قتل یا خودکشی، فیصلہ کیونکر ہو؟


اویس کا تعلق ایک پڑھے لکھے خاندان سے تھا۔ محترم کوئی اٹھارہ بیس سال کے گھبرو جوان تھے۔ دل کے بہت ناتواں تھے۔ بات بات پر رونا دھونا، چھوٹی چھوٹی بات کو جی سے لگا لینا ان کا معمول سمجھا جاتا۔ سہ ماہی سے ششماہی مشکل سے پار کر پاتے کہ کوئی نازک اندام حسینہ ان کے دل کا خون کر جاتی۔

ان کا کہنا تھا کہ سب ان کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس بے قدری اور ناسمجھی پر وہ عمومی حالات میں بس رو دھو کر ہی غم ہلکا فرما لیا کرتے۔ لیکن حشر تب برپا ہوتا جب سالانہ رزلٹ آتا۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کہ موصوف پڑھائی میں اچھے نہ تھے۔ لیکن جب مقابلہ خاندان کے دوسرے افلاطون بچوں سے کیا جاتا تو وہ دل برداشتہ ہو جاتے۔ نمبروں کی درجہ بندی کے حساب سے سب سے نچلا درجہ ہی ان کا مقدر بنتا۔ خاندان بھر کے جگر گوشے گریڈ کی ریس میں دوڑے چلے جا رہے تھے۔

چند نمبروں کی کمی پر والدین بچوں کو مزید محنت کے لیے ہانکتے رہتے۔ جب خاندانی مقابلے کی سنگینی ایسی ہو تو ستر فی صد لے کر ڈپریشن میں آنا کوئی حیران کن بات نہ تھی۔ گھر والوں کا دباو، ڈانٹ پھٹکار قبلہ کا دل چند دنوں کے لیے زندگی سے اچاٹ کر دیتی۔ لاکھ پڑھائی میں جی لگانے کی کوشش فرماتے مگر دل کی تاروں کا کنیکشن کہیں اور ہی جا ملتا۔ وہ فزکس، بائیولوجی، اور کیمسڑی سے بیزاری کا اظہار کر چکے تھے۔ مگر کیا ہے کہ خاندان کے ہر بچے نے سائنس کے مضامین میں ہی معرکہ مارا تھا۔

سو ان پر بھی فرض لازم تھا کہ سائنس کے مضامین لینے کی پرمپرا کو برقرار رکھتے۔ ویسے بھی جابر والدین نے بھی ان کے مقدر میں یہ ہی پڑھنا لکھ دیا تھا۔ ان کو عشق تھا شاعری سے اور موسیقی سے۔ تصویر کشی کرنے بیٹھتے تو اظہار فن دید کے قابل ہوتا تھا۔ لکھنے لکھانے کے فن میں مہارت حاصل کرنے کا اشتیاق جنوں کی حد تک تھا۔ مگر وہاں کوئی بھی ان کے شوق کی قدر کرنے والا نہ تھا۔ لہذا جب حالات سے اکتا جاتے توایک آدھ برس میں جان لینے کی دھکی دے ہی دیا کرتے۔

خیر خواہ اطلاع ملتے ہی کمینی سی مسکراہٹ چھپاتے ہوئے نازل ہو جاتے۔ بھلے مانس سجنوں کی بھی دوڑیں لگ جاتیں۔ بیلیوں کی اس جان لیوا اعلان سے واقفیت اب برسوں پرانی ہو چلی تھی۔

ہر بار یار سمجھا بجھا کر ان کے مصم ارادہ میں ترمیم کی درخواست کرتے۔ جس کو کچھ سوچ بچار کے بعد قبول کر لیا جاتا۔ اور اس طرح کچھ عرصہ بیت ہی جاتا۔ آئے دن کے ڈراموں سے دوستوں کی بس ہو چکی تھی۔

اس دفعہ بھی ایسا ہی کچھ دن تھا پر اس بار حالات کی سنگینی کا عالم پہلے سے کہیں زیادہ تھا۔ حضور ستر سے اڑسٹھ فیصد کی لائین میں آن کھڑے ہوئے تھے۔ ستر فیصد پر جہاں ہنگامہ برپا ہوتا تھا وہاں دو سیڑھیوں کی تنزلی گھر والوں کو کھائے چلی جا رہی تھی۔ گھر والے حضرت کو سمجھنے سے قاصر تھے اور ان کا بھی گھر والوں کے بارے میں یہ ہی خیال تھا۔ ڈانٹ پھٹکار، سرزنش، جھڑکیوں کی فراوانی کے کارن اپنی جان لینے کے اتاولے ہو رہے تھے۔ ایسے میں یہ خبر وبا کی طرح پھر پھیل گئی۔

اب کی بار حضور سے زیادہ دوستوں کے ارادے خطرناک لگ رہے تھے۔ خبر ملتے ہی درجن بھر دوست درجن ہی جان لیوا نسخوں کے ساتھ وارد ہو گئے۔ سب نے آتے ہی پہلے دلاسے تسلیاں دیں۔ دل جوئی کا ہر حربہ آزما لیا مگر حضور ایک ہی رٹ لگائے بیٹھے تھے۔

حالات کی نزاکت کا ذرا اندازہ کیجئے کہ اقدام خودکشی کے لیے پنکھے کا انتخاب بھی کر چکے تھے۔ جب پیار محبت کے سب حربے دوستوں کی پٹاری میں ختم ہو گئے۔ تو فیصلہ یہ ہوا کی اب کی بار جان عزیز کو ان کی مرضی پر ہی چھوڑ دیا جائے۔ اگر موصوف جان دینے کے اتنے ہی خواہش مند ہیں تو پھر ان کو اپنے جی کی کرنے دیجئے۔ اب رفقا کی گفتگو نیا رخ اختیار کر رہی تھی۔ سب اس بات سے واقف تھے کہ قبلہ بس باتوں کے شیر ہیں۔ اس لیے اس بار ذرا ان کو ان کے حال پر چھوڑ کر دیکھتے ہیں۔

بات یہاں پر نہیں رکی۔ احباب نے اس ضمن میں کچھ تجاویز اپنے اپنے میلان طبع کے مطابق دے ڈالیں۔ جیسا کہ، جان اللہ کو دینی ہے اس لیے مسلمان ہونے کے ناتے صفائی کو نصف ایمان جانتے ہوئے پنکھے کی صفائی کا خاص خیال رکھنے کو کہا گیا۔ کیونکہ مرنے کے بعد تفتشی ٹیم کا آنا بھی لازمی ہو گا۔ کچھ فوٹو شوٹ بھی ہو گا۔ تو کم از کم پنکھا ہی دمکتا چمکتا اچھا دکھائی دے۔ لٹکے ہوئے شخص کی گز بھر باہر نکلی زبان کی تصویر تو اچھی آنے سے رہی۔

ایک عزیز کا خیال تھا کہ پورے عمل کی ہائی ڈیفینیشن ویڈیو بنانے کا اہتمام ضروری تھا۔ تاکہ فیس بک پر شئیر کر کے ایصال ثواب کی درخواست کی جا سکے۔ مضبوط رسی استعمال کرنے کی تاکید کی گئی۔ کسی ہمدرد نے گرہ کو کس کر لگانے کا مشورہ بھی دے ڈالا، ساتھ ساتھ تفصیلات میں یہ بھی گوش گزار کردیا کہ پھندے کی پہنچ کے لیے جو کرسی استعمال کی جائے وہ نہایت ہی نازک ہو تاکہ کہیں خدا نخواستہ ارادہ ملتوی ہو تو کرسی وزن سے ہی ٹوٹ جائے۔

کمرے کی اندر سے چٹخنی لگانا نہایت ضروری قرار دیا گیا۔ احباب کی سفاکانہ باتوں سے بہتے دریا خشک ہو گئے۔ دلاسے اور دل جوئی سے بات یہاں تک پہنچی تو قبلہ دوستوں پر غصب ناک نگاہیں ڈالتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پیر پٹختے کمرے کی جانب چل دیے۔ دروازے کے پٹ بند کر کے چٹخنی چڑھا دی۔ باہر دوستوں نے شرطیں لگ گئیں کہ سو کی گنتی سے پہلے دروازہ کھل جائے گا۔ کمرے سے بار بار آواز بلند ہو رہی تھی کہ میں جان دے دوں گا۔ اندر سے آواز آتے ہی باہر دوستوں کی دبی دبی سی ہنسی سنائی دیتی۔

سب اس بات کے منتظر تھے کہ دیکھیں کب ارادہ ملتوی ہوتا ہے؟ کب دروازہ کھلے اور ان کے رخ روشن کا دیدار نصیب ہو گا۔ ۔ باہر دھیرے دھیرے گنتی میں اعداد کا اضافہ ہو رہا تھا۔ پینسٹھ، چھیاسٹھ، سٹھاسٹھ اور اڑسیٹھ اور ایک زور دار آواز۔ کرسی گرنے کی آواز۔ پنکھے سے جھولنے کے بعد بند دروازے کو زوردار جھٹکوں سے کھول تو لیا لیکن اس سے قبل گلے میں پڑی رسی نے سانس کے تمام رستے بند کر ڈالے تھے۔

اس بار اویس کا ارادہ متزلزل نہ ہوا اور نمبروں کی دوڑ کے آگے زندگی ہار گئی۔ موبائل میں اس بنی ہوئی ویڈیو اور حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے آخر میں جذبات اور احساسات کا یہ قتل لیکن خود کشی قرار پایا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments