انتہا پسندی کا خاتمہ: یورپ میں جیل سے رہا ہونے والے ’دہشتگردوں‘ کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے؟


حملے، لندن، دہشت گردی

شدت پسند خیالات رکھنے والے دہشتگردی کے مجرموں کی جیل سے رہائی کے بعد ان سے کیسا سلوک کیا جانا چاہیے؟

لندن میں حال ہی میں ہونے والے دو حملوں کے بعد سے یہ سوال ایک مرتبہ پھر سے توجہ کا مرکز بن چکا ہے کیونکہ ان دونوں حملوں میں انتہاپسند مجرمان چاقو سے حملہ کرنے میں کامیاب رہے باوجود اس کے کہ وہ سکیورٹی اداروں کے کی نظر میں تھے۔

20 سالہ سدیش امان نے جیل سے چھوٹنے کے صرف 10 دن بعد ہی سٹریتھم میں حملہ کیا۔ یہ ایسا کیس تھا جس نے یورپ بھر میں سنسنی کی لہر دوڑا دی جہاں مستقبل قریب میں کئی مزید مجرم رہا ہونے والے ہیں۔

برطانیہ نے فوراً ہی قانون منظور کر کے دہشتگردی کے مرتکب مجرمان کی خودکار قبل از وقت رہائی روک دی۔ دوسرے یورپی ممالک بھی سکیورٹی خدشات اور شہری آزادیوں کے درمیان ایسے ہی توازن کی تلاش میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

برطانوی فہرست میں بی ایل اے اور سپاہ صحابہ کا نام برقرار

دہشت گرد حملے: پیرس میں سیاحوں کی تعداد میں کمی

’دس افراد کی ہلاکت ماورائے عدالت قتل ہے‘

دہشتگردی کے مرتکب افراد کے لیے اب دوسرے موقعے کے ساتھ کئی شرائط عائد کی جا چکی ہیں۔

دہشتگردی کے کتنے مجرمان موجود ہیں؟

اعداد و شمار کے مطابق اگلے چند سالوں میں سینکڑوں ایسے مجرمان جیلوں سے رہا ہوں گے جو دہشت گردی کے واقعے میں ماخوذ ہیں۔ یورپی یونین کے قانون نافذ کرنے والے ادارے یوروپول نے ان اعداد و شمار کا اندازہ پیش کیا ہے۔

سنہ 2016 سے 2018 کے درمیان یورپی یونین کے اندر سپین میں دہشتگردی سے متعلق سب سے زیادہ عدالتی کیسز (343) سامنے آئے، جس کے بعد برطانیہ (329)، فرانس (327) اور پھر بیلجیئم (301) کا نمبر آتا ہے۔

سنہ 2018 میں ان یورپی ریاستوں میں 61 فیصد فیصلوں کو ‘دہشتگردانہ کارروائی’ قرار دیا گیا تھا۔ یوروپول کا کہنا ہے کہ فیصلوں کا یہ رجحان سنہ 2014 میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی خلافت کے قیام کا اعلان کرنے کے ایک سال بعد 2015 میں شروع ہوا۔

دولتِ اسلامیہ کے انتہاپسند خیالات سے متاثر ہو کر شدت پسندی پر مائل افراد نے کئی دہشتگردانہ کارروائیاں کیں۔ نومبر سنہ 2015 میں پیرس حملوں میں 131 لوگ ہلاک ہوئے، جبکہ جولائی 2016 میں فرانس کے شہر نیس میں ایک ٹرک ڈرائیور نے 86 افراد کو ہلاک کر دیا۔

عالمی سکیورٹی پر نظر رکھنے والے تھنک ٹینک گلوب سیک نے یہ نکتہ اٹھایا ہے کہ دہشتگردی میں ملوث افراد ہمیشہ سلاخوں کے پیچھے نہیں رہتے۔ سنہ 2015 میں دہشتگردی کے جرائم میں گرفتار ہونے والے 199 افراد میں سے 57 فیصد 2023 تک رہا ہو جائیں گے۔ ان کے جرائم میں حملوں کی منصوبہ بندی سے لے کر کسی دہشتگرد گروہ کی رکنیت یا دہشتگردی کی مالی معاونت تک شامل ہے۔

صرف فرانس میں دہشتگردی کے معاملات میں 500 سے زیادہ قید مجرمان میں سے 45 کے قریب کے رواں سال رہا ہونے کی توقع ہے۔ برطانیہ میں یہ تعداد 50 اور سوئیڈن میں صفر ہے۔

زیادہ تر یورپی ممالک دہشتگردوں کی بحالی کے مراکز چلاتے ہیں یا ان کی فنڈنگ کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ چھوٹے پیمانے کے پروگرام ہوتے ہیں جن کی توجہ مجرمان کی ایک محدود تعداد پر ہوتی ہے۔ ان میں شمولیت لازمی سے لے کر رضاکارانہ تک ہوسکتی ہے۔

کچھ مراکز کا مقصد مجرمان کے رویہ میں تبدیلی لانا (ڈس انگیجمنٹ) ہوتا ہے تو کچھ کا مقصد ان کی نظریاتی ساخت کو تبدیل کرنا (ڈی ریڈیکلائیزیشن)۔ عموماً یہ مرحلہ جیل میں شروع ہوتا ہے کیونکہ وہاں قیدیوں کے شدت پسندی کی جانب مائل ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔

جرمنی کیسے اپنے مجرمان کو اعتدال پسندی کی جانب لاتا ہے؟

وائلینس پریوینشن نیٹورک (وی پی این) ان کئی سول سوسائٹی کی تنظیموں میں سے ایک ہے جو جرمنی میں انتہاپسند مجرمان کے خیالات میں اعتدال لانے کے لیے کام کرتے ہیں۔

جب سنہ 2001 میں یہ قائم ہوا تھا اس وقت وی پی این کا پالا سنگین دہشتگردی کے مجرمان سے کم ہی پڑتا تھا۔ اس کا ہدف دائیں بازو کی شدت پسندی کی جانب راغب ہو سکنے والے نوجوان مجرمان تھے۔

لیکن سنہ 2010 کی دہائی کے وسط میں اس میں اس وقت تبدیلی آئی جب شدت پسند دہشتگردوں نے جنگ زدہ علاقوں سے واپس لوٹنا شروع کیا اور وہ اپنے ساتھ اپنے شدت پسند خیالات بھی لائے۔

وی پی این کی ایک ترجمان کورنیلیا لوٹھیمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘یہ افراد اتنے خطرناک ہیں کہ آپ انھیں گروہ کی صورت میں تربیت نہیں دے سکتے۔ ہمیشہ اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ کوئی شخص گروہ پر حاوی ہوجائے گا۔’

ان مشکل کیسوں میں جب تک ضرورت ہو تب تک دو لوگوں کا ایک مجرم کے ساتھ تربیتی سیشن کیا جاتا ہے جس کا حکم اکثر کورٹ کی جانب سے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ حوصلہ افزا نتائج دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جرمن حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والا ادارہ وی پی این کم سنگین مجرمان کے لیے بھی رضاکارانہ تربیت فراہم کرتا ہے۔

اس کے راہنما طریقہ کار ‘ذمہ داری کی تعلیم’ میں بہت احتیاط سے تحقیقی کام کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک بنیادی عنصر مجرم کی زندگی کو سمجھنا ہے جس میں ان کے بچپن کی حسین یادوں سے لے کر ان کے جرائم تک شامل ہیں۔

کورنیلیا کہتی ہیں کہ ‘ہم ان کی زندگی میں وہ اہم مواقع تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب انھوں نے غلط راستہ چنا۔’

جیل کے بعد کے دور میں یہ مجرمان پر منحصر ہوتا ہے کہ ‘وہ دوسرا راستہ اختیار کریں۔’ یہ کونسلنگ، ہنروں کی تربیت اور ایک سال تک کے لیے خاندانی اخراجات اٹھانا جیسی چیزوں کو یقینی بنانے کے لیے ہوتا ہے کہ وہ پرامن راستہ ہی منتخب کریں۔

فرانس کیسے انتہاپسند نظریات سے نمٹنے کی کوشش کرتا ہے؟

جیل میں شدت پسندی کی جانب مائل افراد فرانس میں بالخصوص ایک پریشان کن مسئلہ ہیں۔

سنہ 2015 میں فرانس میں ہونے والے چارلی ایبڈو اور پیرس حملوں میں وہ شدت پسند ملوث تھے جو جیلوں میں رہ چکے تھے۔ اب تک 1000 سے زیادہ قیدیوں کو شدت پسند قرار دیا جا چکا ہے۔

انھیں واپس اسی شدت پسند راستے پر جانے سے روکنے کے لیے فرانس نے مختلف ڈی ریڈیکلائزیشن پروگرام شروع کر رکھے ہیں۔ ان پر ان کے اخراجات، غیر واضح نتائج اور مسلمانوں کی بدنامی کی وجہ سے تنقید کی جاتی رہی ہے۔

منصوبے کے تحت سخت سکیورٹی والے قید خانوں میں مخصوص یونٹ شدت پسندی کے مجرموں کا جائزہ لیتے ہیں۔ انھیں ضرورت کے تحت الگ ونگز میں رکھا جاتا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے لیکن کچھ مجرم بالکل تعاون نہیں کرتے۔

جیل، قید، پیرس حملے

2015 میں پیرس حملوں میں ملوث کچھ افراد نے اپنی قید میں اپنا وقت پورا کیا تھا

سماجی کارکن ایک ایک کر کے قیدیوں کو ان کے انتہا پسند نظریے سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام آہستہ آہستہ کیا جاتا ہے۔

قید کے بعد ایک عدالت مجرم کو فرانس کے چار میں سے ایک تربیتی مرکز میں بھیج سکتی ہے۔ یہ پیرس، مارسیل، لیلی اور لیون میں واقع ہیں۔ ان مراکز میں معلم، ماہرین نفسیات اور مذہبی عالم یا امام کی نگرانی میں تربیت دی جاتی ہے۔

سنہ 2017 میں فرانس کے پہلے تربیتی مرکز کو ناکامی قرار دیا گیا اور اسے بند کر دیا گیا۔ اس میں داخل کچھ مجرموں کو خطرناک انتہا پسند خیال کیا جاتا تھا۔

لیکن فرانس کی وزارت قانون کی کورالی شین کے مطابق اب حالات بہتر ہوچکے ہیں۔ ’ہم شدت پسندوں اور جھوٹے جرائم میں سزا یافتہ مجرموں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فی الحال یہ طریقہ کام کر رہا ہے۔

نیدرلینڈز میں ایسے شدت پسند حملے نہیں ہوئے جیسے دوسرے یورپی ممالک میں ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود حکام کو علم ہے کہ وہ اس سے غافل نہیں ہوسکتے۔

گوکمین ٹینس نے یوٹریچ میں ٹرام پر چار افراد کو گولی مار کر انھیں قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ اس سے قبل شرپسندی کے مقصد سے کیے گئے ایک قتل میں بھی ان پر الزام عائد کیا گیا تھا۔

وہ ایک ریپ کے مقدمے میں بھی پیش ہوں گے۔ استغاثہ کے مطابق حملے سے قبل انھوں نے انتہا پسندی کی کوئی علامات ظاہر نہیں کی تھیں۔

ایسا کوئی بھی شخص جس پر شدت پسند ہونے کا الزام ہو انھیں ٹی ای آر (یعنی ٹیررسٹ، ایکسٹریمسٹ اور ریڈیکل) مخفف کے ذریعے مخاطب کیا جاتا ہے۔

سنہ 2012 میں لانچ کیا جانے والا ٹی ای آر دراصل جانچ کی ہی نسبتاً کڑی شکل تھی.

دوسرے یورپی ممالک کیا کر رہے ہیں؟

کئی ممالک میں دو مراحل پر مبنی لائحہ عمل اختیار کیا جاتا ہے۔ قید میں مداخلت اور جیل سے باہر خیال۔

مثال کے طور پر ڈنمارک میں دہشت گردی کے ملزمان کو الگ رکھا جاتا ہے اور رہائی سے قبل انھیں بیک آن ٹریک (واپس ڈگر پر آنا) نامی پروگرام میں شرکت کروائی جاتی ہے۔

بیلجیئم کی حکومت کے خیال میں بھی قید خانے ’انتہا پسندی کو فروغ‘ دینے کا باعث بنتے ہیں۔ بیلجیئم میں بھی ایک ایسا پروگرام ترتیب دیا گیا جس میں رویے میں تبدیلی اور انتہا پسندی سے چھٹکارے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ گذشتہ برس 27 قیدیوں کو اس نو ماہ کے پروگرام میں شمولیت کے لیے چنا گیا۔

سپین کی جیلوں میں بھی رضا کارانہ طور پر شدت پسندی ترک کرنے والے افراد کے لیے پروگرامز چل رہے ہیں۔ یورپی یونین کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں متشدد انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ ’مذہب کو عقلی نقطہ نظر ‘ سے دیکھیں اور جمہوری اقدار سیکھیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 2018 میں 23 شرکا کی شدت پسند سوچ میں نرمی آئی۔

کیا ری ہیبیلیٹیشن پروگرام کامیاب ہیں؟

یہ بات کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ ان پروگرامز کے نتائج کو دو وجوہات کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا۔ ’

پہلا تو یہ کہ ان کی کامیابی کو سائنسی بنیادوں پر جانچا نہیں جا سکتا کیونکہ قانونی، اخلاقی اور سکیورٹی حذشات اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ساتھ ہی یہ پروگرام ابھی شروع ہوئے ہیں اس لیے ان کا کوئی باقاعدہ ڈیٹا یا مطالعہ موجود نہیں۔

لیکن پرامید ہونے کی بھی وجوہات ہیں۔ ڈچ پروگرام کے تحت 189 ملزمان کی نگرانی کی گئی اور مطالعہ سے پتا چلا کہ سنہ 2012 سے 2018 کے دوران صرف آٹھ میں تکرار جرم یا دوبارہ حملے کے اشارے ملے۔

سکاٹ لینڈ یارڈ میں انسداد دہشت گردی کے چیف نیل باسو کہتے ہیں کہ امان کی دوبارہ تربیت ممکن نہیں تھی۔ یہ واضح نہیں کہ قید میں انھیں کیا تربیت دی گئی۔

تاہم اگر مزید کوئی اقدام کیا جاسکتا ہو تب بھی کوئی ایسا پروگرام نہیں ہے جس میں کامیابی کے حصول کا طریقہ کار واضح ہو۔

جرمنی میں انتہا پسند سوچ کو ختم کرنے کے ادارے کے ڈائریکٹر ڈینیل کوہلر کہتے ہیں: ’اس کے لیے ان کے پاس عملہ ہونا چاہیے جن کی اچھی تربیت ہوئی ہو اور ان کے پاس بہتر طریقہ کار اور چیزیں دستیاب ہوں۔

’اکثر ممالک میں ایسا نہیں ہوتا اس لیے ایسے پروگرامز اس سطح پر اثر انداز نہیں ہو پا رہےہیں جیسا کہ وہ ہو سکتے ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32723 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp