غلط فہمی


جلدی چلو رجسٹریشن کا آج آخری دن ہے۔ یونیورسٹی کے مین گیٹ پہ پہنچتے ہوئے آئمہ نے کہا۔ میں ہمیشہ کی طرح یار یہاں کی بیوٹی دیکھ کہ پاک جانے کا دل ہی نہیں کرتا آئمہ قہقہ لگاتے ہوئے۔ تمھارا بھی دین ایمان نہیں کبھی کہتی ہو آنکھ جھپکنے سے پہلے پاک پہنچ جائیں اور کبھی کیسے ڈرامے اسی طرح باتیں کرتے ہوئے ہم ڈیپارٹمنٹ میں انٹر ہوئے۔ آئمہ رکو زارہ میں زارہ کہاں ہے اتنے میں وہ ”ایوی ایٹر“ سے ہوتے ہوئے دوسرے فلور پہ نکل گئی۔ شٹ یار وہ پھر بھاگ گئی۔ تم دو منٹ آرام سے رک نہیں سکتی تھی؟ آج میں اس کے پیچھے بھاگ کر پکڑ تی اور اس کے بدلے ہوئے چہرے کا راز پوچھتی۔ تم پریشان نہ ہو آج شام اس کے ”اپارٹمنٹس“ چلتے ہیں۔

سارے کام نپٹانے کے بعد ہم لوگ ہاسٹل آئے۔

مسلم ڈشز تیار کیں اور ٹیکسی کروا کر اس کے گھر پہنچے۔ زارہ کے والدین کہتے ہیں کہ وہ گھر پر نہیں ہے ہمارے ساتھ ان میں سے کوئی بھی ٹھیک سے بات نہیں کرتا۔ حالا نکہ وہی زارہ اور اس کی فیملی شروع میں ہمارا بہت خیال رکھتے تھے۔ ہم مسلم کمیونٹی والوں کے لیے کھا نے بنا کر بھیجتے تھے۔ ہمارے تہواروں میں ہمارے ساتھ ہوتے، جس کی وجہ سے گھر سے دوری کا ہمیں احسا س تک نہیں ہوتا تھا۔ اگلے دن میری پریزنٹیشن تھی۔ علی، احد، صائم سب ہم مسلم کینٹین پہ بیٹھے تھے۔

اور بیٹ لگائی سب نے کہ میں نے اچھی پرفارمنس نہ دی تو سب کو میں آئس کر یم کھلاؤں گی۔ اسی بحث میں علی کی نظر زارہ پہ پڑی۔ دیکھتے ہی اس کے چہرے کے اثرات بدل گئے۔ صائم کیا ہوا وہ دیکھو زارہ کتنا مزے سے کسی نئے گروپ کے ساتھ خوش بیٹھی ہے۔ آئمہ مجھے جانے دو میں اس خود غرض لڑکی سے پوچھتی ہوں کہ اب ہم سے دور کیوں بھاگتی ہے۔ ہمیں دیکھ کر کیوں چھپ جاتی ہے۔ علی بیٹھ جاؤ۔ اس نے دوستی بھی خود کی تھی۔ ہم سب کو چھوڑا بھی خود ہے۔

اگلے دن ہم گروپ فوٹوز دیکھ ر ہے تھے۔ مجھے یاد آیا جب شروع میں زارہ سے دوستی ہوئی تھی۔ ایک ٹرپ پر سیلفی بناتے ہوئے چھوٹی سی مصنوعی جھیل میں گر گئی تھی۔ زارہ نے دیکھ کر ہیلپ ہیلپ چلا کر مجھے بچایا تھا۔ تب سے ہماری دوستی ہوئی تھی۔ پھر پتہ چلا وہ بھی مسلم ہے۔ جس کی وجہ سے ”انٹر نیشنل مسلم کمیونٹی“ سے دوستی ہوگئی تھی۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی۔ سب کی مدد کرتی تھی۔ کلاس میں سب سے اچھی ”پریزنٹیشن“ بھی وہ دیتی تھی۔

لیکن جب سے ہم لوگوں سے دور بھاگنا شروع کیا خراب رزلٹ دینے لگی۔ ایک دن آئمہ میرے پاس آئی۔ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ مجھے کال کی کہ لیب سے باہر آ جاؤ جلدی میں۔ میں گئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آئمہ کسی اجنی لڑکی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ مجھے آ پ لوگوں سے اکیلے میں بات کرنی ہے۔ میں زارہ کا پیغا م لائی ہوں آئمہ ہمیں اب اس کی ضرورت نہیں۔ ایسی لڑکی سے اب ہم نے بھی کوئی رابطہ نہیں رکھنا۔ کلاس میں دیکھ کہ منہ پھیر لیتی ہے بات کرنے کی کوشش کریں تو بھاگ جاتی ہے۔

علی اسے لے کہ بہت serious تھا۔ اس کے بدلے روپ نے اس کی پڑھائی اور کیرئر خراب کیا۔ شیز آپ کی باتیں ٹھیک ہیں۔ لیکن میری بات تسلی سے سنیں ہم لوگ ”ڈیپارٹمنٹ“ کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ آئمہ بتاؤ شیز کیا بات ہے۔ thank you بات یہ ہے زارہ مسلم ہے پر جب اس نے ”انٹر نیشنل مسلم کمیونٹی“ سے دوستی کی تو اس پر پابندی لگا دی ہے کہ نہ وہ مسلم سے ملے اور نہ ہی باتیں شیر کرے۔ اگر وہ باز نہ آئی تو یونیورسٹی سے نکال دیا جائے گا۔

پھر بھی نہ مانی تو جرمانہ بھی لگے گا اور کہیں بھی نوکری کرنے کی بھی اجازت نہیں ملے گی۔ میں نے تجسس سے پر ایسا کیوں؟ شیز کیونکہ ادھر مسلم کو اسلام فالو کرنے میں زیادہ آزادی نہیں، انہیں حجاب نہیں کرنے دیا جا تا اور جو اپنی حد سے زیادہ آزاد ہونے کی کوشش کرے اس پر پابند یاں لگا دی جاتیں ہیں۔ اس لیے زارہ خود غرض نہیں مجبور ہوگی ہے۔ وہ آپ سب سے اب بھی پیار کرتی ہے آ پ کو یاد کر کے روتی ہے۔ میں اور آئمہ سن کہ حیرانی میں آگئے کہ کیسے ہم نے دل خراب کیا زارہ کو برا بھلا کہا۔

شیز وہ request کر رہی تھی کہ وہ مجبور ہے۔ اسے معاف کر دیں اور کہیں بھی دیکھیں تو رابطے کی کوشش بھی نہ کریں۔ ہم سب اس کے لیے بہت پریشان ہوئے کہ مسلمان ہونا اتنا بڑا جرم کیوں بن جاتا ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اپنی پسند کے رشتے، دوستیاں تک نہیں بناتا اور نہ نبھا سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments