قبولہ شریف کے گدی نشین کا کینڈی کرش معجزہ


تکبر، رعونت، بے نیازی، بے حسی اور سنگدلی کی جیتی جاگتی تصویر!

مسند پہ اپنے آپ کو دیوتا سمجھ کے براجمان، اپنے جیسوں سے ہی اپنے ہاتھ اور پاؤں پر بوسوں کی بارش، سجدہ ریزی، اور ان کے خون پسینے سے کمائے ہوئے سکوں کی نذرانے کے طور پہ وصولی۔

 ایسی شان بے نیازی کہ فون پہ اپنی دلچسپیوں میں محو اور محویت کے اس عالم میں اپنے مفاد پہ ایسی نظر جیسے اڑتی چڑیا کے پر گنے جائیں۔ ہزار روپے کا نوٹ جیب میں اور چھوٹی ریزگاری کو ایک ادائے بے نیازی سے فرش پر پھینکنا۔

یہ موصوف وسطی پنجاب کے قصبے قبولہ شریف کسی آستانے کے گدی نشین ہونے کا خراج وصول کرنے پہ مامور ہیں۔ 2008 سے 2013 تک مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے جہاں کسی قانون سازی میں حصہ نہیں لیا۔ کسی قومی معاملے پر رائے نہیں دی۔ 2013 میں موصوف کی ڈگری جعلی قرار پائی۔ عدالت نے تین برس قید اور تیس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ 2018 میں موصوف نے ایک سیاسی جماعت بنانے کا اعلان کیا اور اپنے چھ رشتے داروں کو اس جماعت کے ٹکٹ دیے۔ اللہ کے فضل سے چھ کے چھ امیدوار بری طرح ناکام رہے۔

(وڈیو ذیل کے لنک پر ملاحظہ فرمائیے)

https://web.facebook.com/muhmmad.sajjad.54/videos/2742943732419742/?t=12

ہمارا سوال کچھ اور ہے۔ پوچھنا یہ چاہتے ہیں کہ یہ دیوتا نما عفریت ان کچلے ہوئے پسماندہ لوگوں کا خون چوسنے کا حق کیونکر رکھتا ہے جو دن رات افلاس، جہالت اور ناانصافی کا زہر گھونٹ گھونٹ پی رہے ہیں اور یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کی خطا کیا ہے؟ کائنات کا مالک اس نا انصافی پہ کوئی حشر برپا کیوں نہیں کرتا؟

ستم بالائے ستم کہ موصوف کی سیاسی پارٹی کا نام پاکستان ہیومن پارٹی ہے۔ خود کو لبرل بھی قرار دیتے ہیں۔ اس ستم ظریفی پہ دل چاہتا ہے اپنے ہی بال نوچ ڈالیں۔ اپنے مریدوں اور ہاریوں سے پاؤں پہ بوسہ وصول کرنے میں مشغول، کسی شہنشاہ کے سے ناز وانداز کے ساتھ یہ شخص کیا واقعی جانتا ہے کہ انسان کسے کہتے ہیں؟

انسانیت کی اس تذلیل پہ ہم بے حد شرمندہ ہیں اور شرمندگی کی ایک وجہ اور بھی ہے۔

ہوش سنبھالنے پہ علم ہوا کہ ہماری ولادت باسعادت ایک نجیب الطرفین گھرانے میں ہوئی ہے اور معاشرے کے انسانوں کا ایک انبوه ہمیں افضل مانتا ہے۔ کم سن تھے، عقل بھی ابتدائی مراحل میں تھی لیکن پھر بھی یہ بات ہضم نہ ہوتی کہ ہم چودہ سو سال سے خانواده رسول کی حرمت کیسے بچائے بیٹھے ہیں۔ ہر خاندان میں ایک رجسٹر پایا جاتا تھا جسے شجرہ نسب کہا جاتا اور کوئی ایک یہ ذمہ داری بنھاتا کہ اس میں نومولودوں کے نام لکھے جائیں۔ پھر بھی بہت سوال تھے۔

صدیوں قبل برصغیر میں آنے والوں نے، جب کاغذ کی سہولت میسر نہیں تھی، یہ ریکارڈ کیسے قائم رکھا؟

پندرہ صدیوں میں حضرت انسان نے بے شمار آسمانی و زمینی آفات، ہجرتوں اور جنگوں کا سامنا کیا، ان سب ہنگاموں میں اس ریکارڈ کو کیسے محفوظ رکھا گیا؟

اگر مان بھی لیں کہ کسی طرح یہ ریکارڈ تلف ہونے سے بچ گیا، پھر بھی اس تعلق کی نسبت سے کچھ انسان دیوتا اور کچھ پجاری کیوں قرار پائے؟

قرآن مجید کا ارشاد کہ افضل وہ جس کا تقوئ اور اعمال اسے انسانیت کی معراج پہ بٹھا دیں، اس سے صرف نظر کیسے کیا گیا؟

رحمتِ عالم کا اپنا فرمان کہ سب انسان برابری کے درجے پہ فائز ہیں۔ عربی اور عجمی میں سے کسی کو کسی پہ کوئی فضیلت نہیں، سے روگردانی کیوں روا رکھی گئی؟

جب دنیا کا ہر انسان آدم وحوا کی اولاد ہے تو کسی ایک کو کسی دوسرے پہ نسل کی بنیاد پہ برتری کیونکر حاصل ہوئی؟

کیا اسلامی معاشرے کا سید اور ہندو معاشرے کا برہمن ایک ہی سوچ کی دو تصویریں تو نہیں جہاں اعلیٰ ذات رکھنے والوں کے درجات افضل اور شودر کا مقام انتہائی پست!

اور آخری سوال!

ہم میں سے کون اپنی رضا سے کسی سید گھرانے میں تولد ہوا اور کس نے اپنی مرضی سے کسی ادنیٰ گھر اور ذات کا انتخاب کیا؟ جن امور میں شعوری فیصلے کو دخل ہی نہیں، وہاں تفاخر کیسا؟

یہ وہ سوال تھے جن سے الجھتے سلجھتے بچپن بیت گیا، جوانی گزری اور اب زندگی کی شام دہلیز پہ کھڑی ہے لیکن جواب اب بھی نہیں ملتا!

ان سوالات کے جواب ڈھونڈنے میں ہمیں اپنوں سے ہی سنگ باری کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہمیں سقراط کی طرح سوال پوچھنے کا اور اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا بھی مراق ہے۔ بیتے برسوں کی ریاضت نے یہ ضرور واضح کر دیا ہے کہ انسانیت میں درجوں کی تقسیم علم کی بنیاد پہ قائم ہے، حسب ونسب پہ نہیں۔ لیکن علم کی بنیاد پہ پائی جانے والی عزت بھی کسی کو یہ حق نہیں دے سکتی کہ علم سے محروم کو درجہ انسانیت سے گرا کر، حقیر سمجھ کے کیڑے مکوڑے جیسا سلوک کیا جائے، اپنے قدموں میں جھکنے پہ مجبور کیا جائے۔

ہمیں اپنے سوالوں کے جواب تو نہیں ملے لیکن ہم نے اپنے بچوں سے ایک سوال ضرور پوچھا۔ اس کی ضرورت یوں پڑی کہ گھر میں مدد کے لئے ہمیشہ ہیلپرز موجود تھے۔ان کی عزت کروانے کے لئے ضروری تھا کہ بچوں کو یہ احساس دلایا جاتا کہ جو جس جگہ پہ موجود ہے اس میں اس کی ذاتی پسند ناپسند کا کوئی ہاتھ نہیں۔ اگر گھر میں علم زیادہ ہے یا دولت، والدین کا رتبہ بلند ہے یا ادنیٰ، فرد کی رنگت گوری ہے یا کالی، آنکھ مستانی ہے یا بھینگی، کسی کا کسی چیز پہ کوئی اختیار نہیں۔ جب اختیارنہیں تو افراد میں انکساری، نیازمندی اور انسان شناسی کا پیمانہ ہی کسی کا مقام جانچنے کا آلہ قرار پائے گا۔

سوال یہ تھا کہ آپ بچوں میں ایسا کونسا سرخاب کا پر جڑا تھا کہ آپ کو تعلیم یافتہ والدین ملے؟ تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع ملے؟ آپ لوگ گھر میں موجود ہیلپرز کے بچے بھی تو ہو سکتے تھے جو زندگی کی بنیادی ضروریات کے لئے بھی مشکل کا شکار ہیں ؟

اس سوال کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں نے ہر ہیلپر کو نام کی بجائے آنٹی یا انکل کہہ کے پکارا۔ ان لوگوں نے وہی کھانا کھایا جو ہمارے لئے بنا، اسی وقت کھایا جب ہم نے کھایا۔ بچوں نے جب بھی باہر سے کھانا منگوایا، نسیم آنٹی کے لئے برگر یا پزا علیحدہ سے منگوایا گیا۔ ہماری بیٹیاں جب ہمارے لئے تحفہ لائیں، نسیم برابر کی شریک ٹھہریں۔

کاش وڈیو میں نظر آنے والے شخص کو اس کے جد امجد نے یہی سبق پڑھایا ہوتا تو اپنے ہاتھوں پیروں پہ بوسہ گیری اور نذرانے وصولنے کی بجائے ان ستم رسیدہ کی زندگیوں میں کوئی امید کی شمع روشن کرتا۔ ان کی علم سے بے نور زندگی کو بدلنے کا سوچتا، عوام الناس کو علم تو ہوتا کہ ان کا رہنما علم کے شہر سے تعلق رکھنے والا حسب ونسب رکھتا ہے۔

آپس کی بات ہے، کبھی ایک خیال من پہ دستک دیتا ہے کہ ہم نے تو یونہی یہ عمر اکارت کی۔ ذات کا پھندنا بھی موجود تھا، خاندان میں کسی جد امجد کی مزار نما قبر بھی موجود تھی، شیریں بیانی بھی کم نہ تھی اور اداکاری کے جراثیم بھی پائے جاتے تھے۔ ایسے ہی چکی کی مشقت میں دن رات گزار لیے، پیرنی بن جاتے، مفت میں مال بھی کماتے، شہرت کی سیڑھیاں بھی چڑھتے اور اسمبلی کے دروازے بھی کھل جاتے۔

وائے افسوس! ہم نے سنہری موقع گنوا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments