کینوس


\"mehak-fatima\"تھرکتیاں انگلیاں کچھ کہہ رہی ہیں!

میں ایک تصویر بنا رہی ہوں!

یہ جو رنگ بکھرتے جا رہے ہیں!

میں تمہیں ان کی حقیقت بتاتی ہوں!

یہ دیکھو آسماں کی سُرخی ، یہ لالی میری رگوں سے لی ہے میں نے!

یہ ڈوبتا زرد سورج، میرے چہرے پہ پھیلی زردی چُرا چکا ہے!

یہ نیلے رنگ کا پانی، یہ دریا، یہ میری نیلی محبت بہہ رہی ہے!

وہاں اس پار کی ہریالی میری نہیں ہے، یہاں اس پار کا بنجر میرا ہے!

وہاں اس پار دیکھو ایک بڑھیا!

یہ جھریاں اس کے چہرے پر دیکھو!

یہ جھریاں تو نہیں ہیں!

انتظار کےلمحوں کے سانپ ہیں،

یہ لمحے میرے لمحے تھے، میرے انتظار کے گہرے سبز رنگ سے یہ سانپ میں نے پالیں ہیں،

 یہ اُسکو ڈس رہے ہیں!

وہ دیکھو مر رہی ہے!

وہ نیم جان اُس پیڑ کے پاس پڑی آگ سیکتی ہے!

یہ آگ جانتے کیسے لگائی؟ میرے سینے کی ساری جلن ہے یہ!

یہ جلن نارنجی جامنی رنگوں کی جلن!

اسے میں نے یہاں بکھیر دیا!

وہ جلتی جا رہی ہے!

وہ دیکھو ڈوبتا سورج بس رات چھپائے نہیں بیٹھا!

 اس کی اوٹ سے دیکھتا وہ بھیڑیا دیکھو..

وہ میری وحشتوں کے سیاہ رنگ کا خاکہ ہے!

وہ سورج ڈوبتے ہی جنگل کا رُخ کرے گا!

چاند کو دیکھ کر وہ چیخنے لگے گا!

وہ بڑھیا خوف سے ڈرنے لگے گی!

میری وحشت اُسے کھانے لگے گی!

وہ دیکھو دور سے آتا ہوا

وہ اس کو نوچ ڈالے گا!

وہ اس کے جسم کو جب چیر دے گا تو دیکھنا رنگ کتنے بکھرے ہیں!

وہ رنگوں کو سنبھالے بیٹھی ہے!

وہ کسی کا انتظار کر رہی ہے!

وہ بڑھیا کون ہے؟

وہ میں ہوں!

میں نے اپنے تمام رنگ کینوس پر بکھیر ڈالے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments