کرونا وبا نہیں ہے


چین پر حملہ کرنے کے بعد بھی کرونا وائرس کو چین نہیں آیا اور یہ اپنی بے چینی لے کر دوسرے ممالک میں پہنچ گیاہے۔ کرونا اپنے کمزور وجود سے طاقت دکھاتا جس طرح چین سے سفر طے کرتا امریکہ پہنچا ہے اس سے ایک بار تو ایسا لگا کہ ہو نہ ہو یہ چین کی سوچی سمجھی سازش ہے کہ اس نے اپنے حریف امریکہ سے دشمنی کے چکر میں عالمی وائرس کی جنگ چھیڑ دی ہو۔ لیکن چین میں اس کی ہیبت دیکھ کر اپنے ہی خدشے کی نفی کرنا پڑی کہ ابھی تک سب سے زیادہ اس کا نقصان خود چین کو پہنچا ہے۔

ایک چھوٹے سے وائرس کی دہشت نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ پوری دنیا کرونا سے ڈری بیٹھی ہے، کرونا تو سپر پاور کی طرح سپر وائرس بن کر دنیا پہ اپنا تسلط قائم کرنے کے چکر میں لگتا ہے، جو کسی کے قابو میں نہیں آرہا، الٹا اس کی وجہ سے انسانی جانوں کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی معیشت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ بڑی بڑی طاقتوں نے اس کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں، اور اپنے اپنے ملکوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں، بلکہ اپنے ملک میں بھی شہریوں کی نقل و حمل پر پابندی لگا رہے ہیں۔

امریکہ جیسے بڑے ممالک دنیا سے کٹ کر رہ گئے ہیں تو پھر چھوٹے غریب ملکوں کی کیا مجال کہ اس کے آگے دم مار سکیں۔ عالمی نقل وحمل کے ذرائع بند، ملک بند، شہر بند، مسجد بند، مکتب بند، کلیسا بند، یہاں تک کہ کعبہ تک بند ہوگیا۔ اللہ اکبر۔ کرونا وائرس نے لوگوں کو تنہا کر دیا، ہر کوئی اس کرونا کو رو رہا ہے۔ اس کی وجہ سے پریشان حکومتیں اپنی اپنی عوام سے درخواست کر رہی ہیں کہ لوگ بنا ضروت گھر سے باہر نہ نکلیں، ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں، کسی سے ہاتھ نہ ملائیں، اجتماعات سے پرہیز کریں۔

لیکن ہم ایسی بہادر قوم کہ ایران سے آئے لوگ جنھیں تفتان بارڈر پر حفظ ما تقدم کے لئے روکا گیا، تو عالمی حفاظتی تدابیر کو کچرے کے ڈھیر میں پھینک کر تفتان بارڈر پر ہی میلہ لگا کر بیٹھ گئے ہیں، آپس میں جھپیاں ڈالتے ایک دوسرے کو تسلی دے رہے ہیں کہ گھبرانا نہیں، ہمیں کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس قوم کی بہادری کا اندازہ اسی سے لگالیں کہ وہاں ماسک پہننے جیسے تکلف کی ضرورت بھی نہیں سمجھی جارہی۔ ایسی بہادر قوم نے کرونے سے کیا ڈرنا، جو کرونے کو ڈرانے کے لئے ایسی چاق و چوبند ہو کہ ماسک جیسی حفاظتی تدابیر والی چیزوں کو مارکیٹ سے ہی غائب کر جائے کہ

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ہم سمجھتے ہیں ہمیں ماسک کی ضرورت نہیں کہ مومن جذبہ ایمانی سے سرشار ہو کر بے تیغ یعنی بنا ماسک کے بھی کرونا سے مردانہ وار مقابلہ کرسکتے ہیں، ماسک جیسے عارضی سہاروں کی ضرورت تو اینٹی مومنوں کو ہے، سو ہم اسے سمگل کر کے منافع کمائیں گے۔ پاکستان میں تو چند کیس ہی سامنے آئے ہیں لیکن دنیا کی نقالی میں حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے لوگوں کے اجتماعات والی جگہیں بند کر دیں ہیں، ممکن ہے سرکاری دفاتر بند کرنے کی تجویز بھی زیر غور آجائے، کہ اتنی چھٹیوں کی وجہ شاید دوبارہ نصیب نہ ہو۔

حکومت نے اجتماعی میل ملاپ کو روکنے کے لئے ملک بھر کے سکول بند کیے تو خواتین بچوں کو لے کر ملنے جلنے کے لئے اپنے اپنے میکے میں اکٹھی ہوگئی ہیں۔ خیر پریشانی کی کوئی بات نہیں اللہ کے فضل سے کرونا سے نمٹنے کا ہم نے بھرپور انتظام کر لیا ہے۔ یہاں کوئی اس وبا سے نقصان نہیں اٹھائے گا، بلکہ فائدے ہی میں رہے گا۔ اگر کرونا یہاں آتا ہے تو ہمارا کاروبار زندگی معطل نہیں ہوگا بلکہ کاروبار میں منافع ہی ہوگا۔ خود ہی حساب لگالیں کہ ابھی کرونا باقاعدہ طور پر یہاں آیا نہیں لیکن ہم نے انٹر نیشنل فلائٹس بند ہونے سے پہلے بیرون ملک جانے والوں کے لئے ائیر ٹکٹس کی قیمتیں پچاس گنا بڑھا دی ہیں، ہر وہ چیز جس کی کرونا سے بچاؤ اور اٹیک کے بعد ضرورت پڑ سکتی ہے اُس کی مارکیٹ میں قلت پیدا کردی ہے تاکہ بوقت ضرورت ”مناسب داموں“ کثرت سے بلیک میں فروخت کی جا سکے۔

کرونا کی پاکستان آمد سے ہمارے میڈیسن کے شعبے کی قابلیت بھی دنیا کے سامنے آئے گی، ایلو پیتھک معالج اس پر قابو پانے میں شاید ناکام رہیں اس لئے زیادہ عوام ان کے پاس جانے سے گریز کرے گی، تاہم سوشل میڈیا کے سپیشلسٹ کے غیر آزمودہ ٹوٹکے ضرور آزمائے گی کہ ہمارے ہاں طبی ماہرین کی کمی نہیں ہے، فارغ بیٹھے معالجوں کے لئے بھی کرونا رزق کی خوشخبری لے کے آئے گا، حکیم چھوت جیسے ماہرین نے کرونا مار معجون اور پھکی تیار کر لی ہے جس سے کرونا کا شرطیہ خاتمہ ہوگا ہاں اگر کرونا کے ساتھ مریض بھی ختم ہو جائے تو اس میں حکیم کی نیت کا نہیں مریض کی قسمت کا قصور ہوگا۔

زنگالی بابا بھی اپنے علم کی کاٹ سے اس کو کاٹ کر رکھنے کا دعوی رکھتے ہیں اور مستقبل کے متوقع مریضوں کی سہولت کے پیش نظر شہر کی دیواروں پر اشتہارات لگا دیے ہیں تاکہ متاثرین ان سے فوری رابطہ کر سکیں۔ اور جلالی پیر کی کرامت کا تو پوچھیں ہی مت ان کی کرامت سے کرونا ان کی ایک پھونک کی مار ہوگا بس پھونک میں اثر کے لئے فی مریض دس کالے دیسی بکروں کی قربانی ہوگی۔ آپ سوچیں کرونا کیسے ہمارے ہاں رزق کے دروازے کھولے گا۔

باہر کے لوگ ڈرتے رہیں، ہمارے ہاں تو کرونا بھلا ہی کرنے آئے گا۔ اگر کرونا محبت بھرا حملہ کر کے مجھ کو اپنے ساتھ لے جائے تو اس کی وجہ سے میرے میاں کا بھی بھلا ہو جائے، اور ان کی دوسری شادی کی شدید خواہش پوری ہو جائے، جب جانا طے ہے تو پہلے جا کر میاں کا بھلا ہی کر جاؤں، لہذا میں تو اس کرونا کے وار کے لئے تیار ہوں۔ اس کا انتظار میرے جیسی اور خواتین بھی کر رہی ہیں لیکن اپنے لئے نہیں، یہ انتظار کئی بہوؤں کو ہے، کہ جیسے کرونا کے متاثرین کو آئسولیشن میں رکھا جاتا ہے تو کرونا اگر ان کی ساسوں پر عاشق ہو جائے تو بہوؤں کے پاس ساسوں کو آئسو لیٹ کرنے کا معقول جواز مل جائے گا دوسری طرف یہی خواہش کئی ساسیں بھی رکھتی ہیں۔

جیسے دنیا کرونا کی وجہ سے پریشان ہے اور ان کی ساری توجہ کرونا سے نمٹنے پر لگی ہے تو ہو سکتا ہے بھارت کی توجہ بھی کرونا کی طرف ہو جائے اور وہ دہلی میں مسلمانوں پر ڈھانے والے ظلم ختم کر دے۔ ظلم سے یاد آیا جموں کشمیر میں بھی تو بھارت مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہا ہے، پچھلے سات ماہ سے ان کو گھروں میں قید کر رکھا ہے، ان کے بھی تو کاروبار، سکول بند ہیں، بیرونی دنیا سے رابطے کے ذریعے بند ہیں، لیکن وہاں یہ سب کرونا کی وجہ سے نہیں، بھارتی حکومت کے ظلم کی وجہ سے ہے، اور اس ظلم کے خلاف کسی نے ان کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔

ظلم کی حد تو یہ کہ آج کرونا کے وار سے پریشان عالمی طاقتیں، بات بات پر ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے“ کا نعرہ لگانے والے مسلم ممالک بھی اپنا مفاد دیکھتے خاموش رہے، بھارت نے کشمیریوں کو لاک ڈاؤن کیا تو انھی دنوں کئی ممالک نے بھارت سے کاروباری معاہدے تو کیے لیکن ظلم پر احتجاج کرنے کی ہمت نہ کی۔ جانوروں تک کو تحفظ دینے کی بات کرنے والوں کو بھی وہ انسان نظر نہیں آئے، انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی یاد نہیں آیا کہ یہاں انسانوں پر ظلم ہورہا ہے، شاید انھیں لگتا ہو کہ کشمیر میں رہنے والے مسلمان انسان نہیں، ورنہ اتنی تکلیف تو جانوروں کے لئے بھی برداشت نہیں ہوتی، جتنی تکلیف کشمیر میں رہنے والے انسان سہہ رہے ہیں۔

دنیا ان مظلوموں کا تماشا دیکھتی رہی، عورتوں پہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو بھی پتہ نہیں چلا کہ وہاں کی عورتیں تکلیف میں ہیں، وہ روتی رہیں، چیختی رہیں، پکارتی رہیں کہ ہمیں یہاں سے نجات دلاؤ۔ ہماری عزتیں پامال ہو رہی ہیں، ہمارے سہاگ اجڑ رہے ہیں، ہمارے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ہمارے پاس خوراک نہیں، ادویات نہیں، ہم آزاد فضا میں سانس لینے کو ترس گئے ہیں، ہم پر ظلم ہو رہا ہے، دنیا والو! تم تک ہماری چیخیں کیوں نہیں پہنچ رہیں؟ خدا کے لئے ہماری بے بسی کا تماشا نہ دیکھو، ہماری مدد کو آؤ، کچھ کرو ہمارے لئے، کچھ تو کرونا۔

وہ فریاد کرتے کرتے نڈھال ہوگئیں، لیکن کسی نے کچھ نہیں کیا، دنیا نے انھیں تنہا چھوڑ دیا اور پھر کرونا آگیا جس نے پوری دنیا کو تنہا کر دیا۔ ایک چھوٹے سے وائرس نے ان مظلوموں کا بدلہ پوری دنیا سے لے لیا، اس کرونا نے تقریباً پوری دنیا کی طاقتور معیشتوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ، وہ معیشت جس کے تکبر میں کسی نے ان مظلوموں کی پکار نہ سنی تھی۔ کوئی انھیں قید (لاک ڈاؤن) سے نجات دلانے نہ آیا تو آج پوری دنیا کرونا کے ڈر سے خود لاک ڈاؤن ہو رہی ہے۔ یونائیٹڈ نیشن نے اسے عالمی وبا قرار دیتے ہوئے اس پر پریشانی کا اظہار کیا ہے کہ ایسی وبا آج تک نہیں دیکھی جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ لیکن کسی نے سوچا یہ بھی تو ہو سکتا ہے یہ کرونا وبا نہیں، کشمیری مظلوموں کی آہ ہو جو دنیا پہ پڑی ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments