پختون قیادت: باچا خان کی گرفتاری سے عمران خان کی ”گرفتاری“ تک


\"wisi-baba\"کالاباغ ڈیم کے خلاف جلسہ تھا۔ باچا خان نے بھی اس جلسے میں شرکت کی۔ پختون راہنما بوڑھا ہو چکا تھا۔ وہ اب کم کم باہر نکلتے تھے۔ اس جلسے میں شرکت کے لئے وہ آئے۔ معاملہ پختوںوں سے متعلق تھا۔ باچا خان نے ساری عمر جن کے حقوق کے لئے جدوجہد کی تھی۔ جنہیں عدم تشدد کا سبق پڑھایا تھا۔ اپنا پیغام پہنچانے وہ ہر ہر گاؤں تک پہنچے تھے۔

کہتے ہیں ایک بار گزرتے ہوئے ان کی ایک پہاڑ پر موجود گھر پر نظر پڑی تو انہوں نے کہا کہ اس گھر میں نہیں گیا کبھی۔ ادھر بھی جاؤں گا، اپنے بچوں کو ان کا حق ان کا فرض بتاؤں گا۔ باچا خان کو ہم نے بھلا دیا ہے۔ اب یاد بھی کرتے ہیں تو یہ طعنہ دینے کے لئے کہ انہوں نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا۔

وقت آئے گا کہ باچا خان کے جلال آباد میں جا کر آخری آرام گاہ میں بسیرا کرنے کی وجہ سمجھ آئے گی۔ جب راستے کھلیں گے۔ جب پختون ہی نہیں سب پاکستانی افغانی پر امن افغانستان آیا جایا کریں گے۔ جب ہمیں ان کی سمجھ آئے گی تب ہی پاکستان افغانستان میں امن آئے گا۔ ہم پاکستانی فخر کریں گے کہ ان کا تعلق ہمارے وطن سے تھا۔

یہ باچا خان کی تربیت ہی تھی کہ شدت پسندی کے مقابلے پر ان کے ماننے والے کھڑے ہوئے۔ شدت پسندوں نے چن چن کر باچا خان کی فکر پر کاربند لوگوں کو مارا۔ ہمیں اے این پی کی کرپشن کہانیاں یاد ہیں لیکن اس کے ورکروں اور لیڈروں کی اس وطن کے لئے قربانیاں ہم بھول گئے جو انہوں نے اس وطن کے لئے دی جس کو بنانے کی انہوں نے خواہش نہیں کی تھی۔ یہ جاننا ہو کہ باچا خان کے ماننے والے کیسے تھے تو سوات کے افضل خان لالہ کو یاد کریں۔ جو آخر دم تک شدت پسندی کے مقابل کھڑے رہے اور اپنے قدموں کی مٹی نہیں چھوڑی۔

میاں افتخار آپ کو یاد ہوں گے ہر سیاسی کارکن انہیں اپنا سمجھتا ہے۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں اپنا اکلوتا بیٹا کھویا۔

\"abdul-ghaffar-khan\"

یہی میاں افتخار بتاتے ہیں کالا باغ کے خلاف جلسہ تھا۔ باچا خان موجود تھے۔ میاں افتخار تب پختون ایس ایف کے صدر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں جذباتی ہو گیا تھا۔ ایک دھواں دار تقریر کی جس میں مر جانے مار دینے کی باتیں کیں۔ کالاباغ مسئلہ ہی ایسا جذباتی تھا خیر۔ جلسہ ختم ہوا تو پتہ لگا کے باچا خان ناراض ہو گئے ہیں۔ باچہ خان کی ناراضگی یہ تھی کہ وہ خاموش ہو جاتے تھے۔

میاں صاحب کا کہنا ہے کہ ساتھیوں کو شک ہوا کہ وہ مجھ سے ناراض ہیں۔ ان کے پاس گیا تو چارپائی پر بیٹھے تھے۔ ان کی ٹانگیں دبانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو باچا خان نے اپنی ٹانگیں سمیٹ لیں۔ میاں افتخار رونے لگے تو باچا خان نے ان سے کہا کہ تم نے مجھ سے یہ سیکھا ہے، یہ گھیراؤ جلاؤ لڑاؤ ؟ میں نے تم لوگوں کو یہ سبق دیا؟ اس کے لئے ساری عمر جدوجہد کی۔ پھر میاں صاحب کے سر پر ہاتھ پھیرا کہ بیٹا تمھاری قوم کمزور ہے۔ تم ان کے ذمہ دار ہو، تم نے انہیں لڑا کر مصیبت میں نہیں ڈالنا۔ ان کے حقوق لینے ہیں پر امن جدوجہد کرنی ہے۔ ان کے لئے اپنے میرے لئے عزت کمانی ہے۔

پرامن جد و جہد کے داعی باچا خان نے کم و بیش تین دہائیوں کا عرصہ قید بامشقت میں گزارا۔ فرنگیوں کے مقابلے میں پاکستانی حکمرانوں نے ان کو کہیں زیادہ مدت تک قید میں رکھا۔ جب 97 برس کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تو ہسپتال داخل کیے جانے سے پہلے بھی وہ ہاؤس اریسٹ کے تحت قید میں ہی تھے۔ پرانے وقتوں کی یہ قید ایسی سخت تھی کہ ہتھکڑیوں بیڑیوں کے نشان ان کے جسم پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو گئے۔

\"imran-khan-exercise\"

آج پختونوں نے اپنے ووٹ سے اپنی قیادت کی پگڑی کپتان کے سر رکھی ہے۔ ہمارے صوبے کا وزیراعلی روڈ پر آنسو گیس کھاتا پھر رہا ہے۔ کپتان جو اس کے اپنے بقول تقریباً نظر بند ہے، ڈنڈ بیٹھکیں لگانے کو آزاد ہے۔ سپریم کورٹ جانے سے انکاری ہے کہ اسے گرفتاری کا خدشہ ہے۔ اگر وہ پہلے ہی گرفتار ہے تو اب کس گرفتاری سے ڈرتا ہے۔ اپنے کارکنوں کے ساتھ روڈ پر کیوں نہیں کھڑا۔ اگر خود بند ہے تو پرائے بچوں روڈ پر کیوں کٹوا رہا ہے۔

کپتان جانتا ہی نہیں کہ لیڈر ہونے کا تقاضہ کیا ہے۔ یہ بھی شدت پسندوں جیسا ہی ہے جو پرائے بچوں کو مروا تے ہیں۔ پاکستان میں ہماری ایک تاریخ ہے کہ لیڈر اپنے کارکن کے ساتھ ہی کھڑا ہوا ہے بلکہ مرا بھی ہے۔ بے نظیر بھٹو شہید اپنے کارکنوں کے ساتھ ان کے درمیان شہید ہوئیں۔ غلطی شاید ہم لوگوں سے ہی ہوئی ہے سیاست اناڑیوں کھلاڑیوں کا کام ہی نہیں۔ یہ ان کا کام ہے جو اپنے کارکنوں کے ساتھ جینا مرنا جانتے ہیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments