چودہ سالہ بچی کے جسم کی مرضی


لیجیے عزیزان من! ایک اور کم عمر عورت کے جسم نے اپنی مرضی کر ڈالی!

راولپنڈی کے علاقے رتہ امرال کی رہائشی چودہ سالہ بچی ماں کے درجے پہ فائز ہوئی اور اپنے جیسی ایک اور بچی کو جنم دے دیا۔ گویا ایک اور عورت زمانے کی گردش یا کسی اور گھاگ شکاری کا شکار بننے کے لئے اس جنگل میں تشریف لے آئی۔

چودہ برس کی بچی کے جسم کو روندنے کے نتیجے میں بچی کی پیدائش کا سہرا چار مردوں کے سر بندھتا ہے۔ ہمسائے، ماں جائے جنہوں نے بن ماں کی بچی کا خیال رکھنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ بلکہ بچی کی تنہائی اور بے کسی کا خیال کرتے ہوئے گود میں ایک گڑیا کا تحفہ بھی ڈال دیا کہ آئندہ کے برسوں میں بچی اکیلی رہنے سے پریشان نہ ہو اور گڑیا سے دل بہلاتی رہے۔

چاروں بڑے جی دار نکلے کہ اپنی اولاد کا تحفہ دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ دیکھیے منٹو صاحب کا کہنا تو جھٹلا دیا نا کہ ” عورت کے ساتھ داد عیش تو ہر کوئی دینا چاہتا ہے لیکن بیٹی کا باپ؟ مذاق چھوڑیے”۔ پس ثابت ہوا کہ یہ ادیب لوگ اناپ شناپ بکا کرتے ہیں۔

ہاں، ایک مشکل ضرور آن پڑی ہے۔ نہ جانے یہ گڑیا اسد علی کی غیرت کا شاہکار ہے یا بہادر علی کی بہادری رنگ لائی ہے۔ شنید ہے کہ جواں عمر اسد علی نے ہمسائے کی غیر موجودگی میں بن ماں کی بچی کا خیال رکھنے کا عزم کیا اور اس خیال کی روشنی میں اپنے دوست بہادر علی کو بھی شامل کر لیا۔ بچی کو منہ کھولنے کی صورت میں اگلے جہان بھیجنے کی دھمکی کا بھی استعمال کیا۔ ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ چوکھا آئے کے مصداق دونوں کئی ماہ تک کھل کھیلے۔

ایک روز دونوں اس مذموم کھیل کے بعد روانہ ہوئے ہی تھے کہ ادھیڑ عمر ہمسائے عابد نے مشکوک سرگرمیوں کی تفتیش میں بچی کے گھر گھسنے کا سوچا۔ عابد کی گناہ گار آنکھوں نے ایک معصوم چڑیا سی جان کو دو مردوں کی مردانگی کا شکار ہونے کے بعد نیم جان حالت میں اپنے آپ سے بے خبر پایا۔

معزز شہری، اخلاقیات کے خدائی فوجدار اور کئی بیٹیوں کے ادھیڑ عمر باپ عابد صاحب کی شیطانی رگ بھی جاگی اور حصہ بقدر جثہ کے مصداق بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سوچا۔ شقی القلب کا نہ دل پسیجا، نہ روح لرزی، نہ آسمان ٹوٹا، نہ زمین شق ہوئی۔

ان تین باعزت مردوں نے اپنے رنگین لمحات کی داستان کے چٹخارے محلے میں پھیلائے تو یحییٰ نامی ایک اور صاحب بھی اس نیکی کے کام سے اپنے آپ کو روک نہ سکے اور اپنا نام اس فہرست میں شامل کروا لیا جہاں ایک بچی کے جنم لینے کی صورت میں ولدیت کے خانے میں پہلے سے تین مرد موجود تھے۔ یعنی یک نہ شد، چار شد۔

ہمیں سمجھ میں نہیں آتی کہ سینہ کوبی کریں کہ یزداں کے دامن سے لپٹ کے فریاد کریں۔ یہ بھی خیال گزرتا ہے کہ شاید ہمارا احساس کا دامن ہی بہت نازک اور بوسیدہ ہے کہ فورا تار تار ہوجاتا ہے۔ ہمیں ظلم اور بربریت کی یہ داستانیں پڑھنے اور سننے میں ہضم ہی نہیں ہو پاتیں، جنہیں بہت سے لوگ نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ ستم گزیدہ کو یہ کہہ کے مزید چرکے لگاتے ہیں کہ کچھ تو ہوگا دوسری طرف بھی؟

خدارا کوئی ہمیں سمجھا دے کہ چودہ سالہ معصوم تنہا اور خوفزدہ بچی کو اسد علی اور بہادر علی نے اپنی بہادری کا نشانہ بنایا کیسے؟ گن پوائنٹ پہ ہونے والے جنسی عمل میں ان دونوں کو لذت ملی کیسے؟ اس وحشیانہ پن نے کہاں پرورش پائی؟ ایسا جنگلی پن جو شکار کی بے بسی دیکھ کے عود کر آیا اور چڑیا جیسی بچی کو پھاڑ کھایا، کہاں سے پایا؟ کیا اپنے گھر میں کسی پاکیزہ بندھن میں بندھے تھے دونوں؟

کیا عابد اور یحییٰ نامی شقی القلب افراد کو، جو بچی کے باپ کے ہم عمر تھے، اس پاتال میں قدم رکھتے ہوئے اپنی بچیاں یاد آئیں تھیں؟ یا ان عذاب ناک لمحات میں وہ صرف مرد تھے اور بچی ان کا شکار؟

وہ کم عمر بچی چودہ برس کی عمر میں صدیوں کا سفر طے کر چکی۔ بچپن داغدار ہو کے الوداع ہو چکا۔ وہ سبق جو ابھی پڑھنے کی عمر نہیں تھی، ازبر ہو چکا۔ جو منزل ابھی کوسوں دور تھی، اس کے آخری نشان تک وہ پہنچ چکی۔

زخمی روح، اجڑا تن، ویران دل اور گود میں ہمکتی ایک نشانی کے ساتھ ایک ایسی آسیب زدہ گلی میں کھڑی ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں!

“میرا جسم، میری مرضی” جیسی فحاشی کی مخالفت کرنے والے غیرت مندوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اب ہمارے پاکیزہ معاشرے میں چودہ برس کی بچیوں کے جسم بھی اپنی “مرضی” کرنے لگے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments