عہدِ وفا


کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہم دہلی میں ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو خاموشی سے دیکھتے ہوئے اور کشمیر پہ لگنے والے بار بار کے شٹ ڈاؤن پر اللہ کی مصلحتوں کو سمجھتے ہوئے، شام کے بچوں کی آہ و بکا سے بیگانہ ہوتے ہوئے اور ساتھ ہی ساتھ روہینگیا، اور چائنہ میں مولی گاجر کی طرح کٹتے انسانوں، بار بار ریپ ہوتی ہوئی بچیوں، عورتوں کے مقتول جسموں پہ اللہ بہتر کرے گا جیسی امید کو پروان چڑھاتے ہوئے، ورلڈ وائڈ کرونا کی تیزی سے پھیلتی ہوئی وبا میں بہہ نکلیں گے۔

پہلے عالمی جنگیں ہوتی تھیں اس بار عالمی وبا پھیلی ہے جس کے نقصانات فی الوقت جنگ سے زیادہ سنگین نظر آرہے ہیں۔ خیر جنگوں کے اثرات بھی شاید ہمارے معاشرے سے رہتی دنیا تک نہ جا پائیں ہماری اخلاقی اقدار کا بحران کھل کر انھی جنگوں سے شروع ہوتا ہے اور اس وقت جبکہ دنیا اتنے بڑے بحران میں مبتلا ہورہی ہے۔ صحت، بزنس، تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار کا بھی دیوالیہ نکل رہا ہے اوراگلے چند دنوں یا مہینوں تک یہ تناسب جانے کس حد تک بڑھ جائے۔ کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہی ہوگا۔

اور ہم جیسے سادہ لوح ابھی تک یہی سوچ رہے ہیں اچھا اپنے اپنوں سے تین فٹ کا فاصلہ کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ ایک وبائی مرض کے بدلے پورا گھر سامان سے کیسے بھرا جاسکتا ہے اور کبھی اس پر فتویٰ اور کبھی اس پر الزام لگا کے کرونا تک کا سہرا کسی خاص جینڈر، مذہب، فرقے یا قومیت کی طرف کیسے دھکیلا جاسکتا ہے؟

اور پینڈیمک کے ان ایمرجنسی حالات میں جب کہ ہر طرف صرف کرونا کا خوف، تکلیف اورکہیں لوگوں کی بے بسی اپنی داستانیں رقم کررہی ہے تو کہیں بے حسی اپنی مثال آپ کا منظر پیش کررہی ہے۔ بیماری اور مجبوری کے ان دنوں میں بھی بہت سے لوگ اپنا بزنس چمکانے کے لئے بازار سے سستا سامان خرید کر آن لائن مہنگا بیچ کر یہ ثابت کررہے ہیں کہ بحیثیت انسان ہم ہر طرح سے ہار چکے اور مادیت پرستی کا جھنڈا ہمارے سروں پہ سب سے اونچا کھڑا ہے

افراتفری اور فکر کے اس دور میں ہلکا سا خوشی کا جھونکا بھی انتہائی تقویت بخش سکتا ہے اور یہی ہوا وبائی مرض اور اس سے متاثرہ لوگوں کے دکھ اور ایک سوشل میڈیا پہ چلنے والی panic campaign کے درمیان ”عہدِ وفا“ کی آخری قسط ایک خوشگوارحوالہ بن کر آگئی۔ عہدِ وفا پر شروع سے تنقید کی گئی۔ آئی ایس پی آر کے تعاون سے بننے والا یہ ڈرامہ سنہرے دن، دھواں اور الفابراوو چارلی کے بعد دلوں میں یقیناً زندہ رہے گا۔ کتنا عرصہ یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

کیونکہ آج کل ہم ڈرامہ تفریحاً دیکھنے کی بجائے تنقید کی نظر سے دیکھنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ڈرامہ ہمیشہ عصرِ حاضر کے ٹرینڈر کو مدِ نظر رکھ کے ہی بننا چاہیے اورعہدِ وفا میں بھی ایسا ہوا۔ آرمی اور فورس سے متعلقہ پچھلے ڈراموں کی طرح سارا فوکس فورس پر اس لئے نہیں رکھا گیا کیونکہ آگے ہماری خالی خولی تنقیدی عوام اور ملک دشمن چھوٹے موٹے سے لے کر بڑے بڑے عناصر کو یہی لگتا ہے کہ ہماری آرمی کو سب سے پرفیکٹ ادارہ سمجھاجاتا ہے ہمارے ملک میں۔ سو یہ کینفیوژن بھی ہر طرح سے دور ہوئی۔

ڈاکٹر صاحبہ پریگننسی میں اپنے شوہر کے آپریشن میں ایسے شریک ہو جاتی ہیں جیسے خوبصورت لڑکیاں پی ٹی آئی کے جلسوں میں۔ اور تو اور باہر بیٹھی سعد کی امی جان جو ایک کلینک چلاتی ہیں وہ بھی اندر جانا چاہتی ہیں مطلب ایک کریٹیکل آپریشن نہیں بلکہ ایک فیملی گیدرنگ تھی۔ مطلب ڈاکٹر کا کوئی ڈیپارٹمنٹ، کوئی سپیشلٹی ہونا ضروری نہیں ہے۔ ثابت ہوا کہ ڈاکٹرز کا طبقہ سب سے بیسٹ ہے۔ رہ گئے ہمارے بیوروکریٹ صاحب، تو وہ بارڈر پہ جا کے لوگوں کو سمجھا رہے ہوتے ہیں کہ آپ کیمپس میں جائیے۔

ہمارے ملک میں یہ نیک کام فورس کرتی ہے پر چلیں ہمارا بیوروکریسی کا محکمہ یقیناً اس امر پہ خوش ہوگیا ہوگا۔ سیاست دان کو سارا کچھ کر کے دودھ کا دھلا کردیا تو کیا غلط دکھایا۔ مگر ایک چیز میں جھول ہے۔ چور چوری سے جائے پر ہیرا پھیری سے نہیں۔ سو سیاستدان کا سدھرنا سوئی کے سوراخ سے اونٹ گزرنے کے مترادف ہے۔ رہ گئے جرنلسٹ صاحب، وہ بیچارے ریٹنگ کے لئے کہیں بھی پہنچ جاتے ہیں سب جانتے ہی ہیں سو ایسا ہی ہوا۔

ہمایوں سعید کی انٹری خوبصورت رہی گو کہ تھی بلاوجہ۔ لیکن قوم ایک بار پھر گزشتہ سال کی ابھی نندن والی قسط کے فخر سے سرشار ہو گئی۔ بس اتنی سی خوشی۔ اتنی ہی کافی ہوتی ہے اس تنے ہوئے ماحول میں۔ سعد بچ گیا سو بہت سارے دل ٹوٹنے سے بچ گئے اور ہمیں کئی دن تکیوں میں منہ دے کے رونے سے بچا لیا گیا۔ ورنہ آج بھی جب نصرت فتح کی قوالی سنیں تو دھواں ڈرامہ اور دم توڑتا ہوا نبیل یاد آجاتا ہے۔ اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں اور پھر وہ سارا خوبصورت وقت، یادیں اور جانے کیا کیا۔ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگتا ہے۔

خیر موت اور تکلیف کے اس دور میں سعد کا زندہ بچ جانا ایک مثبت پیغام ہے۔ بارڈر پہ دن رات حفاظت پہ مامور جوانوں کی محنت، لگن اور قربانیوں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مٹی نے بہت سی مسکراہٹیں، زندگیاں اور خوبصورت کہانیوں کو خود میں پھولوں کی طرح کِھلا دیا۔ ہر شہادت پہ پوری قوم ایک تکلیف میں آکر یک جان ہو جاتی ہے۔ ایسے میں ساس بہو، شادی، خاندانی چالاکیوں اور ہوشیاریوں سے ہٹ کر ملک کے معمار طبقے پر ایک ہلکا پھلکا مگر بھرپور ڈرامہ سامنے لانا انتہائی خوشگواررہا۔ محبت کا پیغام محبت سے ہی دیا جائے تو تاثیر رکھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments