اداس لمحوں میں مسکراتی محبت


اداسی کو پہلی بار محبت نے کینسر کے ایک وارڈ میں دیکھا تھا جہاں سرطان کا زہر بدن میں لئے بہت سے مسافر شفا کے منتظر تھے۔ اداسی بھی انہی مسافروں کی مختصر سی قطار میں اپنے حصے کا درد اٹھاے خاموشیوں کے ساتھ ہمکلام تھی۔ مسافروں کے سرطان زدہ بدن زندگی کی جنگ لڑتے لڑتے اب تھکنے لگے تھے۔ طبیب نجانے کتنی ہی مشیینوں کے اندر سے ان کے زہریلے وجود کو گزارتے لیکن درد کم نہیں ہوتا تھا۔ دردکش ادویات ان کے بیمار وجود کے اندر بھاگتی پھر رہی تھیں اور وہ خوف کے دائرے میں ہر لمحہ موت کی آہٹیں سنا کرتے تھے۔ اداسی سرطان کے قبیلے سے تعلق رکھنے کے باوجود ان سے الگ تھی۔ محبت سفید کوٹ پہنے روزانہ اداسی کے وجود کو مختلف مشینوں کے اندر سے جھانکتے ایک کرب سے گزرتے دیکھتی اور فضا میں موجود تمام تر مسکراہٹوں کو اس کے بیڈ کا راستہ سمجھاتی مگر مسکراہٹیں خزاں کے پاس جانے سے خوفزدہ تھیں۔ مسکراہٹوں کو تو پھولوں سے سجے راستے پسند تھے۔ ایک روز محبت نے مسکراہٹ کو ہاتھوں میں اٹھایا اور اداسی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اداسی اس روز ایک مشین کے اندر سے گزر کر درد کا بوجھ اٹھاے مایوسی کو اپنے سینے سے لگاے نیند کی وادیوں میں گم تھی کہ محبت نے دبے پاوں چند مسکراہٹوں کو اس کے ہونٹوں کے اوپر رکھ دیا۔ محبت کو اپنے پر پھیلاتے دیکھ کر مایوسی نے رخصت سفر باندھا اور یوں چند ہی لمحوں میں اداسی کے خالی وجود میں مسکراہٹوں کے شوخ رنگ اترنے لگے۔

اداسی رنگوں کی اس برسات کو دیکھ کر ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی تھی۔ اس نے اپنے دائیں جانب کھڑی محبت کے آنکھوں میں موجود ستاروں کی طرف دیکھا اور اپنا وجود محبت کے سپرد کر دیا۔ اب محبت اداسی کی ہمسفر تھی۔ اداسی محبت کے آسمان پر کچھ نئے خواب بننے لگی۔ ان خوابوں کے ساتھ سفر کرتے ہوے ابھی اسے کچھ ہی دن ہوئے تھے کہ ایک روز دبے پاوں سرطان اس کے دل میں بھی داخل ہو گیا۔ اس سے پہلے سرطان اس کے آدھے سے زیادہ وجود کو نگل چکا تھا۔

اب کی بار اداسی اکیلی نہیں تھی۔ اب محبت نے اس کے دل میں گھر بنا رکھا تھا۔ سرطان کو اس بار شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ کتنے دن تک محبت اور سرطان ایک دوسرے کے سامنے مدمقابل رہے۔ محبت کی طاقت کے سامنے سرطان نہیں ٹھہر سکا۔ درد کے قافلوں نے رخت سفر باندھ لیا تھا۔ بہاریں لوٹ آئی تھیں۔ خزاں کے سبز قدم اب اداسی کے راستوں میں کہیں نہیں تھے۔ زندگی کے کینوس پر اب کی بار اداسی نے محبت کے ساتھ مل کر ایک رنگین تصویر بنائی تھی۔ جس کے رنگ ہارے ہوے لوگوں کے لئے امید کی کرن تھے۔ اب سب لوگ اداسی کو محبت کے نام سے جانتے ہیں۔ سرطان کے اس شفا خانے میں اداس لمحوں کی مسکراتی محبت ہاتھوں میں مسکراہٹ لئے شفا بانٹتی پھرتی ہے اور کہتی ہے محبت ہر درد کا مرہم ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments