اسلحے کی دوڑ اور غریب عوام


اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) ہتھیاروں، اسلحے کنٹرول اور تخفیف اسلحہ پر تحقیق کرنے والا ایک بین الاقوامی ادارہ ہے۔ 1966 میں قائم کردہ ادارہ ایس آئی پی آر آئی پالیسی سازوں، محققین، میڈیا اور عوام الناس کو کھلے ذرائع کی بنیاد پر اعداد و شمار، تجزیہ اور سفارشات فراہم کرتا ہے۔ پیر کے دن اس ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت ہتھیار درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔

اور پاکستان ہتھیار درآمد کرنے والے ملکوں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ 2015 سے 2019 تک پاکستان نے اکہتر فیصد ہتھیار چین سے خریدے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے امریکا ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک اور چین دنیا میں ہتھیاروں کا پانچواں بڑا برآمد کنندہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق سنہ 2015 سے 2019 تک دنیا بھر میں ہتھیاروں کی برآمدات میں ساڑھے 5 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں ہے بڑے پیمانے پر دوسرے ملکوں سے ہتھیار خریدنے میں غریب ملکوں کے اربوں ڈالر لگ جاتے ہیں جو ان ممالک کے عوام اپنی فلاح و بہبود کیلے ٹیکس کی صورت میں قومی خزانوں میں جمع کرتے ہیں۔ دوسرے جانب ہتھیار برآمدات کرنے والے ملکوں اور ہتھیار بنانے والے فیکٹری ملکان کی دولت میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اور یہ انہی پیسوں سے مزید مہلک اور انسانیت دشمن ہتھیار بنا کر دوبارہ غریب ملکوں کو بیچتے ہیں۔ جب ہم غریب ملکوں کے حکمران طبقے کو سنتے ہیں تو سب کا جواب تقریباً ایک ہی ہوتا ہے کہ فلاں ملک ہمارا دشمن ہے یا فلاں پڑوسی سے ہمیں خطرہ ہے ہم اپنی بقا اور سلامتی کے خاطر اسلحہ خریدتے ہیں۔

دوسرے ملکوں کے بجائے اگر ہم پاکستان اور بھارت کا مثال لیں تو یہ بات واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ ایک طرف عوام کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستان ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے۔ بھارت نے کبھی بھی ہمارے وجود کو دل سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ اور دوسری طرف بھارتی حکمران طبقہ اپنی عوام کو پاکستان دشمنی کا خوف دلا کے اور جموں و کشمیر میں پاکستان کی طرف سے جہادی تنظیموں کی پشت پناہی کا بہانا بناکر ہندوستانی بجٹ کا بڑا حصہ ہتھیاروں کی درآمد پر لگا رہے ہیں۔

اور جموں و کشمیر میں اٹھنے والی خالص عوامی تحریکوں پر بھی پاکستان کی پشت پناہی کا الزام لگا کر بدترین ریاستی طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنی اس بات کو سچ ثابت کرنے کیلے نا صرف بے بنیاد دلائل دیتے ہیں بلکہ کبھی کبھی چھوٹی موٹی جنگیں کر کے انسانوں کو رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے۔

اگر دیکھا جاے تو دونوں ملکوں کے وسیع آبادی بنیادی سہولیات زندگی معیاری خوارک، تعلیم، صحت اور روزگار سے محروم ہے۔ ایک طرف آٹے، چینی اور ٹماٹر کے قلت ہے تو دوسری طرف پیاز کی قلت ہے۔ ایک طرف لوگوں کے پاس بیت الخلا کی سہولت موجود نہیں تو دوسری طرف غربت سے تنگ باپ نے بچوں کو زہر دے کر خودکشی کرنے کی خبر ہر تیسرے چوتھے روز میڈیا پے آجاتا ہے۔ پھر بھی بیلنس آف پاور کے چکر میں ہر سال دونوں ملک اربوں روپے ہتھیار خریدنے پر لگاتے ہیں۔

عوام کے ٹیکسوں اور عوامی وسائل سے کمانے والی رقم سے اسلحہ اور بارود خریدنے کے بجائے اس کو انسانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کیلے ضروری ہے منافع پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرے جس میں انسانیت اور جمہوریت کے بڑے بڑے ٹھیکدار مہلک سے مہلک ترین ہتھیار بنا کر صرف اس لیے فروخت کرتا ہے تاکہ وہ مزید منافع کما سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments