طالبان امریکہ امن ڈیل: پاکستان کے لیے پالیسی آپشنز


سال 2019 میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے نتائج نے افغانستان میں داخلی طور پر سیاسی مصالحت کے امکانات کو مزید گہنا دیا ہے۔ ان نتائج کے سبب یہ امید بھی دھندلا گئی ہے کہ نئی قائم ہونیوالی حکومت ایک ایسی اجتماعی مذاکرات کار ٹیم تشکیل دے گی جو افغان طالبان سے بات چیت کرسکے گی۔ صدر اشرف غنی نئی صدارتی مدت میں فاتح ہیں تو انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج کو ماننے سے نہ صرف انکار کرتے ہوئے متوازی حلف اٹھا لیا ہے۔

کابل میں موجود سیاسی غیر یقینی میں اضافہ اس وقت دیکھا جارہا ہے جب امریکی مذاکراتی ٹیم اور طالبان کے مابین امن معاہدے کو ہوئے ایک ہفتہ ہوا چاہتا ہے۔ بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ طالبا ن ڈیل جس کا بہت انتظار کیا جارہا تھا، جنگ سے متاثرہ ملک میں قومی تعمیر کے عمل کے لئے انتہائی اہم ہے جہاں تمام متعلقہ افغان اسٹیک ہولڈرز کو ناصرف ایک مستقل اور جامع امن معاہدے کو نافذ کرنا ہوگا بلکہ ملک میں نئے عمرانی معاہدے کی تشکیل بھی کرنا ہوگی۔

تاہم افغانستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی انتشار کے سبب یہ خدشہ ہے کہ امن عمل متاثر ہوگا۔ جس کے نتیجے میں بیرونی اسٹیک ہولڈرز خاص طور امریکہ میں جھنجھلاہٹ بڑھے گی کیونکہ وہ دہائیوں پرانی اس جنگ کا فی الفور خاتمہ چاہتے ہیں جو ان کے مالی اور سیاسی وسائل کو کھائے جارہی ہے۔ افغان طالبان کے نائب امیر اور حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی نے حال ہی میں نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون میں حالیہ دنوں میں امن معاہدے کے متعلق طالبان کے آپسی اختلافات کا اشارہ کیا۔

تاہم ان کے اختلافات اتنے سنجیدہ نہیں ہیں جس قدر بے اعتمادی ان کے مخالف فریق افغان حکومت اور ان کے عالمی اتحادیوں میں ہے۔ کابل میں پھیلی ہوئی سیاسی بے یقینی طالبا ن کے لئے فائدہ مند ہے جسے وہ امریکہ اور اپنے ہم وطن افغانوں کے ساتھ مذاکرات کی سودا بازی میں ایک سہارے کے طور پر استعمال کریں گے۔ پاکستان کے لئے یہ صورتحال بہت نازک ہے کیونکہ اس نے طالبان اور امریکہ کے مابین مذاکرات میں ایک کلیدی کردار اس امید کے ساتھ نبھایا ہے کہ اس عمل کے سبب اس کی مغربی سرحد پر دباؤ کم ہوجائے گا۔

اس امن معاہدے میں معاونت پاکستانی معیشت کو ترقی کے راستے پہ واپس لانے کے لئے بھی لازمی تھی کیونکہ اس کے ذریعے سے واشنگٹن اور دیگر یورپی دارلحکومتوں کا اعتماد جیتا جا سکتا تھا۔ تاہم خوف یہ ہے کہ حالیہ افغان سیاسی تنازعہ پاکستان کی امیدوں کو مدہم بھی کرسکتا ہے۔اگرچہ امریکی مداخلت کے سبب افغانستان میں صدارتی انتخابات کے پس منظر میں پھیلنے والا حالیہ سیاسی تنازع حل ہوبھی جائے تو پھر بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے ایک ایسا وفد تشکیل دینا جسے تمام گروہوں کی حمایت حاصل ہوایک مشکل معاملہ ہوگا۔

مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کا مرحلہ امکان سے زیادہ طویل ہوسکتا ہی اور یہ بھی کہنا قبل از وقت ہے تاہم افغان مصالحتی عمل اپنی توقع سیزیادہ طویل ہوتا ہے تو افغان طالبان پہ داخلی طور پر دباؤ بڑھ جائے گا کہ وہ اپنی متوازی حکومت یا امارات کا اعلان کردیں جو کہ پہلے ہی ملک کے دیہی اور مضافاتی علاقوں میں موجود ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں پاکستان پر عالمی برادری اور افغانستان کی موجودہ سیاسی اشرافیہ، دونوں کا دباؤ بڑھ جائے گا۔

قریباََ دو سال پہلے ایک مشق کی گئی جس میں پاک افغان تعلقات کی 2030 میں پیش بینی کی گئی۔ اس دوران ایک یہ امکان سامنے آیا کہ اگر غیر ملکی افواج افغانستان میں اپنے مقاصد پورے کئے بغیر انخلاء کرگئیں تو افغان طالبان اور سیاسی اشرافیہ دونوں ہی ملک میں امن لانے میں ناکام رہیں گے۔ اس صورتحال میں افغانستان کے ہمسایوں کے پاس کوئی زیادہ طاقت نہیں ہوگی کہ وہ افغان اسٹیک ہولڈرز کو ایک نکتے پہ اکٹھا ہونے پہ مجبور کرسکیں۔ پاکستان اور افغانستان کے آپسی تعلقات مزید بگڑیں گے اور دونوں ممالک کے تعلقات میں بگاڑ بھارت کے لئے فائدہ مند ہوگا۔

یہ صورتحال پاکستان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوگی کیونکہ اس کے سبب سرحد پہ کشیدگی بڑھے گی، تجارت متاثر ہوگی اور دونوں ممالک کے مابین انسانی رشتے متاثر ہوں گے۔ امریکہ، روس اور چین سمیت دیگر عالمی دنیا کے لئے ڈراؤنا خواب طالبان کا ابھرتی ہوئی طاقت ہوگی جس کے نتیجے میں عالمی دہشتگرد نیٹ ورک مزید مضبوطی حاصل کرے گا۔ ایسی صورت میں چین اور روس اپنا وزن اس پلڑے میں ڈالیں گے جو طاقت کا سب سے بڑا دعویدار ہوگا۔

روس نے تو فیصلہ کر بھی لیا ہے۔ یہ منظرنامہ مایوس کن تھا اوریہ اشارہ کرتا تھا کہ سیاسی مجبوریاں اس قدر مضبوط ہوچکی ہیں کہ ایک ایسے منظر نامے کا تصور بہت مشکل ہے جہاں افغان ایک ریاست اور سماج کے طور پر اپنے اختلافات کو ختم کرچکے ہوں۔ حالیہ منظرنامے میں پاکستان کے پاس کیا آپشنز باقی ہیں؟

سب سے پہلا تو یہ کہ جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے اس سے مکمل کنارہ کرلیا جائے۔ اس کی ایک تشریح یہ ہوسکتی ہے کہ افغانوں کے آپسی مذاکراتی عمل کے دوران اور اس سے قبل مکمل غیر جانبداری اختیار کی جائے۔ یہ ایک مثالی مگر مشکل پوزیشن ہے کیونکہ غیرملکی افواج کے انخلاء اور مکالماتی عمل کے دوران کئی پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکہ کو بہرحال پاکستان پر انحصار کرنا ہوگا کہ وہ طالبان اور دیگر سیاسی عناصر پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرے۔ ثانیاًیہ کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ روس، ایران اور کسی حد تک بھارت کسی غیر جانبدار پوزیشن پہ رہیں گے۔

بھارت اور ایران کی افغانستان میں اپنی اپنی پراکسیاں ہیں جنہیں وہ غیر فعال نہیں کریں گے۔ اگر مکالمے کے دوران ڈیڈ لاک پیدا ہوا تو پاکستان ان پراکسیوں کا پسندیدہ نشانہ ہوگا۔ پاکستان کو افغانستان میں ناصرف مختلف الخیال عناصر سے تعلق مضبوط بنانا ہوگا بلکہ تعلقات کے اس دائرے کو طالبان کے علاوہ بھی مزید وسیع کرنا ہوگا۔

اگر انخلاء کا معاملہ پیچیدگیوں میں پڑگیا تو بہت حد تک ممکن ہے کہ امریکہ اپنی حکمت عملی پہ نظرثانی کرلے۔ مگر اس دوران عالمی دنیا کے لئے سب سے اہم زاویہ یہ ہوگا کہ افغانستان کی طویل المدت معاشی امداد، تاوقتیکہ افغانستان کی طاقتور اشرافیہ ملک میں معاشی استحکام کی بنیادیں کھڑی کرسکے۔ یہ عمل افغانستان کے داخلی مکالمے پربھی اثرانداز ہوگا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ افغان اسٹیک ہولڈرز جن کے مفادات بہت متنوع ہیں اس چیلنج سے کس طرح نمٹیں گے۔

یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ پاکستان پر ٹرانزٹ روٹ معاہدے کے لئے دباؤ بڑھائیں اور بندرگاہوں تک آسان رسائی کا مطالبہ کردیں۔ اگر بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں تناؤ برقرار رہا تو پاکستان کے لئے ایسی رعائتیں دینا آسان نہیں ہوگا۔

انخلاء کا مرحلہ اور مکالماتی عمل پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کا اصل امتحان ہوگا۔ پاکستان کے پاس مستقبل کا ایک لائحہ عمل ہونا چاہیئے اور افغانستان کے ساتھ ایک طویل المدت تزویراتی اور معاشی معاہدے اور تعاون کے منصوبے تیار ہونے چاہیئں۔ یہ دونوں ممالک کے لئے بہت اہم ہے کہ وہ بھارت پر بنیاد کرتی ہوئی تزویراتی بھول بھلیوں سے باہر نکلیں اور اپنے آزادانہ دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیں۔

بشکریہ روزنامہ نائنٹی ٹو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments