افغانستان: بل رچرڈسن اور زلمے خیل زاد کے سفارتی مشن (2)


افغانستان کو کٹھ پتلی حکمرانوں کے حوالے کرنے کے بجائے ایک عوامی و وسیع البنیاد حکومت کیوں نہیں بنائی گئی؟ اسلام آباد میں امریکی سفیر ٹام سیمنس کے مطابق رچرڈسن نے افغانستان کی تعمیر نو اور معاہدہ کے عملدرآمد کے صورت میں کابل کی طالبان حکومت کو تسلیم کروانے پر بھی آمادگی ظاہر کی تھی۔
ان کے مطابق طالبان کو جو چیز سب سے زیادہ کھٹک رہ تھی ، وہ یہ تھی کہ کابل پر ان کا کنٹرول ہونے کے باوجود، اقوام متحدہ میں افغانستان کی سیٹ شمالی اتحاد کے پاس تھی۔ اس معاہدہ کے ایک ماہ بعد ہی بھارت اور پاکستان کے جوہری دھماکوں نے جہاں امریکہ کی ترجیحات بدل دی، وہیں دوسری طرف افغانستان کی سفارت کاری رچرڈ ہال بروک کے حوالے کرکے پورے عمل کی ہی ہوانکال کر رکھ دی۔
امریکی مصنف رائے گوٹمین اپنی کتاب How We Missed the Story:Osama Bin Laden, the Taliban and the Hijacking of Afghanistan میں رقم طراز ہیں کہ امریکی اقدامات سے نہ صرف افغانستان میں سفارت کاری کو دھچکا لگا بلکہ اقوام متحدہ کی نئی کاوشوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی لکدر براہمی جو پہلے مرحلے میں ناکام ثابت ہو گئے تھے کا کہنا تھا کہ طالبان جنگی جرائم کی تحقیقات اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے حوالے کرنے پرراضی ہوگئے تھے۔
ان کے مطابق امن مساعی کیلئے ایک کھڑکی کھل گئی تھی۔ مگر وہ افسوس کر رہے تھے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے خود ہی کاہلی کا ثبوت دیا اور امریکیوں نے بھی ثابت کیا کہ انکو مذاکرتی عمل کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بل رچرڈسن کا سفارتی مشن بس ایک پکنک ہی بن کر رہ گیا۔
اس دوران طالبان نے پوست کی کاشت کو ممنوعہ قرار دیا اور اسکے لئے سخت سزا تجویز کی۔ ملا عمر نے بن لادن کی سرگرمیوں اور اس کی اعلانیہ پریس کانفرنس کرنے پر روک لگا دی ۔ اسلام آباد میں طالبان کے نمائندے نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا کہ بن لادن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں اور وہ کابل انتظامیہ کو جوابدہ ہونگے۔ اسی دوران قندھار میں سعودی انٹیلی جنس چیف ترکی الفیصل اور ملاعمرکے درمیان طے پایا گیا کہ ایک مشترکہ افغان اور سعودی علماء کونسل بن لادن کے مستقبل اور اسکو سعودی حکومت کو حوالے کرنے کے طریقہ کار پر غور کریگی۔
مگر جنگ بندی کے میکانزم کو ترتیب دینے میں واشنگٹن کی عدم دلچسپی اور دیگر امور پر امریکہ کی طرف سے عدم پیش رفت کی وجہ سے طالبان نے شبر گان، مزار شریف اور بامیان پر فوج کشی کی۔ان حملوں کے دوران قتل و غارت گری کی ایک داستان رقم کی گئی۔ سال بھر قبل مزار شریف میں طالبان کو ہزیمت کا سامنا کرکے لاشیں چھوڑنی پڑی تھیں، ہزارہ آبادی کو قتل کرکے اس کا پورا بدلہ چکایا گیا۔
رہی سہی کسر افریقی شہر نیروبی میں امریکی سفارت خانے پر خودکش بمباری نے پوری کی، جس میں 200سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔ اس کے تار جلد ہی اسامہ بن لادن سے مل گئے۔ نیروبی میں جس وقت دھماکے ہو رہے تھے، کراچی کے ایر پورٹ پر امیگریشن افسر نے بطور مذاق یمنی پاسپورٹ پر آئے ایک مسافر سے پوچھا کہ وہ کہیں دہشت گرد تو نہیں ہے؟ اس مسافر کے پاسپورٹ پر جو تصویر تھی اس میں لمبی داڑھی تھی، جبکہ سامنے بیٹھا ہوا شخص کلین شیو تھا۔
عام طور پر معاملہ الٹا ہوتا ہے۔ پاسپورٹ کی تصویر میں کلین شیو آدمی عام طور پر داڑھی بڑھاتا ہے۔ یہ شخص اردن میں مقیم فلسطینی محمد صدیق آودہ تھا، جو نیروبی میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کیلئے لاجسٹکس وغیرہ کے انتظامات پر مامور تھا۔
امیگریشن افسر کے سوال کو ٹالنے کے بجائے اس نے دہشت گردی اور امریکہ کے خلاف حملوں کو جائز بتا کر بحث شروع کی اور بتایا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے وہ ایک مقصد کی تکمیل کی خاطر کر رہا ہے۔ اس کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ انٹروگیشن میں اس نے پورے واقعہ کاپول کھول کر رکھ دیا، جس کی تفتیش میں شاید امریکیوں کو برسہا برس لگ جاتے۔ اسے بعد میں کینیا ڈیپورٹ کیا گیا ۔
1998 کی اس امن مساعی کی ناکامی کیلئے دونوں فریقین ذمہ دار ہیں۔ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کسی پیش رفت نہ ہونا، طالبان کا مزار شریف اور شبر گان پر قبضہ کے بعد درگذر کے بجائے ہزارہ آبادی کا قافیہ تنگ کرنا، 11ایرانی سفارت کاروں کی ہلاکت ، پاکستان کے کٹر سنی انتہا پسند گروپوں کو اس آپریشن میں شامل کروانا اور پھر نیروبی میں امریکی سفارت خانے میں خود کش حملوں نے رچرڈسن کے مشن کو بری طرح ناکام کرکے رکھ دیا۔
طالبان نے بعد میں ترکی الفیصل کو دوسرے دورہ کے دوران پھر خوب کھری کھوٹی سنائی ۔ اسکی ریاض واپسی کے فوراً بعد سعودی عرب نے بدلے میں ریاض میں طالبان کے سفارت خانے کو بند کرنے کا حکم دے دیا۔ امید ہے کہ زلمے خلیل زاد کی سفارت کاری رچرڈسن کی طرح محض پکنک کی نذر نہ ہوجائے اور صدر ٹرمپ اپنے پیش رو صدر کلنٹن کا وتیرہ نہ اپنائیں۔ افغانستان میں امن اور ایک عوامی حکومت کا قیام پورے خطے کیلئے خوشحالی کا پیامبر ہوسکتا ہے۔ (ختم شد)
بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments