خدا شفا خانے میں سلامت ہے، مذہب کے ٹھیکیدار عبادت خانے میں ہار گئے


آج اگر بیکٹیریا سے بھی چھوٹے چند نینو میٹر حجم رکھنے والے جر ثومے کرونا وائرس کی وجہ سے ایک سو سے زائد ملکوں کی مارکیٹس، ائیر پورٹ، سی پورٹ، شاپنگ پلازے، کھیل کے میدان، تعلیمی ادارے اور تفریح گاہوں کے علاوہ عبادت گاہیں ویران ہو رہی ہیں اور دوسری طرف شفا خانے اور جدید ترین لیبارٹریز ہمہ وقت اس موذی وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے سائنس کے مقابلے میں مذہب کو شکست ہو چکی ہے؟

اور اس سے قبل طاعون، ملیریا، ڈینگی جیسی جان لیوا وباٶں اور ٹی بی، کالی کھانسی، تشنج، کینسر، ایڈز، ٹائی فائڈ، چچک اور یرقان جیسی خطرناک بیماریوں نے کروڑوں انسانوں کو موت کے منہ میں پہنچا دیا اور مذہبی پیشوا عبادات، مناجات، چلہ کشی اور گنڈے تعویذوں سے ان امراض کا علاج کرنے میں ناکام رہے ہیں مگر میڈیکل سائنس کی بتدریج ترقی نے ان میں سے بہت سی بیماریوں کا کلی اور کچھ کا جزوی خاتمہ کر لیا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنس نے مذہب کو شکست دے دی ہے؟

آج اگر کعبتہ اللہ سمیت دنیا کے دیگر معبد خانے مثلاً گرجے، گوردوارے، مندر، دھرم شالے اور مسجدیں احتیاطی تدابیر کے تحت بند ہو رہی ہیں اور ہسپتال اور لیبارٹریز کھلی ہوئی ہیں تو کیا یہ باور کر لیاجائے کہ مذہب ہار چکا ہے اور سائنس جیت گئی ہے؟ تقدیر کے لکھے پر اندھا اعتقاد رکھنے والے اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں اور تدبیر اختیار کرنے والے علاج معالجے کے اسباب بروئے کار لا کر اس آفت کا کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ تدبیر تقدیر پر حاوی ہو گئی ہے؟

جن ممالک اور خطوں میں بر وقت حفاظتی، احتیا طی اور طبی اقدامات کو بروئے کار لا کر شرح اموات کو بہت ہی کم کیا گیا اور جن ملکوں میں ان چیزوں کی عدم موجودگی سے اموات زیادہ ہو رہی ہیں تو کیا اس سے بھی یہ نتیجہ اخذ کر لیا جائے کہ انسان نے موت پر کسی حد تک فتح پا لی ہے؟

ان سوالوں کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر (رض) کے دور میں اگر طبی سہولیات جدید اور آسان ہوتیں تو کیا شام میں چند مہینوں میں جلیل القدر صحابہ کرام سمیت پچیس ہزار سے زائد مسلمان جان سے جاتے؟ یا 1347 میں جب چین اور یورپ میں تاریخ انسانی کی بدترین وبا طاعون کی شکل میں پھیلی تھی جس میں ایک اندازے کے مطابق آٹھ کروڑ نفوس لقمہٕ اجل بن گئے تھے، اس وقت اگر میڈیکل سائنس آج جتنی ترقی یافتہ ہوتی تو اس قدر تباہی ممکن تھی؟

طاعون جیسی وبا تو اب سائنسی ترقی کی وجہ سے دنیا سے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ چین ہی کی مثال لے لیجیے۔ تصورکیجیے کہ اگر یہی وائرس ایک صدی قبل اتنی شدت سے حملہ آور ہوتا تو تقریباً آدھی آبادی نابود ہو جاتی۔ خطرہ اب بھی پوری شدت سے موجود ہے مگر چین کی احتیاطی اور طبی تدابیر کی وجہ سے وہاں اس کی شدت میں بہت کمی آ چکی ہے۔ اس کے علاوہ یورپ، امریکہ اور مغرب کے کافر ملک پوری دیانتداری، تندہی سے انسانی جانوں کو بچانے کے لیے سر گرم عمل ہیں۔ اس لیے کہ وہاں انسانی زندگی کی قدر ہے۔ وہ ہمار ے حکمرانوں کی طرح نہیں کہ جو ایسی افتاد کے وقت یہ لولی پاپ دیں کہ سردیاں آئیں گی تو ڈینگی ختم ہو جائے گا اور گرمیاں آئیں گی تو کرونا ختم ہو جائے گا۔ آج ہم بوجوہ کافر ملکوں کے میڈیکل کے سائنسدانوں کے کے حق میں گڑ گڑا کر دعا مانگ رہے ہیں کہ اللہ تعا لٰی کرونا کا علاج دریافت کرنے میں ان کی مدد فرمائے۔

بنظر غائر دیکھا جائے تو شکست مذہب یا خدا کو نہیں ہوئی بلکہ شکست مذہب کے ان ٹھیکیداروں کو ہوئی ہے جنہوں نے مذہب اور تقدیر کا فرسودہ تصور قائم کر رکھا تھا۔ جن کے نزدیک مذہب دنیا کے ہر مسئلے کا مثالی حل پیش کرتا ہے۔ حالانکہ مذہب تو تزکہٕ نفس، فکر آخرت اور اخلاقی محاسن کی تطہیر کے لیے آیا ہے۔ یہ تمام علوم و فنون کا سر چشمہ ہے نہ ہر طرح کے مسائل کا حل دے سکتا ہے۔ ہمارے کٹھ ملا، کج بحث اور روایت پسند قسم کے علما مغرب کی ہر نئے سائنسی انکشاف اور تجر بے کے جواب میں گہری نیند سے یک دم بیدار ہو کر رٹا رٹایا جملہ بولنے کے خوگر ہو چکے ہیں کہ یہ بات تو ہمارا مذہب یا نبی صلعم یا قرآن چودہ سو سال پہلے بتا چکے ہیں۔

مگر مجال ہے کہ خود اس طرح کے تجربات کی کوشش کریں۔ پوری مسلم دنیا میں خوفناک فکری انجماد کی فضا طاری ہے۔ اکثریت نے من گھڑت روایات اور خود ساختہ قصے کہانیوں کے ملغوبے کو مذہب کا نام دے رکھا ہے۔ تقلید بلکہ بھونڈی نقالی اور فرسودہ روایت پرستی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ عقلیت پسندی اور استدلالی و سائنسی طریق کار سے وہ کوسوں دور ہیں۔ اخلاقی، تعلیمی اور سیاسی انحطاط اس پر مستزاد ہے۔ اور زعم یہ ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی لاڈلی اور چہیتی قوم ہیں۔

وہ ہمارے لیے اپنی سنت تبدیل کر لے گا۔ ہم اس حقیقت سے مکمل نا آشنا ہو چکے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے قوموں کے عروج و زوال کے متعین معیارات اور قوانین بنا رکھے ہیں۔ جو قوم ان کی پاسداری کرے گی کامیابی کے ہفت اقلیم سر کرے گی ورنہ ہماری طرح قعر مذلت میں گر جائے گی۔ ان معیارات میں دو چیزیں کلیدی ہیں۔ اور وہ ہیں علمی و اخلاقی برتری۔ آج ہم ان دو چیزوں میں اہل مغرب کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں، یہ سب جانتے ہیں۔ کاش کرونا وائرس ہماری اس سوچ کو تبدیل کر سکے کہ بیماری یا تندرستی کا تعلق کسی مذہب سے نہیں بلکہ انسان کی طرز حیات و معاشرت سے ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments