کھئی کے پان بنارس والا


کل ایک ویڈیو دیکھی جس میں پان چباتے ہوئے ایک شخص دوسری اشیاء کی طرح پان میں ڈالی جانے والی چھالیہ کی مہنگائی کا رونا رو رہا تھا۔ کہ پچھلے سال جو چھالیہ ساڑھے تین سوروپے کلو تھی اب چار ہزار روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ چھالیہ اتنی مہنگی ہوگئی ہے کہ پان پچاس یا اس سے زیادہ کا بھی فروخت کریں تب بھی نقصان ہی ہورہا ہے۔ پان خوری اچھی ہے یا بری۔ پان کی فروخت ہونی چاہیے یا پان بیچنے پر پابندی لگنی چاہیے۔ یہ قضیہ پھر کبھی سہی۔ ہم تو پان کو ادب، شعراء اور فنون ِ لطیفہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

پان کی تاریخ برصغیر میں مغلیہ دور اقتدار سے ملتی ہے۔ پان کو ملکہ نورجہاں جو شہنشاہ جہانگیر کی بیوی تھی پان کو بطور علاج استعمال کیا کرتی تھیں۔ کیونکہ ملکہ سیاسی علم و فراست و ذہانت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ لیکن بادشاہ سلامت، اپنی بیگم کے منہ کی بدبو سے بڑا متنفر تھا۔ اس بیماری کے تدراک کے لئے برصغیر کے نامور حکماء نے اپنی تدبرانہ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک نسخہ پیش کیا۔ پان کے پودے کا پتہ بھی اس نسخہ میں شامل تھا جو پان کی شہرت کی وجہ بنا۔

مغلیہ سلطنت کا ہر بادشاہ پان کے لطف کا قائل تھا اور بادشاہ کے پان کا بیڑہ اٹھاتے ہی ہر ضیافت اپنے اختتام کو پہنچتی تھی۔ حکماء کی نظر سے اگر پان کے طبی فوائد پر نظر ڈالیں تو عقل دنگ رہ جائے گی۔ یہ نہ صرف ہاضم ہے بلکہ پیٹ کی بیماریوں کو رفع کرتا ہے اور بدن پر لگے زخموں کا مرہم بھی ہے۔ بہرحال اس کے بعد پان ہماری تہذیب سے اس قدر جڑا ہے کہ ہر خاص و عام اس کا دلدادہ ہوگیا۔ دل کی شکل کا پان کا پتّا دل کے بڑے قریب ہوتا گیا۔ اس میں ایسی کشش ہوتی کہ لوگ ان جگہوں پر کھنچے چلے جاتے جہاں پان ملتا۔ ویسے تو پان کی ہر جگہ ہی پزیرائی ہوئی لیکن لکھنؤ اور حیدرآباد دکن کی تہذیب و ثقافت میں پان کو جو عظمت اور دوام حاصل ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔

امراء اور رئیسوں کی بیگمات کے وقار اور مرتبہ کا اندازہ صرف ان کے پاندان سے لگایا جاتا تھا۔ امراء کے گھروں میں مہین جالی کے دو منزلہ پاندان، بالائی منزل میں مہین تراشی ہوئی چھالیہ کی پرتیں، کچھ مشک، کچھ زعفران اور کچھ عنبر میں بسائی ہوئی سونے اور چاندی کے ورق میں لپٹی ہوئی الائچی، لونگ، جوز، جوتری، زغفران، سونف، تراشا ہوا کھوپرا، حسب ذوق زردہ و قوام، بریلی کا کتھا اور چونا خالص عرق گلاب میں بجھایا ہوا۔

پان بنانے کے انداز میں بھی ایک خاص سلیقہ ہوا کرتا تھا۔ حسب مراتب چاندی یا سونے کا ورق لپیٹ کر چاندی کی طشتری میں سرخ مخمل اور اسپر گلوری رکھ کر پیش کی جاتی تھی۔ قبول کرنے والال سروقد اٹھ کر تعظیم بجا لاتا اور پان قبول کرکے سلام کے عوض ڈھیروں دعاؤں کی سوغات بھی پاتا تھا۔ گھروں میں پاندان اور اس کے لوازمات ہوتے تھے اور ان کا بڑا اہتمام کیا جاتا تھا۔ پرانی تہذیبوں کے خاتمے کے ساتھ ہی اب پاندان بھی شاذ شاذ ہی کسی کے گھر میں نظر آتا ہو۔

ویسے سنسکرت میں اصل تلفظ ’پرن‘ بمعنی ’پتا‘ کے ہیں۔ اردو میں تھوڑے سے تغیر کے ساتھ اصل صورت میں 1609 ء میں ”قطب مشتری میں“ مستعمل ملتا ہے۔ ا ردو ادب میں پان کو مختلف انداز سے ادباء و شعراء نے پیش کیا ہے۔ کلاسیکی شعراء اور متاخرین سخنوروں نے اسے سینکڑؤں طرح سے باندھا ہے۔ بہادر شاہ ظفر، نظیر اکبر آبادی، میر تقی میر، اکبر الہ آبادی، مصحفی، مومن خاں مومن، اور دوسرے سینکڑوں شعراء نے پان اور اس کے استعاروں کو استعمال کیا۔

جس سے پان کی اہمیت، افادیت اور خاصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ پان کے حوالے سے متعدد محاورے ہمارے معاشرے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ پان کا بیڑا سے متعلق ایک محاورہ اکثر و بیشتر استعمال کیا جاتا ہے یعنی بیڑا اٹھانا، سات پان کا بیڑا، پان اور ایمان پھیرے ہی سے اچھا رہتا ہے۔ پرانا پان، نیا گھی اور پاک دامن عورت تب ملتی ہے جب خدا خوش ہو۔ ویسے یہ تینوں چیزیں قسمت والوں کو ہی ملتی ہیں۔ مثل مشہور ہے ”پان سے پتلا، چاند سے چکلا“ یعنی نہایت نازک اور خوبصورت پان کھلانا۔

ادبی کتابوں میں تفصیلی درج ہے کہ قدیم مشاعروں میں شعراء کرام کو جس نیاز مندی سے پان پیش کیا جاتا تھا اور جس نوابانہ انداز سے شعراء پان قبول کر کے آداب بجا لاتے۔ پڑھ کے آنکھوں کے سامنے دلکش مناظر گھوم جاتے ہیں۔ خود کو کچھ دیر کے لئے میں بھی پان منہ میں ڈالے ہوئے مشاعرے میں شامل سمجھتاہوں۔ آج بھی کچھ بچے کھچے شعراء کرام بھی پان کھاتے ہیں لیکن منتظموں کے ہاتھ کے نہیں بلکہ پان کے کھوکھوں سے اور وہ بھی زیادہ تر اُدھار۔

یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملکہ ترنم نورجہان نے ایک پان کی دکان سے پان لیتے ہوئے مہدی حسن کو ریڈیو پہ پہلی بار سنا تھا۔ مہدی حسن صاحب خود بھی پان کے شوقین تھے۔ جس رات چاکلیٹی ہیرو وحید مراد کا انتقال ہوا اس وقت بھی ان کے منہ میں پان ہی تھا۔ غلام فرید صابری اور عزیز میاں جیسے بلند پایہ قوال تو منہ میں پان ڈالے بغیر قوالی ہی نہیں گاتے تھے۔ لیکن شعراء، ادباء اور گلوکاروں سے زیادہ امیتابھ پہ پکچرائز کیا گیا گانا ”کھئی کے پان بنارس والا“ کی شہرت نے تو ا ن لوگوں میں بھی پان کھانے کا شوق جگا دیا جن لوگوں نے کبھی اس کا ذائقہ بھی نہیں چکھا تھا۔ تو پھر چلئے بہار رُت کا مزہ لینے توپاں والا بازار میں ”دل بہار پان“ سے پان کھاتے ہیں تمباکو والا نہیں قلقند والا میٹھا پان۔

بہرحال پان کی وجہ سے ہی سہی کچھ تہذیبی آثار تو موجود ہیں۔ مشاعروں میں تو بالکل نہیں لیکن ڈیرہ کے ایک خاص علاقے میں قلندر مزاج توکل و قناعت سے بھرپور دنیا و ما فیہا سے بے خبرحضرات کو پان چباتے ہوئے سیاست و مذہب ومعاشرے پہ بات کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ڈیرہ میں پان کی درجنوں دکانوں والا شہر اب اپنے دامن میں میرا خیال ہے صرف چند دکانیں ہی رکھتا ہے۔ لیکن اب بھی بچے کچھے پان کے شوقین لوگ پان کھا کر بے حسی سے خاص انداز سے ادھر اُدھر پچکاری مارتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ذرا احتیاط سے تھوک لیں تو دوسروں کے نہیں تو کم ا ز کم اپنے دامن کو تو سرخرُو ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ میں نے ماضی میں ایک دفعہ نامور شاعر جناب سلطان مجاہد اور مختار ثاقی مرحوم سے ایک خاص انداز سے پان کی پیک تھوکنے کی وجہ پُوچھی تو جواب ملا کہ ”یہی طریقہ بزرگوں سے چلا آ رہا ہے“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments