سیاسی نظام کے پاؤں میں وراثتی کانٹا!


پا کستانی سیاسی وراثتیں اس حوالے سے منفرد روایات کی حامل ہیں کہ یہاں پر جو خاندان سیاست میں نمایاں ہوئے ان کو عوامی تائید بھی حاصل رہی ہے، چونکہ برصغیر کے سماجوں میں جاگیردارانہ روش ابھی تک موجود ہے، اس لئے یہاں پر ہمیشہ سے منشور، پروگرام اور نظریاتی مقاصد سے زیادہ شخصیات، خاندان اور سیا سی وراثتوں کا سحر زیادہ مضبوط رہا، یہی وجہ ہے کہ یہاں پر ادارے مستحکم نہیں ہوسکے، جبکہ سیا ست اور اقتدار کی دیوی چند خاندانوں پر ہی مہربان رہی ہے اور یہ سیاسی خاندان عرصہ دراز سے عوام کے نام نہاد ہمدرد نمائندے بن کر اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔

سیاست اُتار چڑھاؤ کا کھیل ہے، پاکستانی سیاست دانوں کو کئی بار مختلف طریقوں سے زبردستی یا ان کی مرضی سے بیرون ملک قیام کرنا پڑا ہے۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو اور شریف خاندان کو جلا وطنی بھی کاٹنی پڑی، لیکن اس بار اسیری کے دوران نواز شریف علاج کے لیے عدالت سے درخواست کرکے لندن گئے، جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف بھی ان کی دیکھ بھال کے لیے وہیں موجود ہیں۔ دوسری جانب مریم نواز جو اپنے والد کا بیانیہ لے کر عوام میں آئیں، میاں بردران کے بیرون ملک جانے کے بعد عرصہ دراز سے مکمل خاموش ہیں۔ میاں شہباز شریف کی واپسی سے متعلق کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جارہی ہے، بلکہ ہر مسلم لیگی رہنما یہی کہتا ہے کہ وہ بہت جلد واپس آجائیں گے اور مریم نواز بھی جلد عوام کے درمیان ہوں گی، لیکن مستقبل قریب میں ایسے آثاردور تک دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

یہ امر واضح ہے کہ مسلم لیگ ( ن ) قیادت کی عدم موجودگی میں باہمی انتشار کا شکار ہے، پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سیاسی کارکنوں اور قیادت کی سوچ میں واضح اختلاف سامنے آیا ہے۔ مسلم لیگی اراکین پارلیمنٹ کی اکثریت اپنی جماعت کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کر ر ہے ہیں۔ مسلم لیگ ( ن) کے کچھ اراکین نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ پارٹی میں صرف نواز شریف کا بیانیہ ہی چل سکتا ہے اور مسلم لیگ (ن ) نے حکومت کی ناقص کارکردگی کا فائدہ اٹھانے کی بجائے نواز شریف کا بیانیہ پس پشت ڈال کر نقصان اٹھایا ہے۔

اگرچہ میاں بردران کے وفادار سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی پالیسی کو پارٹی پارلیمانی اجلاس میں پذیرائی مل رہی ہے، کیونکہ شاہد خاقان عباسی اپنے بیانات میں نیب اور حکومت پر جانبدارانہ احتساب کا الزام لگاتے رہتے ہیں، لیکن قیادت کا خلاء پرُکرنا ممکن نہیں ہے، مسلم لیگ ( ن) اور دیگر خاندانی وراثت پر چلنے والی جماعتیں قیادت سے وفاداری کوہی سخت معیار سمجھتی ہیں، اس لیے عوامی رائے کی بجائے خاندانی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

افسوس صرف اس بات پر نہیں کہ وراثتی جماعتیں لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں، بڑی خرا بی یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اور نظریاتی تربیت کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے۔ ایک جماعت اسلامی ہے، جہاں کسی عہدے کا کوئی امیدوار لابنگ نہیں کر سکتا، باقی ہر سیاسی جماعت میں نامزدگیاں ہوتی ہیں، لیکن حیرت کی بات ہے کہ الیکشن کمیشن جعلی نظام کی خرابیوں سے آگاہی کے باوجود خاموش رہتا ہے۔

ملک کی سیاسی جماعتیں بھی جمہوریت کے فروغ اور استحکام کی باتیں تو بہت کرتی ہیں، مگرجمہوری نظام کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کرنے سے گریزاں ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے پارلیمانی اجلاس میں بظاہر اختلاف رائے کا اظہار ضرور کیا جاتا ہے، مگرفیصلے قیادت کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ ( ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں اراکین نے اپنی جماعت کے صدر شہباز شریف کی پالیسیوں پر تنقید کر کے گویا ان پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

میاں شہباز شریف کو مسلم لیگ (ن ) کے قائد میاں نواز شریف نے پارٹی کی صدارت سونپی تھی، اگر اس سلسلے میں جمہوری طریقہ کار اختیار کیا جاتاتو شاید میاں شہباز شریف پارٹی صدر منتخب نہ ہو تے، ووٹ دینے کی حد تک پاکستان کے تمام شہریوں کے سیاسی حقوق ایک سے ہیں، لیکن اعلیٰ حکومتی عہدوں پر تعیناتی کا حق صرف بالادست طبقات کو حاصل ہے۔ حکومت پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ (ن ) کی ہو یا پھر تحریک انصاف کی، کم آمدنی والے طبقات کا کوئی نمائندہ پارلیمینٹ کا رکن بنتا ہے، نہ اسے مشیر اور وزیر بنایا جاتا ہے۔ سیاسی کارکن کے طور پر جو لوگ مشکل حالات کا مقابلہ کرتے ہیں ’اپنی قیادت کے جرائم کو سیاسی انتقام قرار دے کر ان کا تحفظ کرتے ہیں‘ کئی بار جان تک قربان کر دیتے ہیں۔ ، وہ سب درحقیقت محکوم، بے سہارا

اور مجبور طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں چونکہ مخصوص خاندانوں کی ملکیت ہوتی ہیں، اس لئے ان کے قائدین کو یہ بات پریشان نہیں کرتی کہ ان کے عہدیدار اور کارکنوں کی کیا رائے ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے وہ اراکین جو اپنے پارٹی صدر سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہیں جماعتی فیصلوں کے وقت اعتماد میں نہیں لیا جاتا، غلط فہمی کا شکار ہیں، کیو نکہ پہلے بھی ان کی رائے کو فوقیت نہیں دی جاتی تھی۔ مسلم لیگ کا توریکارڈ ہے کہ جب یہ اقتدار سے محروم ہو تی ہے تو اس جماعت کے بہت سے دھڑے بن جاتے ہیں، اقتدار کے دن آتے ہیں تو کئی مسلم لیگیں انگڑائی لے کر اٹھ بیٹھتی ہیں اور ان سب کو ملا کر ایک حکمران جماعت بنا دی جاتی ہے۔

اس وقت بھی مسلم لیگ (ن) قیا د ت کے بغیر ایک بار پھر بکھررہی ہے، چند روز قبل ہی پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی کے کچھ اراکین نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار سے ملاقات کی ہے، دونوں جماعتیں اس ملاقات کو اپنے اراکین کی وفاداری تبدیل کرنے کے معاملے کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ اپنے اراکین کی وزیر اعظم سے ملاقات پر اس لئے بھی پریشان دکھائی دیتی ہیں کہ کچھ عرصہ قبل دونوں جماعتیں پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف کی سادہ اکثریتی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔

اس سلسلے میں مسلم لیگ ( ن) کے صدر شہباز شریف نے اپنے بعض ساتھیوں اور فرزند حمزہ شہباز کو کچھ ذمہ داریاں بھی تفویض کی تھیں۔ تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی کا ایک فارورڈ بلاک بننے کی اطلاعات نے وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار اور ان کے ساتھیوں کو کسی حد تک مضطرب کیا تھا، لیکن جلد ہی یہ معاملہ تسلی بخش انداز میں طے کر لیا گیا۔ حکومت کی اتحادی مسلم لیگ (ق) نے بھی تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو عدم استحکام کا شکار بنانے کی کوششوں کا راستہ روکنے میں معاونت کی ہے، اس کے باوجود حکومت گراؤ، بناؤ کی سیاست جاری ہے۔

اس حکومت گراؤ اور بناؤ کے سیاسی کھیل نے عوام کے مینڈیٹ کو بے اعتبار کیا ہے، ماضی کے تجربات سے سیاسی قیادت نے کچھ نہیں سیکھا، سیاستدان اچھی روایات قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ عوام کی توقعات کبھی پورا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ہیں۔ سیاسی نظام کے پاؤں میں خاندانی وراثت کا کانٹا عرصے سے پیوست ہے، جب تک اس کانٹے کو مکمل طور پر نکالا نہیں جائے گا، سیاسی کارکن اور قائدین کی سوچ میں ہم آہنگی پیدا ہو سکے گی نہ قومی ترجیحات کا درست تعین ممکن ہو گا۔

پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے حامیوں اور کارکنوں کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ پارٹی میں ان کی حیثیت کیا ہے اور کیا یہ جماعتیں جدید عہد کے جمہوری نظام کی نمائندگی کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ اگرمقتدر قوتوں نے MovingChairکا کھیل جاری رکھا اور عوام نے آزمائے ہو ں کو آزمانے کی رویت کو ترک نہ کیاتوتبدیلی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا اورغلامانہ ذہنیت کے باعث خاندانی وراثت حکمرانی کے مزے لوٹتی رہے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments