کروانا وائرس اور ہماری قومی ذمے داری


کرونا وائرس نام کی وبا ء کو دنیا بھر میں پھیلے گرچہ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تاہم اس کے اثرات نے لوگوں کے دل و دماغ پر جو نقوش چھوڑے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا قرین قیاس نہ ہوگا کہ آج کے دور میں سانس لینے والا ہر زی ہوش انسان لفظ کرونا کو تادم مرگ اپنے دل و دماغ سے محو نہ کرپائے گا۔ یہ گذشتہ برس اوائل دسمبر کی یا نومبر کے اختتام کی بات ہے جب عوام الناس نے لفظ کرونا پہلی بار سنا تاہم اس وقت تک لوگوں کو اس بیماری کی شدت کا زیادہ اندازہ نہ تھا اور اس حوالے سے زیادہ تک خبریں چین کے صوبے ووہان تک ہی محدود تھیں، مگر سال دو ہزار بیس کے آغاز سے کرونا کی وباسرحدی پابندیوں سے آزاد ہوتی چلی گئی اور فروری سے گزرتے گزرتے مارچ کے مہینے میں تو کرونا پاکستان میں بھی بن بلائے مہمان کی طرح آکے براجمان ہونے لگا ہے۔ یہ ایک ایسا مہمان ہے جس سے جان چھڑانے کی ہر ممکن کوششیں کی جارہی ہیں اور امید واثق بھی یہ ہی ہے کہ کرونا جلد ہمارے ملک تو کیا دنیا بھر سے رفو چکر ہوجائے گا تاہم جاتے جاتے یہ اور کتنی تباہ کاریاں مچائے گا اس سلسلے میں ہم سب دل کی اتاہ گہرائیوں سے بس دعا ہی کرسکتے ہیں۔

یوں تو کرونا کے بچاؤ کے حوالے سے احتیاطی تدابیر بتانے کا کام میڈیا بڑی خوبی سے انجام دے رہا ہے اور اس نیک کام میں میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی اپنا کام کررہا ہے تاہم جس طرح کسی بھی دوا کا اوور ڈوز اس کے فائدے کو نقصان میں تبدیل کردیتا ہے اسی طرح سوشل میڈیا پر بھی آزادی اظہار کے نام پر جس کا جو جی چاہتا ہے پوسٹ کردیتا ہے یہ سوچے بنا کہ یہ چیز آیا واقعتاً فائدہ مند ہوگی بھی یا نہیں۔ ویسے تو سوشل میڈیا کے اس انداز کے ہم سے عادی ہی ہوچکے ہیں تاہم جب بات انسانی جان کی آجائے تو یہ بات قابل قبول نہیں رہ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا کی ہی ایک شاخ واٹس ایپ اس معاملے میں سب سے سے آگے نظر آتی ہے۔ واٹس ایپ کے ذریعے جس کا جو جی چاہے وہ وائس کلپ کی صورت اپنا پیغام ریکارڈ کردیتا ہے اور باقی کے بھولے بھالے لوگ اس میسج کی حقیقت معلوم کیے بنا میسج کو آگے فارورڈ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ ویسے تو اس حوالے سے کرونا کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں مگر اس صورت میں ہم اپنے اصل موضوع سے دور ہوسکتے ہیں اس لیے کرونا کے حوالے سے ہی بات کرتے ہیں۔

گذشتہ دنوں ہماری ایک عزیزہ نے ہم کو کرونا کے بچاؤ حوالے سے ایک میسج بھیجا جس میں بہت سی سبزیوں اور پھلوں کے ملاپ سے تیار کردہ ایک شربت بنانے کا طریقہ بتایا تھا جس کو استعمال کرنے سے کرونا کی وبا سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ جب ہم نے اس میسج کے حوالے سے ان سے استفسار کیا تو انھوں نے نہایت معصومیت سے ہم کو جواب دیا کہ وہ میسج میں نے پڑھے بغیر ہی فارورڈ کردیا تھا کہ کرونا کے حوالے سے کسی کو فائدہ ہوجائے گا۔

اب اس سلسلے میں بھیجنے والے کی نیت پر تو ایک فیصد بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا، انھوں نے یقیناٍ نیک نیت کے ساتھ یہ یہ میسج بھیجا ہوگا مگر یہ گزارش ضرور کی جاسکتی ہے اگر کوئی بھی میسج ہمارے پاس آئے تو پہلے ایک بار اس کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ لینے میں بھی کوئی حرج تو نہیں۔ دوسری جانب کرونا کے حوالے سے جو صوتی پیغامات کا ایک سیلاب آیا ہوا اس کی روک تھام بھی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایک جانب ان پیغامات سے جہاں بہت سی مفید معلوموت بھی سننے کو ملتی ہیں تو دوسری جانب یہ پیغامات عوام النا س میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔

اس کی ایک سادہ سی مثال کذشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے یہ پیغامات ہیں جن میں حکومت کی جانب سے صوبے بھر میں لاک ڈاؤن کی خبریں اور متعدد سوپر اسٹورز کے بند کیے جانے کی خبریں ہیں۔ یہ بات کسی حد تک ٹھیک ہے کہ میڈیا پر غیر ضروری طور گھروں سے باہر نکلنے سے روکا گیا ہے اور ساتھ ہی ضروری راشن بھی گھر میں رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں تھا کہ اپنے گھروں میں راشن کا ڈھیر لگالیا جائے اور غریب غربا کے لیے کچھ نہ چھوڑا جائے۔

اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اگر آپ امیر ہیں راشن اسٹور کی استطاعت رکھتے ہیں تو آپ کرونا سے بچ جائیں اوربالآخر کرونا بھی غریبوں کی بیماری قرار پائے گا۔ اس حوالے سے اگر دیگر ممالک کی جانب نظر دوڑائی جائے تو وہاں حکومت خود ایسے اقدامات کرتی نظر آئی ہے کہ کم آمدن والے طبقے کو بھی ضروری راشن کی فراہمی کو ممکن بنایا جائے۔ پڑوسی ملک چائنا کی ہی مثال لے لیں جنھوں نے مشکل ترین حالات میں بھی ہوسٹل اور گھروں میں محصور لوگوں کو ضروری غذا کا حصول ممکن بنایا۔

یہ ہی وجہ ہے کہ چائنا میں نوے فیصد کرونا وائرس کی بیماری پر قابو پایا جاچکا ہے۔ یہ ہی حال پڑوسی ملک بھارت کا بھی ہے جہاں اس وبا کی روک تھام یقینی بنائی گئی ہو یا نہیں مگر اس حوالے سے چلنے والی خبروں پر حکومتی کنٹرول ضرور دیکھا جاسکتا ہے۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے بس یہ ہی گزارش کرنے کو جی چاہتا ہے کہ خدارا گھروں میں راشن کے ڈھیر لگاتے ہوئے ایک لمحے کو ان لوگوں کا بھی سوچ لیں جو روز کے روز کماتے اور کھاتے ہیں جن کے بینکوں میں اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ اپنے لیے آٹا چینی چاول ذخیرہ کرسکیں۔ کیا ان حالات میں یہ ہماری قومی ذمے داری نہیں بنتی کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی سوچیں زیادہ نہیں تو کچھ تو رقم ان لوگوں کی مدد کے لیے خرچ کریں تاکہ ملک سے اس وبا کا خاتمہ کرنے میں آسانی ہو اب آپ ہی بتائیں کیا یہ ہم سب کی قومی ذمے داری نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments