشتر گاہک خاص طورپر ’’بزرگ حضرات‘‘ مہینے میں کم از کم دوبار اس کے ہاں ’’بال ٹھیک‘‘ کروانے آتے تھے۔ اب وہ مہینے میں ایک بار آتے ہیں۔

کئی ’’افسر لوگ‘‘ اسے گھربلوا کر ہفتے میں ایک بار اپنے سر میں تیل کی مالش کروایا کرتے تھے۔اب ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہوگئی ہے۔اس سال کے آغاز تک وہ ہر ماہ تین سے چار دن کے لئے پتوکی جایا کرتا تھا۔گزشتہ دو مہینوں سے مگر جانے کی ہمت نہیں ہورہی۔ گاہکوں کی تعداد کم ہوجانے کے باعث اس نے دو کاریگروں کو فارغ کردیا ہے۔اب صرف ایک کزن اس کی معاونت کرتا ہے۔وہ مگر خط بناسکتا ہے بالوں کو اطمینان بخش انداز میں کاٹ نہیں سکتا۔

دوکان اس کے حوالے کرکے میرا گیسو تراش اپنے گھر کچھ دنوں کو چلا گیا تو گاہک ناراض ہوجائیں گے۔اسے دوکان کا کرایہ ادا کرنے کے بعد اپنا خرچہ چلانے اور گھروالوں کو ماہانہ کچھ رقم باقاعدگی سے بھیجنے کے لئے ضروری ہے وہ بذاتِ خود اس دوکان پر موجود رہے۔اسے خبر نہیں تھی ’’مندی‘‘ کب تک جاری رہے گی جو بقول اس کے ’’خداجانے کیوں‘‘ ہمارے ملک پر ’’اس حکومت کے آتے ہی‘‘ نازل ہوگئی ہے۔

میرے پاس اس کے سوالوں کا مؤثر جواب موجود نہیں تھا۔میرے بال ویسے بھی بن چکے تھے۔ گھرلوٹتے ہوئے البتہ یہ سوچنے کو ضرور مجبور ہوا کہ ہماری خلقِ خدا کی اکثریت کوروناوائرس اور اس کے عالمی معیشت پر اثرات سے ابھی تک نآشنا ہے۔عورت مارچ نے ان کی ’’اقدار‘‘ کو خطرے میں بھی نہیں ڈالا ہے۔وہ ’’میری ہٹی-میری مرضی‘‘ کے فقرے کے ساتھ بلکہ اسے نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔معاشی مشکلات سے پریشان ہوکر اپنے غم بھلانے کے لئے PSL جیسے مقابلے ہی ان کی تسلی کے واحد راستے کی صورت اُبھررہے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments