تابوت کی آخری کیل


آج کی عورت اسلام پر یہ الزام لگاتی ہے ”اسلام مردوں کا ہے عورت کے لئے اس میں کچھ نہیں“ ان کو شاید خدیجةالکبرٰہؓ کا مقام، مادرِ رسول آمنہؓ کا مقام حلیمہؓ کا مقام، بنتِ رسول خاتونِ جنت فاطمہؓ کا مقام، زوجہِ فرعون مگر مادرِ موسیٰ بی بی عاصیہؓ کا مقام، مادرِ عیسٰی بی بی مریمؓ کا مقام معلوم نہیں۔ شاید ان کو خبر نہیں کہ وہ زوجہِ رسولً عائشہ صدیقہ ؓ تھیں جن کی عظمت و عصمت کے لئے اللّٰہ نے سورة النور کی پر نور آیتیں اتاریں اور رہتی دنیا تک بہتان تراشوں کے لیٙے سخت عذاب کا وعدہ کیا ہے۔

اسلام نے عائشہؓ کی ”اگنی پرِکشہ“ نہیں لی، لیکن سیتا سے ایسا امتحان لیا گیا کہ اس کی پاکدامنی ایسے ثابت کی گئی اور امتحان لینے والا بھی اس کا اپنا شوہر رام ہی تھا؟ اسلام کی سب سے مقدس جگہ حرم شریف میں کیا داخل ہونے سے عورت کو کبھی روکا گیا؟ نہیں، لیکن یہود کے چند اہم مقدس مقامات میں غیر یہود کی طرح عورت بھی بطورِ ناپاک شے ممنوعہ ہے، قرآن میں عورت کے نام پر سورة اتاری گئی ہے لیکن رومن کتھولک فرقہ عورتوں کو مقدس کلمات کو چھونے اور مقدس مقامات پر جانے کی بھی اجازت نہیں دیتا؟

یہ کسی مذہب پر تنقید نہیں ہے بتانے کا مقصد فقط یہ ہے کہ جو اسلام عورت کو عزت دیتا ہے اسی اسلام کی بیٹی اس کی دشمن بن بیٹھی ہے لیکن دوسری طرف واقعی جو اسلام کی دنیا سے باہر عورت کو ذلت کا مقام حاصل ہے اس پر کوئی بات ہی نہیں کرنا چاہتا یا یوں کہوں کوئی بات کر سکتا ہی نہیں؟ نبیً پر سب سے پہلے ایمان لانے والی اور عرب میں فتوحات لانے کے لیے ہمارے نبیً کے شانہ بشانہ رہنے والی خدیجةالکبرٰی کو دینِ اسلام نے جو مقام دیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن اسلام کی دنیا سے باہر فتوحات لانے والی عورتوں کا دنیا نے کیا انجام کیا؟

امثال کی طویل فہرست میں ایک نام جون آف ارک کا بھی ہے۔ ایک کسان کے گھر میں پیدا ہونے والی بہادر لڑکی جسے فرانس کے تخت نشینوں نے زندہ جلایا، جون آف ارک جس نے فرانس میں فتوحات قائم کیں اور فرانسیسی قوم میں آزادی کی ایسی طغیانی برپا کی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی انگلینڈ فرانس پر قابو نا پا سکا اور بلاٙخر اس کو فرانس سے نکلنا پڑا، جون آف ارک نے سولہ سال کی عمر میں نا قابلِ فراموش فتوحات قائم کیں، اب یہ محض اتفاق تھا یا واقعی جون غیر معمولی صلاحیت کی مالک تھی باہر حال جون نے روپوش تخت نشیں کو تخت تک پہنچا دیا لیکن جون کو بہادری، مقبولیت اور ان فتوحات کا انعام اس کی موت کے طور پر ملا، جون کی مقبولیت سے خائف خود تخت نشین، وزراء اور مذہبی پیشواوُں نے مل کر جون کو مذہب کے نام پر قتل کیا، جون کو جادوگرنی، شیطانی اوصاف کی مالک اور قلیسہ سے بغاوت کے جرم میں اہلِ فرانس کے ہجوم کے سامنے زندہ جلایا گیا، فرانس میں فتوحات لانے والی بہادر لڑکی کا یہ انجام ہوا، کئی سال بعد جون کے مقدمے میں جون بے قصور ثابت ہوئی اور انیس عیسویں کے بعد اسے سینٹ کا خطاب دیا گیا اور جون آف ارک کا نام تاریخ کے سنہرے اوراق میں لکھا گیا، لیکن کیا یہ سب جون آف ارک سے ہوئی زیادتی کا مداوہ کر سکتا ہے؟

کیا فرانس کے ماضی سے چمٹی یہ سیاہی دھل سکتی ہے؟ یقینا نہیں، مگر ہاں فرانس کی یہ تاریخ بھی اس کے لیے کسی نے تلوار نہیں بنائی کیونکہ فرانس جون آف ارک کو ”سینٹ“ کا خطاب دے کر بری الزمہ ہو چکا ہے اور فرانس کو اس لیے بھی رعایت مل گئی کہ ناہی فرانس اسلامی ملک تھا، نا جون مسلمان تھی نا اس کو جلانے والے۔ مسُلہ تو تب ہوتا جب یہ تاریخ مسلمانوں کی ہوتی اور غیرِ مسلم سمیت دیسی لبرلز بھی اس کو ہمارے گلے کا پھندا بنا کر ہمیں گھسیٹتے پھرتے۔

یونانی کہتے ہیں کے عورت سانپ سے زیادہ خطرناک ہے۔ سقراط کہہ گیا عورت فتنہ و فساد کی سب سے بڑی وجہ ہے لیکن اسلام نے عورت کو الگ مقام دیا، اب عالم یہ ہے کہ بنتِ حوا کی بگڑی ہوئی شکل کہتی ہے ”حجاب از اے پیس آف شٹ“۔

حجاب نہ کرنا الگ بات ہے اور حجاب کی تذلیل الگ بات ہے۔ یہ کیسی آزادیِ نسواں ہے؟

مسئلہ یہ ہے کہ اسلام سے دور ہر شخص ہمارے معاشرے میں ہر جبر اور زیادتی کا مرکز اسلام کو ٹھہراتا ہے اس کی واحد وجہ اسلامی تعلیمات کا فقدان ہے، ضروری نہیں کے آپ مولوی یا عالم بنیں، متقی پرہیزگاربننا اتنا آسان نہیں ہے لیکن اتنا تو علم رکھیں کہ آپ کا دین کہتا کیا ہے؟ ۔

بلا امتیاز بات کی جائے تو ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ عورت و مرد دونوں اپنی کوتاہیوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں، مرد نے عورت کو دبا کر رکھا، پیر کی جوتی کہا تو عورت کے نئے نئے روپ سامنے آ گئے اور عورت مرد سے انتقام کے چکر میں اسلام کے ہی درپے ہو گئی۔ کیا اسلام نے عورت کو پیر کی جوتی کہا یاعورت کو دبا کر رکھنے کا حکم دیا؟ نہیں اسلام نے تو ماں کے پیروں میں جنت لا کر رکھ دی، اسلام نے تو عورت سے نرمی کا حکم دیا۔

بھلا دینِ اسلام نے بنتِ حوا پر کون سی مہربانی ہے جو نہیں کی؟ ہمارے پیارے نبیً کی زندگی میں عورت پر کون سا ظلم دیکھا یا مہربانی نہیں دیکھی؟ پھر بھی ہر جبر زیادتی کو اسلام پر تھوپ کر ماروی میمن جیسی خواتین ٹویٹ کرتی ہیں کہ ”سو مچ فار اسلام“۔

لیکن کیا کہیے کہ یہ دراصل کھیل ہی اینٹی اسلام کا ہے۔

کیا یوحنّہ نے ٹھیک کہا تھا کہ عورت شر کی بیٹی ہے اور اسلامی تعلیمات کی دشمن ہے ”آج عورت ثابت کر رہی کے اسے واقعی اسلام سے بیر ہے۔

عورت مارچ کی عورتوں نے جان بوجھ کر ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے کی آڑ میں ”بچی کو بچی رہنے دو دلہن نہ بناوُ“، ”اسلام حقوق دیتا یے اور آپ؟ “، ”جہیز خوری بند کرو، وراثت میں حق دو“، ”جس پر مل کر چلیں وہ سڑک چائیے“، ”عورت کے لئے تعلیم آسان کرو“ جیسے کئی نعرے دبا دیے اور کسی کی توجہ اس طرف جانے ہی نہیں دی، دراصل ان عورتوں نے عورت مارچ کا حق بھی عام عورت سے چھین لیا، 99 فیصد اپنے حقوق کا حصول رکھنے والی یہ عورتیں اب مذید مستی کے بندر نچا رہی ہیں اور ان کے اس شغل میں حقیقی مظلوم اور حقوق سے محروم عورت کی آواز دب گئی ہے، یہ کیا عورتوں کو حقوق دلائیں گی جو خود اپنی سرمستی کے لئے عام عورت کے حقوق پیچھے دھکیل چکی ہیں؟

ماروی سرمد کی وجہ سے خلیل الرحمٰن جیسا بے لگام شخص آج ٹی وی پر بیٹھ کر اپنی ہر دوسری وڈیو میں عورت کو نام سے نہیں گالی سے پکار رہا ہے، یہ سب اسی عورت کی مرہون منت ہے۔

قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہ دونوں افراد ہمارے دین کی بدنامی کر رہے ہیں، ایک مخالفت میں اور ایک آڑھ لے کر، ان دونوں کو ہی نکیل ڈالنے کی ضرورت ہے۔

اب عورت مارچ تو ہو چکاکچھ وقت میں اس کا تزکرہ بھی ختم ہو جائے گا لیکن دیسی لبرلز کے کچھ سوال باقی ہیں۔ بحیثیت مسلم قوم ہم پر لاگو ہے اطمینان بخش جواب دینا تاکہ فیمنزم کے نام پر چند بھٹکتی ہوئی آتماوُں کو قدرے تسلی ہو سکے یا کم از کم ان کو لمحہِ فکریہ ہی مل جائے۔ دیسی لبرلز کہتے ہیں کہ بچیوں کا ریپ ہماری ثقافت ہو سکتا ہے مگر میرا جسم میری مرضی نہیں ہو سکتی؟ تو عرض یہ ہے کہ یہ دونوں ہماری ثقافت نہیں آپ کی مرہون منت ہے، آپ دراصل ان بچیوں کے مجرم ہیں کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔

یہی لبرلز ہیں جو زینب بل کے خلاف ہیں انہی کو ریپسٹ کی ہمدردی کے درد اٹھتے ہیں۔ بقولِ شخص سرِعام پھانسی اس کا حل نہیں تو پھر کیا ہے؟ ان کے حل بھی ملاحظہ کریں، سرِعام فحاشی، برہنہ لباس، نکاح کی شرط ختم، ہم جنس پرستی کی کھلی چھوٹ۔ اب ان کو کوئی یہ بتائے کہ ہم بھی ذی شعور ہیں ہم سمجھتے خوب ہیں بس آپ بھی صاف صاف کہیے کہ اپنے جیسی اینٹی اسلامک ریاست چائیے۔

یہ جو عورت کے حقوق کے نام پر اینٹی اسلام عورتیں سرگرم ہیں تعجب کی بات ہے ایسڈ وکٹمز اور بچیوں کے ریپ کیسز کے وقت نا معلوم کہاں خواب و خرگوش کے مزے لے رہی ہوتی ہیں یا پھرعورت کے حقوق سے ان کا سروکار نہیں ہے، بلکہ ان کو تو اپنی پارٹی چالو رکھنے کا سرٹیفکیٹ چایئے۔ معصومانہ سوال ہے کہ حقوق کے حوالے سے کتنی عورتوں کو اب تک ایجوکیٹ کیا گیا ہے؟ جائلڈ میرج، چائلڈ ابیوز، خواتین کی وراثت کے قوانین اور خواتین کی تعلیم کے لئے کتنا واک کیا؟ یا عورت کو صرف ایک ہی حقوق دلوانا چاہتی ہیں ”میرا جسم میری مرضی“

میرے ملک کی کچھ خواتین اتنی ”معصوم“ بھی ہیں کہ گلہ کرتی ہیں کہ عقلِ کل سے فارغ اذہان نے سادہ سی بات کو غلط رنگ دے کر بتنگڑ بنا دیا۔

بات ہو رہی ہے ہم جنس پرستی کی، نکاح کو ختم کرنے کی، کھلے عام ڈیٹنگ کی اور فحش لباس کی پھر ساتھ درج ہے میرا جسم میری مرضی؟ یہ تو وہی بات ہوئی کہ مارو بھی اور رونے بھی نا دو۔

دوسرا اعتراض میرا جسم میری نہیں تو کیا تیری مرضی۔ نا بہن، تیری نا میری مرضی، معاشرے میں رہنے کے کچھ اصول و ضوابط ہوتے ہیں اور انہی کی مرضی میرا مطلب انہی کے مطابق زندگی گزارنی پڑھتی ہے اور اطلاع کے لئے عرض ہے کے یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جو دو قومی نظریہ پر بنا، آپ نہیں جانتی یا آپ کی یہ سیکولر دنیا؟

تاریخ پڑھنے کی زحمت کر لیں، جس کو دو قومی نظریہ قبول نہیں اس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں، آپ جان لیں یہ ملک نہ اس کا بجا اقدار آپ کے لئے بدلے گا اگر کسی کو اس ملک کے اقدار سے مسئلہ ہے تو وہ اپنے کسی پسندیدہ ملک میں جانے کے لئے تو قطعی طور پر آزاد ہیں؟ نا معلوم ایسی عورتیں صرف ترقی پزیر ممالک میں ہی کیوں سرگرم ہیں؟ بھئی نہیں بنتی تو چھڈو سیاپے اور کہیں اور رخ کرو سیاسی پناواں بہت۔

رہ گئی آزادی نسواں یا حقوقِ نسواں تو اس کی فکر آپ چھوڑیں ہم اپنے حقوق کی جنگ خود لڑیں گے مگر اپنے وقار کے ساتھ، حقوق جن کی واقعی عورت کو ضرورت ہے اور جن کا تزکرہ لبرلز کے منہ سے کبھی سنا نہیں۔ ہم ان نفوس کو بھی ضرور جھنجوڑیں گے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میرا جسم میری مرضی کے لئے تو پہلی صف میں کھڑے ہیں مگر سیکولر ریاستوں میں مسلمان عورت کا نقاب اور حجاب اتارا جائے تو دور دور تک نظر نہیں آتے، پھر نہیں کہتے چیخ چیخ کر میرا حجاب میرا نقاب میری مرضی۔ مگر ہم کہیں گے ہر عورت کے حق کے لئے، ہم فیمنسٹ ہیں مگر اسلام سے دور نہیں، ہمیں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کسی اینٹی اسلامک ٹولے کی ضرورت نہیں ہے۔

بطور خلاصہ تابوت کی آخری کیل یہی ہے کہ جون اف ارک کو زندہ جلانے والی دنیا اسی ٹولے کو مبارک ہمارے لئے خدیجةلکبرٰی کو سلام پیش کرنے والی دنیا کافی ہے۔

اللّٰہ سے دعا ہے اگلے یومِ خواتین پر ہم واقعی عورت کے حقیقی حقوق کے لئے خواتین مارچ کر سکیں۔ امین

اگلے یومِ خواتین تک ہمارے تائیں چیپٹر کلوز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments