وزیر اعلیٰ پنجاب کدھر ہیں؟


تازہ ترین صورتحال یہ ہے کے 5 روپے والا ماسک 25 روپے کا ہو گیا ہے۔ ہینڈ سینیٹائزرز مہنگے اور ختم ہو گئے ہیں۔ کچھ لوگ اتنے خبطی ہو گئے ہیں کہ ڈھیروں ماسکس اور سینیٹائزرز کا ذخیرہ کر رہے ہیں اور کئی کر بھی چکے ہیں۔ کوئی فارمیسی ایسی نہیں جہاں آپ جائیں اور آپ کو بروقت ماسک یا سینیٹائزر میسر ہو۔ وہاں پہ موجود لوگ کہتے ہیں کل سٹاک آئے گا اور آپ اگلے دن جائیں گے تو بولیں گے کہ مال ختم ہو گیا ہے۔ اور اگر معجزاتی طور پر اپ کو آپ کی ضرورت کی چیز مل بھی جاتی ہے تو وہ مہنگی ہے۔

ضلعی حکومت زور انہی چیزوں پہ دے رہی ہے اور عوام کا کام ہی حکومت کی دی گئی ہدایات پر عمل درآمد کرنا ہے۔ لیکن ان کی دستیابی کو یقینی بنانے کا کام تو ضلعی حکومت کا ہی ہے نہ؟ چلیں مان لیتے ہیں لاہور کی آبادی اتنی ہے کہ سٹاک کی قلت ہو سکتی ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ پنجاب قیمتوں کا نوٹس تو لے سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے 25 روپے کی قیمت کا ماسک آپ کے لئے اتنی اھمیت نہ رکھتا ہو لیکن غریب آدمی کے لئے 5 روپے بھی بہت اھم ہوتے ہیں۔

ماسک سے ہٹ کے بات کروں تو مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ جراثیم کش چھوٹے سے سینیٹائزر کی قیمت 180 روپے ہے اور یہ ایک لوکل کمپنی کے سینیٹائزر کی قیمت ہے۔ اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ سینیٹائزر جراثیم مارے بھی کہ نہیں۔ اور یہ قیمت اس وقت بڑھائی گئی ہے جس وقت اس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

اگر ہم 10 سال پیچھے چلے جائیں تو 2010 کے آخر اور 2011 کے شروع میں ڈینگی بخار نے سر اٹھایا تھا۔ آئے روز اسپتالوں میں ڈینگی کے مریض ڈھیروں کی تعداد میں داخل ہوتے تھے۔ اس وقت ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ڈینگی کے لئے خاص دوا ”پیناڈول“ بتائئی گئی تھی اور سیب کا جوس مریضوں اور سب کے لئے پینا لازمی قرار دیا تھا۔ فارمیسی مالکان کی چاندی لگی اور ایک پیناڈول کے پتے کی قیمت 150 روپے کے قریب ہو گئی۔ جبکہ اس وباء سے پہلے اس دوائی کا ایک پتہ 12 روپے کا دستیاب تھا اور ابھی بھی ہے۔

اور سیب کی قیمت کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں نے پیناڈول اور سیب سنبھال کے رکھ لئے اور مہنگے دام بیچنے لگے۔ جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں محمد شہباز شریف کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے بغیر وقت ضائع کیے اپنی ٹیم کو چھاپے مارنے اور ذخیرہ اندوزوں کو بھاری جرمانے اور خبردار کرنے کی ہدایات دیں۔ عوام کے لئے ڈینگی کا ٹیسٹ وزیراعلٰی پنجاب نے 90 روپے کا کر دیا۔ جگہ جگہ ضلعی حکومت کی جانب سے ڈینگی مار سپرے ہونے لگے اور حکومت کا ڈینگی آگاہی پروگرام جاری ہو گیا۔ میں اس وقت نویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ میرا سکول گورنمنٹ تھا تو حکومت پنجاب کی طرف سے لوگ سکول کے سیمینار میں آ کر طالبات میں مچھر مار لوشن بانٹتے تھے جو سیمپل کے طور پر ملتے تھے اور ہم اس کو لگا لیتے تھے جبکہ گھر والوں کے لئے بھی لے جاتے تھے۔

ڈینگی کے برعکس کرونا ایک بہت بڑی وبا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے دوائی موجود نہیں بلکہ احتیاطی تدابیر اپنائی جا سکتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب عثمان بزدار کی جانب سے ابھی تک مہنگی بیچی جانے والی چیزوں پہ کوئی نوٹس یا ان چیزوں کی دستیابی کا کوئی اقدام سامنے نہیں آیا۔ نہ ہی ان کی جانب سے اپنے صوبے کی عوام کے لئے کوئی پیغام آیا ہے۔ لیکن حکومت کی جانب سے مختلف طرح سے آگاہی دی جارہی ہے۔ لیکن یہ ہر ملک کی حکومت کر رہی ہے اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ البتہ لاہوریوں کے لئے ان کے وزیر اعلیٰ کی طرف سے جاری ہدایات اور اقدامات خاص ہوتے ہیں کیونکہ لاہوریوں کو اپنے وزیراعلیٰ سے لاڈ پیار کی عادت پڑی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments