عورت مارچ، ثقافتی تصادم اور عمران خان کا یک رنگ سماج


اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں کیے جانے والے ’عورت مارچ‘ کے تحت مظاہروں کو ملک میں ثقافتی تصادم کا نتیجہ قرار دیا ہے جو ان کے بقول دوہرے تہرے تعلیمی نظام کی وجہ سے سامنے آیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اس طرح ایک قوم تیار نہیں ہوسسکتی۔ اس لئے حکومت ملک میں ایک تعلیمی نصاب متعارف کروانے کے لئے کام کررہی ہے۔

ملک کے چیف ایگزیکٹو کی جانب سے بعض بنیادی مطالبات کے لئے کیے جانے والے مظاہروں کو بالواسطہ تنقید کا نشانہ بنانے سے یہ تاثر قوی ہوگا کہ حکومت بنیادی حقوق کے بارے میں عوام کی بے چینی کو سمجھنے سے قاصر ہے اور اظہار رائے اور احتجاج و مظاہرہ کے بنیادی حق پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جارہا ہے۔ ملک کی جمہوری حکومت کے سربراہ کا یہ طرز عمل اور سوچ کا انداز ناقابل قبول اور افسوسناک ہے۔ وزیر اعظم تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں منعقد کی گئی تقریب میں بات کرتے ہوئے اگر ملک کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کا ذکر کرکے اپنی حکومت کے ’کارناموں‘ کی فہرست میں اضافہ کرنا چاہتے تھے تو اسے ان کی سیاسی مجبوری سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس گفتگو میں عورت مارچ کا ذکر کرتے ہوئے اسے ثقافتی تصادم کہا گیاہے۔ اس طرح دراصل عمران خان نے ایک خاص سیاسی و سماجی ایجنڈے کو سرکاری پالیسی بنانے کا اعلان کیا ہے۔

عمران خان نے عورت مارچ کے تناظر میں خواتین اور ملک کے کمزور طبقوں و اقلیتوں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر بات کرنے کی بجائے، ان مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کرنے والوں کے بارے میں ایک خاص متعصبانہ رائے مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ رویہ ملک میں سماجی انتشار اور محرومیوں کے خاتمہ کے حوالے سے خوش آئیند نہیں ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم کی مشیر برائے اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان کے علاوہ ان کی کابینہ کے متعدد ارکان عورت مارچ کو پاکستانی اقدار اور اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کرتے رہے ہیں۔ اس پس منظر میں وزیر اعظم کی طرف سے عورت مارچ کو ثقافتی تصادم کہتے ہوئے نظام تعلیم کے ذریعے اس کا ’علاج‘ کرنے کی بات دراصل یہ اشارہ دیتی ہے کہ حکومت رائے ٹھونسنے اور اسکولوں کی سطح سے ہی بچوں میں ظلم کو قبول کرنے کا رویہ استوار کرنے کی خواہاں ہے۔

نئے پاکستان کا نعرہ لگا کر اور ملک کے متوسط طبقہ کے نوجوانوں کی جنونیت کی حد تک تائد و حمایت سے اقتدار تک پہنچنے والے عمران خان سے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ برسر اقتدار آنے کے بعد سماج کی ہرسطح سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ نئے نظام میں ان کے حقوق کو یقینی بنایا جائے گا۔ اور حکومت خاص طور سے ملک کے کمزور طبقوں یعنی خواتین، اقلیتی عقیدوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں، نوجوان، معذور اور دوردارز علاقوں میں آباد افراد میں بیداری و شعور پیدا کرنے کے لئے کام کرے گی۔

8 مارچ کو عالمی یوم خواتین کے حوالے سے حکومت کو یہ نادر موقع بھی ملا تھا کہ حکومتی اداروں کے علاوہ حکمران جماعت تحریک انصاف بھی بڑھ چڑھ کر خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کے حقوق اور محرومیوں کے حوالے سے بیداری کی ایک قومی مہم کا حصہ بن سکتی۔ اس طرح ملک کے عوام اور خاص طور سے عمران خان کی حمایت کرنے والے متوسط طبقہ کے نوجوانوں میں یہ احساس پیدا ہوتا کہ حکومت اگر مالی مشکلات کی وجہ سے ان کے لئے کوئی عملی اقدامات کرنے سے قاصر ہے، پھر بھی وہ تبدیلی کے ایجنڈے کے تحت کمزور طبقوں کی اصولی اور جذباتی تائد و حمایت کررہی ہے۔ تاہم پہلے مشیرو وزیروں کی مہم جوئی اور اب عمران خان کے بیان سے ان امیدوں کا خون ہؤا ہے۔

وزیر اعظم نے دو ہفتے قبل نئی دہلی کے فسادات کی مذمت کے لئے ٹوئٹر پر جو بیان جاری کیا تھا اس میں انہوں نے بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے سلوک پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے، اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی تھی کہ پاکستان میں اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ انہوں نے متنبہ کیا تھا کہ کسی کو ملک میں آباد غیر مسلم عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف دنگہ فساد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ عمران خان کے اس بروقت اور دو ٹوک بیان کی ملک کے ہر طبقہ فکر نے تائد کی تھی اور وزیر اعظم کی طرف سے اشتعال انگیز ماحول میں ملک کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کو سراہا گیا تھا۔ لیکن وہی وزیر اعظم ملک کی خواتین کے بنیادی حقوق کے لئے پر امن مظاہروں کو ثقافتی تصادم کہہ کر مسترد کررہے ہیں۔

ملک کی خواتین یا دوسرے شہری طبقات کی طرف سے حقوق کے تحفظ کا مطالبہ ثقافتی ت تصادم کے نام پر نہ تو نظر انداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ’بری روایت‘ قرار دینے کی کوشش ثابت کرنے کا طرز عمل قابل قبول ہوگا۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستانی سماج کی علتّوں پر افسوس کا اظہار کرنے اور ان کے خاتمہ کے لئے تعلیمی نظام میں اصلاح کے علاوہ سیاسی نا انصافی کے طریقوں کو ختم کرنے کا وعدہ کرنے کی بجائے وزیر اعظم نے تعلیمی نظام کے ’عدم توازن‘ کو ختم کرکے یکساں نظام تعلیم استوار کرنے کی بات یوں کی ہے جس میں تعصب، امتیاز اور ایک خاص سماجی رویہ مسلط کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے۔ کسی بھی کثیر الثقافتی، کثیر العقائد اور کثیرالآبادی معاشرے میں ایک خاص مزاج یا سوچ کو مسلط کرنے کا طریقہ دراصل نا انصافی اور تعصب میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔

ملک میں یکساں نظام تعلیم کی بات کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے کہ یہ کام ملک کے ہر طبقہ کے عقیدہ اور ثقافتی و سماجی مزاج کا آئینہ دار ہو۔ پاکستان کے تعلیمی نظام کو تحریک انصاف کی حکومت نے اگر پہلے سے کام کرنے والے مدرسوں کی طرح یک رنگ بنانے کی کوشش کی تو درحقیقت اس سے نہ صرف ثقافتی تصادم کا اندیشہ بڑھے گا بلکہ پہلے سے مسترد شدہ مذہبی و سماجی گروہوں کے خلاف تعصبات اور تشددد میں اضافہ ہونے کا امکان بھی ہے۔ عمران خان بھارت میں نریندر مودی کی سربراہی میں ہندو توا پر استوار جن سیاسی و سماجی پالیسیوں کو مسترد کرتے ہیں اور فساد اور نا انصافی کا سبب قرار دیتے ہیں، وہ بھی دراصل اسی قسم کی سوچ کا شاخسانہ ہے جس کا اظہار عمران خان اور ان کے رفقا نے ’عورت مارچ‘ پر تبصرے کرتے ہوئے کیا ہے۔

ملک میں ناہموار اور طبقاتی نظام تعلیم کے خلاف ضرور کام ہونا چاہیے لیکن اس کام کو تعلیم و تدریس میں متنوع اور متوازن سوچ کا آئینہ دار بھی ہونا چاہیے۔ سابق فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور میں اسلام نافذ کرنے کے جوش میں اسکولوں اور کالجوں میں اسلامیات کو لازمی قرار دیتے ہوئے یہ خیال کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا کہ ملک میں دیگر عقائد سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی آباد ہیں۔ وہ بھی پاکستانی شہری ہیں اور اسکولوں کالجوں میں تعلیم کے دوران انہیں بھی اپنے عقیدہ اور مذہبی روایت کے بارے میں جاننے کا حق حاصل ہے۔ ان قلیتوں کو اپنے عقیدہ کی تعلیمی سہولت دینے کے برعکس، ایسی مثالیں ضرور سامنے آئی ہیں کہ اقلیتی عقائد سے تعلق رکھنے والے بچوں کو مجبوراً اسلامیات پڑھنے اور اس کا امتحان دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

اسی طرح کی ایک مثال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں احمدیوں کو مذہبی اقلیت قرار دینے کی آئینی ترمیم کے بعد دیکھنے میں آئی۔ ضیا الحق نے اپنی نام نہاد اسلام دوستی کے جوش میں احمدیوں کے خلاف ایسے قوانین بنائے کہ ان کا قرآن پڑھنا، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا یا خود کو مسلمان سمجھنا قابل دست اندازی پولیس معاملہ بنا دیا گیا۔ اسی طرح کے ایک دوسرے ظلم کا آغاز ملک کے توہین مذہب قوانین میں من پسند ترامیم کے ذریعے کیا گیا۔

ان ترامیم کے بعد پاکستان کے توہین مذہب قوانین متعصبانہ اور ایک خاص عقیدہ کا جبر مسلط کرنے کا سبب بنے ہیں۔ اسی تصویر کا یہ پہلو سب سے زیادہ بھیانک اور تکلیف دہ ہے کہ ان قوانین کے تحت عائد کیے گئے جھوٹے الزامات کی وجہ سے درجنوں لوگوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ ملک کی جیلوں میں بند ہیں۔ ملک کا عدالتی نظام ان لوگوں کی دادرسی میں ناکام ہو چکا ہے۔

حکومت اور وزیر اعظم اگر اسی سوچ کو راسخ کرنے کے لئے ملک کے تعلیمی نظام کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اس سے معاشرہ میں ہم آہنگی کی بجائے تصادم اور فساد کی کیفیت پیدا ہوگی۔ بنیادی انسانی حقوق کا کوئی مطالبہ کسی ثقافت کو چیلنج نہیں کرتا بلکہ ملک و معاشرہ کے جبر و نا انصافی کو نمایاں کرتا ہے۔ حقوق کی جد وجہد کو تصادم قرار دے کر دراصل ایک غیر ضروری سماجی فساد پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ طریقہ مسائل میں گھرے پاکستان کے لئے مہلک اور تباہی کا پیامبر ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments