سرکی پتن: کِیویں ساکوں یاد نہ رَاہسی


یہ اظہاریہ پار سال کی جاں ستاں مونجھ میں گھلی اداسی کی دل ستاں باس ہے جو گاہے گاہے من میں ہمکتی ہے اور بے چین کیے رکھتی ہے۔ ضرب عضب کی خوں رنگ رتوں میں مل کر خزاں کی زردی ماحول کو گھمبیر اور طبیعت کو بوجھل بنا رہی تھی۔ جب یہ طے ٹھہرا کہ ٹھل حمزہ کے راستے سے کشتی کے ذریعے سندھو سائیں کے فراخ سینے کو چیرتے ہوئے گاؤں کی اور کوچ کریں۔ مسافروں اور مال و اسباب سے بھری کشتی سرکی کے پتن پر پہنچی تو آفتاب پچھم میں ڈوبنے کی تیاری کر رہا تھا۔ دریا کے کنارے آنے تک دھوپ مدہم ہو چلی تھی اور دسمبر کی زمستانی ہوا شام کے سرمئی آنچل سے اٹھکیلیاں کر رہی تھی۔

بوڑھے ملاح نے کشتی کا لنگر ڈالا تو ہم نے اس سے کرایہ بارے استفسار کیا۔ اس نے ایک اچٹتی سی نگاہ ہم پر ڈالی اور گویا ہوا۔ ”سائیں! اس پتن سے سفر کرنے والوں کو میں جانتا ہوں۔ لیکن تمہیں پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔ کہاں سے آئے ہو اور کہاں جا رہے ہو“؟

اس کے پے درپے سوالات اس کے ”باشعور“ ہونے اور ”اکلاپے“ کی چغلی کھا رہے تھے۔ ہم نے کہا: ”چاچا! ہم اوچ شریف سے آئے ہیں اور یہاں سرکی میں اپنے گھر جا رہے ہیں۔ استاد شبیر ہمارے بڑے بھائی ہیں۔ “ بھائی جان کے نام پر اس نے چونک کر غور سے ہمیں دیکھا۔ ”اوہ۔ اچھا ا ا ا ا۔ زہے نصیب۔ پی ٹی رسول بخش کا بیٹا یہاں آیا ہوا ہے۔ بیٹا! تمہارے والد نے مجھے قرآن پاک اور اردو پڑھائی تھی۔ وہ میرے استاد تھے اور تمہارا بھائی استاد شبیر میرے بچوں کا استاد ہے۔ میں کرایہ لے کر گناہگار نہیں ہونا چاہتا۔

ہمارے لاکھ اصرار کے باوجود وہ کرایہ نہ لینے کے اپنے فیصلے پر نہ صرف ڈٹا رہا بلکہ ضد کر کے ہمیں قریبی ڈھابے میں چائے پلانے لے گیا۔ لکڑی کی آگ پر بنی اس خالص دودھ والی چائے کا ذائقہ ابھی تک زبان سے چپکا ہوا ہے۔ پتہ نہیں یہ دریا سے جڑے لوگ اتنے کشادہ دل کیوں ہوتے ہیں۔

چائے سے حظ اٹھاتے ہوئے ایویں ہی ہم نے اس سے پوچھا: ”چاچا! اس دریا کو کیا کہتے ہیں“؟ بولا، یہ مہربان ”سندھو دریا“ ہے جو ہمیں مچھلی دیتا ہے، روزی دیتا ہے، یہ ہماری ماں جیسا ہے۔ ”

وہ بے تکان باتیں کیے جا رہا تھا جبکہ ہمارا دھیان سندھو دریا کے ساتھ بہتے ڈھاکا کے گھنیرے جنگل میں جا پہنچا۔ ہمارے گاؤں میں دریائے سندھ کے ”پار“ یونین کونسل ڈھاکا کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ 1990 ء کی دہائی کے اوائل میں ابا جی نے ابتدائی تعلیم کے لئے ہمیں بھائی جان کے پاس گاؤں بھیج دیا تھا۔ سکول سے چھٹی کے بعد یا جمعہ کو چھٹی کے دن ہم ”شان اکیڈمی“ کے اپنے ہم جماعت لڑکوں کے ہمراہ چوری چھپے دریا کی سمت نکل جاتے تھے۔

جی بھر کے چھوٹے مٹر (ڈڈے ) کھاتے، دریا کے کنارے زمین داروں کی زمینوں پر گاجروں کے ساتھ ساتھ موسم کی مناسبت سے پیدا ہونے والے پھلوں پر ہاتھ صاف کرتے اور اگر دریا میں طغیانی نہ ہوتی تو اس کے کم گہرے پانی میں داخل ہو کر درمیان میں نمو دار ہو جانے والی ”ڈھنڈ“ میں چلے جاتے۔ اور جو کبھی ملاح مہربان ہو جاتا تو پار کا بھی چکر لگا آتے۔

بوڑھے ملاح کی بلغم زدہ آواز سے دھیان کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ ”تبت والے کہتے ہیں کہ یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے، اس لیے انہوں نے اسے شیر دریا کا نام دیا۔ اس میں کمال دریا کا نہیں اُس شیر کا ہے جس نے اپنے قبیلے کی روایت توڑ کر نعمت نِگلی نہیں اُگلی ہے۔ تنگ وادیوں میں شور مچاتا یہ دریا پنجند کے راستے سرکی میں آ کر اس طرح شانت ہو جاتا ہے جیسے تھک ہار کر جاڑے کی گلابی دھوپ میں لیٹا ہوا ہو۔ “

چائے پیتے ہوئے ہم نے سامنے نگاہ دوڑائی۔ شیر دریا سکون سے، ٹھہر ٹھہر کر بہہ رہا تھا جیسے عمر ڈھلنے پر عورت پرسکون اور ٹھہری ٹھہری لگتی ہے۔ غروب ہوتے سورج کی زوال پذیر روپہلی کرنیں یوں آہستہ آہستہ دریا میں اُتر رہی تھیں جیسے کوئی دیوی اشنان کرنے کے لئے مقدس پانی میں پہلے آہستہ سے اپنے پیر کی انگلیاں ڈبوئے، پھر تِلوے اور آخر میں ایڑھیاں۔

دریا کے کنارے دور تک پھیلی ہوئی ریت جس پر ہوا کے ہاتھوں تراشی ہوئی لہریں تھیں جن پر نہ قدموں کے نشان نہ کسی پیروں کی چاپ۔ ریت کا ایسا کورا پنڈا دیکھ کر جی مچلنے لگا کہ اس پر دور تک ننگے پاؤں چلا جائے۔ حتی کہ عروضی زمانوں سے باہر نکل جائیں۔

دھیان ٹوٹا تو ملاح ”لوکار“ اوڑھ کر اپنے چہرے پر اس کی بکل مار چکا تھا۔ اسی دوران کہیں سے دو چھوٹے بچے آئے اور ”ابا ابا“ کہتے اس سے لپٹ گئے۔ سردی سے بے نیاز، میلے کچیلے ادھ ادھورے کپڑوں میں ملبوس ان سانولے سلونے بچوں کے معصوم چہروں پر شفاف مسکراہٹ تھی اور شفق رنگ زندگی کی شانتی۔ اس نے دو، دو روپے دے کر انہیں ”شے“ خریدنے کے لئے بھیج دیا۔

شام کے سرمئی رنگ آسمان پر بکھرنے لگے تھے۔ چلتے چلتے ملاح بولا ”سائیں! یہ میرے بچے ہیں، ان کو میری واپسی اور اس ڈھابے پہ آنے کا پتہ ہے۔ میرا غریب خانہ یہاں سے بالکل قریب ہے، بیڑی پر مسافروں کو ڈھو کر اور مچھیاں پکڑ کے گزر بسر کرتا ہوں۔ آج رات میری مہمان نوازی قبول کر لو“۔

ہم نے بھائی جان کی پریشانی اور ناراضی کا عذر تراشتے ہوئے اس سے معذرت کی اور اچانک ہی پوچھ لیا کہ ”چاچا! دریا کے ساتھ گھر بنا رکھا ہے۔ سیلاب کے دنوں میں کیسے کرتے ہو؟ تیز تیز چلتے بوڑھے ملاح کی کپکپاتی آواز جیسے دور کہیں خلا سے آتی محسوس ہوئی“ سندھو دریا تو کل بھی یہیں ہو گا سائیں، جب سے میں پیدا ہوا یہ یہیں رہتا ہے بس تین چار سال میں ایک بار مہمان بن کر گھروں میں چلا آتا ہے تو صاحب ہم اس کی مہمان نوازی میں سارا گھر دے دیتے ہیں۔ دریا بھی اپنا بیاج وصول کر کے چھوڑتا ہے ”۔

تھوڑی دیر پہلے سرمئی شام کے آنچل سے اٹھکیلیاں کرتی دسمبر کی زمستانی ہَوا اب چپ ہو چکی تھی۔ پتن سے گھر جانے والی پگڈنڈی کی اور مڑتے ہوئے کسی بوسیدہ ”سالھیں“ کے کچے آنگن میں منصور ملنگی ریڈیو کے دوش پر سئیں رفعت عباس کا بھید بھرا کلام قرآت کر رہا تھا۔ کلام کیا تھا، ایک کوک تھی۔ اور مونجھ کی ماری کسی اجڑی پجڑی روح کی ایک ہجر بھری ہوک۔

کِیویں ساکوں یاد نہ رَاہسی اُوندے گھر دا رستہ

ڈو تاں سارے جنگل آسن ترائے تاں سارے دریا

شام تھیونڑ توں پہلے پہلے ایہ جئی وستی آسی

واہیں ٹھڈیاں ٹھڈیاں مِلسن پانی مِٹھڑا مِٹھڑا

روز کھجوراں دا پرچھاواں کَندھیاں اُتے پَوسی

روز کاہیں دی تانگھاں دے وچ کھول رَکھیساں ٻوہا

ہَولے ہَولے نَویاں جَاہیں اِیہہ جَئیاں سُوئیاں تِھیسن

ہِک دن ساکوں یاد ناں راہسی چڑھدا لاہندا پاسا

ایں دریا دے ٹِھلنڑ والے مول نہ پِچھاں وَلسن

راہواں ڈہدا راسی رفعت راہواں ڈیکھنڑ والا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments