قرآن ایک منزل یا زینہ؟


دنیا میں تعلیم کی اعلی ترین ڈگری پی ایچ ڈی ہے۔ ہر وہ شخص جو حصول علم کا شوق رکھتا ہے وہ اس ڈگری کے حصول کے خواب دیکھتا ہے اور اس کے حصول کو اپنی منزل بناتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی ڈگری تک پہنچنے تک کئی منازل طے کرنا پڑتی ہیں، جس میں ابتدائی تعلیم، ہائی سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم شامل ہے۔

گو کہ یونیورسٹی ڈگری بھی اعلی تعلیم میں ہی شمار ہوتی ہے لیکن پی ایچ ڈی کے سامنے ہیچ ہے۔ اگرہم یہ کہیں حصول علم کا شوق رکھنے والوں کے لئے پی ایچ ڈی ایک منزل ہے اور اس سے پہلے کی تعلیم اس منزل تک پہنچنے کے زینے تو غلط نہی ہوگا۔ مطلب یہ کہ اس اعلی ترین ڈگری تک پہنچنے کے لئے طالبعلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود کو اس کا اہل ثابت کرے اور اہلیت کا ثبوت پی ایچ ڈی سے پہلے گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریاں لے کر دینا پڑے گا۔

لیکن کیا کسی نے دیکھا ہے کہ ایک سکول یا کالج کا طالبعلم پی ایچ ڈی کی کتب کا مطالعہ کر رہا ہے یا پی ایچ ڈی کے لئے تھیسس لکھ رہا ہو؟ ہر گز نہی۔ آپ کہیں گے کہ پی ایچ ڈی کی تعلیم کا درجہ طالبعلم کی ذہنی استعداد سے بہت بلند ہے اور یہ کہ ابھی وہ اپنی ذہنی استعداد سے بلند تعلیم سمجھنے کی اہلیت نہی رکھتا۔ اسے اس درجہ پر پہنچنے تک ابھی اور کئی مدارج طے کرنے ہیں جو اس کی ذہنی اور فکری استعداد کو اس سطح پر لے جائیں گے جہاں پی ایچ ڈی کے درجہ کا علم اسے سمجھ میں آ سکے۔

ظاہر ہے کہ یہ ایک معقول توجیہ ہے اور ہم ایک بچے کو درجہ بدرجہ اعلی تعلیم کے لئے تیار کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر دنیاوی تعلیم میں یہ درجہ بندی ضروری ہے اور بنیادی تعلیم کے بغیر اگلے درجے تک نہی پہنچا جا سکتا تو کیا وجہ ہے کہ مذہبی تعلیم اس طرح کی درجہ بندی کے بغیر ہے؟ ہم دعوی کرتے ہیں اور ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور اس ناتے دنیا کی اعلی ترین کتاب ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ دنیا کی اس اعلی ترین کتاب کا علم ہم بچوں کو اس عمر میں دینا شروع کر دیتے ہیں جس عمر میں وہ اپنے نام کے ہجے بھی درست طریقے سے ادا نہی کر سکتے؟

ہونا تو یہ چاہیے کہ پی ایچ ڈی کی طرح قرآنی تعلیم بھی ایک اعلی ترین درجہ ہوتا تاکہ طالبعلموں کا زوق اور شوق برقرار رہتا۔ اور اس اعلی ترین درجہ کے علم کے حصول کی لگن اور جستجو برقرار رہتی لیکن ہم نے اس انمول علم کو ناپختہ اور ناسمجھ ذہنوں میں زبردستی ڈال کر بہت سستا کردیا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ جو شے اسے آسانی سے میسر آجائے اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے تو کہیں کم عمری میں ہی حفظ یا ناظرہ کروا کر ہم نادانستگی میں قرآن کی اہمیت کو کم تو نہی کر رہے؟

آج اپنے گرد ان سینکڑوں حفاظ اور قارئین قرآن کو دیکھئے اور ایمان سے بتائیے کہ قرآن جیسی اعلی اور ارفع تعلیم نے ان پر کیا اثر ڈالا! کیا ان کی اخلاقیات بہتر ہوئیں؟ کیا وہ معاشرے میں دوسروں سے زیادہ ممتاز اور محترم ہیں؟ کیا وہ کسی ڈاکٹر، معلم، انجنئیر یا سائینسدان کی طرح معاشرے کی بہتری میں کوئی کردار ادا کر رہے ہیں؟ اور کتنے ایسے ہیں جو قرآنی تعلیم کو معاشرے کی بہتری کے لئے استعمال کر رہے ہیں؟ نتائج آپ کے لئے حوصلہ شکن ہوں گے۔

اگر ایک پرائمری کا بچہ میٹرک کا نصاب سمجھنے سے قاصر ہے تو کیسے وہ ایک الہامی کتاب کو سمجھ سکتا ہے جس کی سینکڑوں تفاسیر لکھی جا چکی ہوں؟ ایک ایسی کتاب جو ازخود کئی پی ایچ ڈی کی ریسرچ کا موضوع ہو کسی ایسے بچے کی سمجھ میں کیسے آ سکتی ہے جسے دو جمع دو چار سمجھنے میں بھی مشکل ہو رہی ہو؟

مجھے نہی معلوم کہ بچپن میں قرآن کی تعلیم کی روایت کب اور کیسے پڑی لیکن میں اپنے معاشرے کو دیکھ کر یہ کہ سکتا ہوں کہ اس روایت نے معاشرے میں کوئی تعمیری کردار ادا نہی کیا۔ بلکہ آسانی سے دسترس میں آ جانے کی وجہ سے اس بے مثال علم کی بے توقیری ہوئی ہے۔ آپ خود دیکھئے کہ آپ اس مولوی کو کیا معاوضہ دے رہے ہیں جو آپ کے بچے کو قرآن پڑھاتا ہے۔ اب اس کا موازنہ ذرا ٹیوشن پڑھانے والے استاد سے بھی کر لیں۔ آج میٹرک یا او لیول کے ایک مضمون کی ٹیوشن فیس دس ہزار سے کم نہی اور ہم مولوی کو قرآن پڑھانے کا کیا دیتے ہیں؟ یہ ایک سادہ سا پیمانہ ہے یہ جاننے کا کہ ہماری کاوشوں اور جدوجہد کی ترجیحات کیا ہیں۔ یہ موازنہ یہ بھی طے کرتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں وہ تعلیم جس پر ہم چند سو خرچ کر رہے ہیں یا وہ تعلیم جس پر ہم اپنی کل جمع پونجی خرچ کرنے کو تیار ہیں۔

یہیں پر قرآن کی تعلیم دینے والے اساتذہ اور مدرسوں کی اہلیت اور مقام کا سوال بھی اٹھتا ہے۔ گھروں پر آ کر چند سو روپوں کے عوض قرآن پڑھانے والے مولوی صاحب کا معاشرے میں کیا درجہ اور رتبہ ہے؟ اگر میٹرک یا او لیول کی ٹیوشن پڑھانے والا ایک بچے سے ایک مضمون کے دس ہزار لیتا ہے تو الہی کتاب کی تعلیم اتنی سستی کیوں؟ اگر آپ مدرسوں کو دیکھیں تو تقریباً تمام مدارس مفت تعلیم دیتے ہیں اور اپنے اخراجات عوام کے زکواۃ، صدقے اور عطیات کے پیسوں سے پورا کرتے ہیں۔ آخر مفت میں ملنے والی کسی شے کی قدر کتنی ہو سکتی ہے اب بھلے وہ کسی آسمانی کتاب کی تعلیم ہی کیوں نہ ہو۔

یہ سیدھا سیدھا طلب اور رسد کا معاملہ ہے۔ طلب میں اضافہ اور رسد میں کمی اشیا کو مہنگا کرتی ہے اور اس کا الٹ اشیا کو سستا کرتی ہے۔ ہم نے قرآنی تعلیم میں رسد کی فراوانی کر کے طلب کو تقریباً ختم کر دیا ہے یہی وجہ ہے کہ آج مدرسوں کو مفت تعلیم دینے کے باوجود صرف وہ طلبا میسر ہیں جن کی کفالت ان کے والدین کرنے سے قاصر ہیں۔ کوئی ایک مثال ایسی بتائیں کہ کسی نے مذہبی تعلیم ہر اتنا ہی خرچ کیا ہو جتنا ڈاکٹر بننے پر یا انجنئیر بننے پر۔

آج ہر شخص اور ہر عالم یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ معاشرتی انتشار کی وجہ ہماری قرآن نافہمی ہے تو میرے خیال میں یہ مرض کی غلط تشخیص ہے۔ آج پاکستان میں کسی کو روایتی تعلیم کی سہولت میسر ہو یا نا ہو لیکن قرآن تقریباً ہر بچے کو پڑھایا جاتا ہے اس کے باوجود یہ شکوہ؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قرآن کو قرآن کے مطابق نہی پڑھا رہے۔ ہم پرائمری کے بچے کو پی ایچ ڈی کا نصاب پڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ بچے کو اس درجہ آنے تک تیار کریں۔ قرآنی تعلیم کی اہمیت اور حرمت کو برقرار رکھیں۔ اس کو منزل بنائیں زینہ نہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments