کرونا وائرس: یہ عبادت گاہیں بند کرنے کی نہیں، اللہ سے رجوع کرنے کی گھڑی ہے


دنیا اور اس کی رنگینیاں، اس پر موجود مخلوقات کی آبادیاں، سبزہ زاروں چمن زاروں کے خوبصورت مناظر، سمندروں ودریاؤں کی مچلتی ہوئی بے تاب لہریں، بلند وبالا کوہساروں کے طویل سلسلے، دوڑتی بھاگتی ہوئی کردار وعمل کی متحرک شعاعیں، روز وشب کے ہنگام میں ذاتی مفادات کے حصار میں قید اور پست وعارضی مقاصد میں سرگرم انسانی قافلوں کی کائنات۔ ہر وقت متحرک، ہر آن متغیر اور ہر لمحہ تبدیل وتنسیخ، اور عروج وزوال کی طرف ہمہ وقت محو سفر ہے،

یہ فلسفہ اس قدر واضح ہے اور اس قدر حقیقت کا مظہر ہے کہ آج تک کسی مادہ پرست، کسی ملحد و ظاہر پرست کسی ریسرچ اسکالر یا کسی مذہب بیزار کو اس سے انکار کی جرأت پیدا نہیں ہوسکی۔

اسباب و علل اور تغیرات حوادث کی اس دنیا میں صحت مند انسانی معاشرہ اور ارتقاء آشنا سماج وملک کے لئے ضروری ہے ’کہ نشیب و فراز کی اس رہ گزر میں زندگی کی صاف ستھری وہموار شاہراہ سے لے کر سنگلاخ راہوں تک ہر انسان اعتدال و توازن اور انصاف ومساوات کے انسانی عناصر کو سفر کا بنیادی اثاثہ اور اساسی سرمایہ قرار دے۔

تاکہ قدرت کی طرف سے مقرر کردہ سزاؤں اور مکافات عمل سے محفوظ رہے، لیکن طاقت کے نشے میں، حکومت کے خمار میں، معیشت واقتصاد ی استحکام کے زعم میں، عسکری قوتوں اور ملکوں کو تاراج کرنے والے اسلحہ جات کی متنوع مصنوعات اور مختلف تباہ کن آلات حرب وضرب کے غرور میں انسان خدا کی قوتوں کو بھول جاتا ہے، اور خود کو انسانیت سے بالا سمجھتا ہے ’، خود کو خدائی منصب پر تصور کرکے صحیح وغلط اور انسانی وغیر انسانی، اختیارات کا استعمال اپنا حق سمجھتا ہے‘ ، مال ودولت، خطے وعلاقے، ملک ووطن، جاہ و منصب غرض دنیا کے تمام وسائل عشرت، کی ہوس کے لئے وہ اخلاقیات کو پس پشت ڈالتا ہے ’، دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہے‘ ، سازشیں کرتا ہے ’، زمیں دوز کارروائیوں میں سرگرم ہوتا ہے‘ ، راہزنی وڈاکہ زنی کرتا ہے ’، ظلم وتشدد اور قتل غارت گری اور نقض امن کے سیاہ کرداروں کو اپناتا ہے‘ ، ہوس پرستی اور مادہ پرستی میں نہ اسے انسانیت یاد رہتی ہے ’نہ آدمیت واخلاق، نہ زمانے کی اور زندگی کی حوادثات آشنا صداقتوں کی روشنی اس کی نگاہوں میں رہتی ہے اور نہ ہی پروردگار عالم کے لامحدود اختیارات اور خلاق عالم کی قدرت وطاقت کی طرف اس کی نظر۔

یہی وجہ ہے کہ تاریخی شواھد کے مطابق دنیا کی وہ تمام سپر پاور طاقتیں جن کے دلوں میں خداوند عالم کی خلاقیت اس کی ربوبیت اور اس کی معبودیت کی شمعیں روشن نہیں تھیں۔

عیش و عشرت ہی جن کی زندگی کا نصب العین، وسائل واسباب اور اس کی ظاہری خصوصیات پر ہی جن کا یقین اور ان کا حصول ہی جن کا مقصد، علاقوں ملکوں اور خطوں پر کشور کشائی جن کا ہدف تھا، انھوں نے ذاتی مفادات اور ملک گیری کی ہوس اور حکمرانی کی حرص میں کہیں بستیاں تہ وبالا کیں، کہیں آبادیوں کو زیر وزبر کیا، کہیں ملکوں کو تاراج کیا، تو کہیں خود اپنے علاقوں میں انسانیت کے ساتھ قتل وخون ریزی کی بدترین تاریخ رقم کیں، ظلم وبربریت اور جبر و استبداد کے نتیجے میں جب فضائیں لہو لہو اور انسانی اجسام زخم زخم ہوگئے، تو قدرت الہی کی غیر مرئی طاقتیں کہیں زلزلے، کہیں سونامی، کہیں طوفانی بارشوں، کہیں آسمانی بجلیوں اور کہیں امراض کی وباؤں کی شکل میں عذاب بن کر ان پر نازل ہوئیں اور انہیں اس صفحہ ہستی سے مٹا کر اہل دنیا کے لئے نشان عبرت بنا دیا۔

اس وقت پوری دنیا کرونا وائرس کے تیز رفتار اور اس کے مہلک ا ثرات سے سہمی ہوئی ہے، 19 دسمبر سے چائنا میں ظاہر ہونے والی اس وبا نے دنیا کے ڈیڑھ سو ممالک کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے’، حکومتیں سراسیمہ ہیں، اہل اقتدار خوفزدہ ہیں، ہاسپٹل آباد ہیں مگر اداروں میں خاک اڑ رہی ہے‘، اسکول کالجز میں تالا لگ چکا ہے، سپر مارکیٹس ویران، ہیں سیاحت گاہوں میں سناٹوں کا راج ہے ’، قحبہ خانے خاموش ہیں، مے خانے بے رونق ہیں، چائنا سے لے کر دنیا کے اکثر ممالک کی معیشت چرمرا کر رہ گئی ہے، غرض ہنگام زندگی پر اداسیوں، اور مایوسیوں کی ایسی اوس پڑی ہوئی ہے کہ معاشرتی زندگی سے لے کر انفرادی زندگی تک کا کارواں بالکل رک گیا ہے۔

پوری دنیا کی طاقتوں نے انسداد کرونا کے لئے تمام وسائل تمام تدبیریں اختیار کرلی ہیں مگر اب کامیابیوں کی منزلیں روپوش ہیں، امریکی میڈیکل ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ وائرس کی بندش کے لئے اینٹی وائرس کے ایجاد میں ایک سال درکار ہے اور حال یہ ہے ’کہ اس مرض کے برق رفتار اثرات کے باعث اپریل کے آغاز تک پوری دنیا کی معیشت زیر و زبر ہوکر جائے گی۔

ایک دانشور جس کی نگاہیں ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ انسان کے مکافات عمل پر بھی پڑتی ہیں ان پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ روئے زمین پر جب ظلم کا دور دورہ ہوتا ہے ’، ہوس کی حکمرانی ہوتی ہے، کمزورں کا استحصال ہوتا ہے‘ ، انسانیت کے ساتھ حیوانیت کا سلوک ہوتاہے، خدا کی زمین پر خدا کے بندوں کے ساتھ سفاکانہ عمل ہوتا ہے ’، عصمتیں تار تار ہوتی ہیں، اخلاق پامال ہوتے ہیں، انسانیت رسوا ہوتی ہے’، خداوندعالم کی قدرت کو چیلنج کیا جاتا ہے، عیاشیاں عام ہوتی ہیں، تو اس کے نتیجے میں مختلف صورتوں میں عذاب الٰہی کے ہلکے سے جھٹکے آتے ہیں اور انسان کی بنائی ہوئی تمام تدابیر کو اور منصوبوں کو خاک میں ملا کر یہ آواز دیتے ہیں کہ روئے زمین پر ساری مخلوقات اسی ایک ہستی کی مرضی کے تابع ہیں جس نے انہیں وجود بخشا ہے، خود انسانی وجود اور کا باغ ہستی اور اس کی رونقیں اسی کی مشیت کی رہین منت ہیں وہ جب چاہے اس باغ کو بہاروں سے آشنا کردے اور جب چاہے اس میں طوفانوں کی صورت میں خزاں کی ہوائیں بھیج کر ویران کر دے،

کون نہیں جانتا کہ چائنا میں مخصوص انسانوں کے ساتھ سفاکیت وجارحیت اور غیر انسانی سلوک کا سلسلہ ایک عرصہ سے محض اس بنیاد پر جاری تھا کہ انھوں نے وحدہ لاشریک پر ایمان کا اظہار کیا تھا، ان پر اقتدار کی طرف سے بے جا پابندیوں کا ایک طومار تھا، اذانوں پر پابندیاں تھیں نمازوں پر قدغن تھی، مساجد کی بے حرمتی سرعام تھی، جمہوری آزادیاں سلب تھیں، اسلامی کلچر وہاں جرم تھا، مسلمانیت ناقابل قبول تھی، وحدانیت کی آواز جرم تھی۔ اسکارف اور مذہبی لباس اور فطری پیراہن پر سزائیں متعین تھیں، ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مسلمانوں سے وہاں کی جیلیں اور ڈیٹینشن کیمپ آباد تھے، ان کے گھر ویران تھے، اس روئے زمین پر ان مظلوموں کی صدائے فریاد کے لئے پوری دنیا میں سماعتوں کی گنجائش نہیں تھی سوائے اس ذات رب العالمین کے جس کے یہاں دیر ہے ’اندھیر نہیں۔ بالآخر آلات ووسائل سے لیس اصحاب اقتدار پر قدرت کی مار پڑی اور اس طرح پڑی کہ پورا ملک شکست وریخت سے دوچار ہوکر رہ گیا۔

کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس امریکہ کی سازشوں کا نتیجہ ہے کہ چین اس وقت معاشی لحاظ سے دنیا میں نمبر ایک پر جارہا تھا اور سپر پاور کی منزل اب اس کے قدموں میں تھی چائنا کی مصنوعات دنیا کے 126 ممالک میں پھیلی ہوئی تھی جبکہ امریکہ سپر پاور ہونے کے باوجود اس کی مصنوعات صرف 56 ملکوں میں محصور تھی۔ یہ بات امریکہ جیسے ہوس پرست کو کسی طرح گوارا نہیں تھی اس نے کئی بار سازش کی کہ چین کی معیشت پر پابندی عائد ہوجائے مگر ناکام رہا، بالآخر اس نے برطانیہ اور اسرائیل کو ساتھ لے کر طے شدہ پلان کے مطابق چین کے شہر ووہان میں دو ماہ قبل ملٹری ریہرسل کے دوران تباہ کن وائرس چھوڑ دیا اور امریکی فوجیوں کے وہاں سے جاتے ہی اس وائرس نے پوری حشر سامانیوں کے ساتھ سراٹھایا جب تک چین صورت حال کو سمجھتا امریکی میڈیا نے اس وبا کی تشہیر میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیے، یہ پلان اس طرح کامیاب ہوا کہ چین دنیا میں تمام تجارتی ومعاشی ملکوں سے کٹ کر اچھوت بن گیا۔

اس رپورٹ میں کتنی صداقت ہے یہ تو آنے والا وقت بتا دے گا، مگر اس وبا کے انتشار کے نتیجے میں ایشیا سے یورپ تک جو سراسیمگی پھیلی ہے ’اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے وہ ممالک جو مادیت پر ایمان رکھتے ہیں، روحانیت اور خدائی طاقتیں جن کے یہاں کوئی معنی نہیں رکھتیں، ان کی ظاہری تدبیریں، زندگی کے کاروبار پر ان کی پابندیاں تو توقع کے عین مطابق ہے۔ مگر غضب یہ ہے‘ کہ جو ممالک خصوصاً عالم عرب جن کی زبانیں توحید کے نعروں سے نہیں تھکتی تھیں

غیر اللہ سے عقیدت بھی جن کے یہاں جرم تھا، خاصان خدا اور برگزیدہ شخصیات کا وسیلہ بھی جن کے یہاں گناہ عظیم اور شرک تھا، واحدانیت کے خمار میں اسلاف کے نشانات کا وجود بھی جن کے نزدیک ناقابل برداشت تھا، انھیں کیا ہو گیا، کہ مسلک توحید کو چھوڑ کر مادیت پر یقین کر بیٹھے، اور ظاہری اسباب پر اعتماد کرکے خدا کی قدرت اور قضا وقدر کے نظریات کو یکلخت پس پشت ڈال دیا،

سچ ہے جب انسان کی زندگی عیش پرست ہو جاتی ہے ’، جب دنیا کی دولتیں بارشوں کی طرح زندگی کے ارد گرد برسنے لگتی ہیں تو زندگی کی آرزوئیں اور امیدیں لامحدود ہوجاتی ہیں، اسے زندگی اور دنیا کے ہنگاموں سے اس قدر عشق ہوتا ہے کہ اسلامی فلسفہ اور روحانی اقدار کی اس کی نگاہوں میں اہمیت نہیں رہ جاتی ہے اب سارا ایمان سارا یقین مادیت پر ہوجاتا ہے‘ ، ظاہری تدبیروں میں ہی اسے کامیابی نظر آتی ہے، اس وقت عالم عرب کا حال بالکل اسی طرح کا ہے ’، انھوں نے جس طرح غیبی قوت کو ٹھوکر مار کر مادیت پر یقین کا ثبوت پیش کیا ہے ’ جس طرح طرح انھوں نے بیت اللہ میں طواف اور نماز پر پابندی عائد کی ہے، جس طرح مساجد کو مقفل کیا ہے

جس بے حسی اور بے ضمیری کے ساتھ جمعہ وجماعت پر پابندی عائد کی ہے، جس انداز سے اذانوں میں ترمیم کی ہے ’وہ امت مسلمہ کی پیشانی پر انتہائی بدنما داغ ہے‘ جس کی وجہ سے اسلامی فلسفہ اسلامی تعلیماتِ اسلام کی حقانیت، اور اس کی آفاقیت وعالمگیریت جہاں مجروح ہوئی ہے وہیں ملت اسلامیہ کا سر شرم سے جھک گیا ہے ’ان مادہ پرستوں کے اس عمل سے پہلی بار دنیا میں یہ پیغام عام ہوا ہے کہ اجتماعی وبا اور شدت حالات میں اسلام کے پاس مضبوط تعلیم اور ٹھوس رہنمائی موجود نہیں ہے۔

جس نظام حیات میں جہاد کے ہنگامی حالات میں نماز کی عظیم الشان عبادت معاف نہیں ہے اور بالکل صراحت کے ساتھ قران میں اس کا طریقہ بھی بتایا گیا ہو کہ ”جب آپ میدان جہاد میں ہوں تو آپ ان کے ساتھ جماعت کی نماز قائم کریں پھر ان میں سے ایک جماعت نماز میں شریک رہے اور دوسری معرکہ کارزار میں (النساء 102 )

اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ حوادثات اور اجتماعی بیماریاں انسانوں کے ظالمانہ نظام ان کے غیر اخلاقی رویوں اور ان کے برے اعمال وافعال کا نتیجہ ہوتی ہیں ”جو کچھ بھی مصائب پریشانیاں، اور کلفتیں نمودار ہوتی ہیں وہ تمہارے ہی کرداروں کا نتیجہ تو ہے ’ (شوری آیت نمبر 30 )

قضا و قدر کا مسئلہ کائنات میں ایک ایسی حقیقت ہے جس پر اہل ایمان کے علاوہ اہل دنیا اور ظاہر پرست بھی اس پر یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ موت وحیات سے لے کر دنیا کے تمام ہنگاموں اور کاروبار روز وشب کے حرکت وعمل کا کوئی وقت متعین نہیں ہے عالم وجود کب فنا کی سرنگوں میں روپوش ہوجائے اس کے علم کا کون دعویٰ کرسکتا ہے ’قران کی زبان میں اس حقیقت کو کتنے واضح انداز میں ذکر کیا گیا ہے ”

آپ ان سے کہ دیں اگر تم اپنے گھروں میں رہو گے تب بھی تمہارے مقدر میں لکھی ہوئی موت تمہاری خواب گاہوں تک آکر رہے گی (آل عمران 154 )

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تو ان حالات میں یہ فرمان ہے کہ ”اگر ساری دنیا تمہیں منفعت سے آراستہ کرنے کے لئے تیار ہوجائے تو اتنا ہی تمہیں فائدہ پہونچا سکتی ہے ’جتنا تقدیر نے تمہارے حصہ میں لکھ دیا ہے‘ ، اور روئے زمین کی ساری طاقتیں تمہیں تباہ کرنے پرکمر کس لیں تو اس سے زیادہ وہ تمہیں نقصان قطعاً نہیں پہونچا سکتی ہیں کاتب تقدیر نے جس قدر تمہاری زندگی میں لکھ دیا ہے ’ (ترمذی)

اس قدر واضح تعلیمات کے باوجود یہ کس قدر حیرت انگیز اور افسوسناک واقعہ ہے کہ اسلام کے علمبرداروں نے غیر اللہ سے استعانت اور اس طرف عقیدت کی نگاہوں سے نظر کرنے کی شدت سے مخالفت کا نعرہ لگانے والے نام نہاد موحدین نے آفت سماوی کی ایک آزمائش میں قضا و قدر کی حقیقتوں سے منھ موڑ کر اپنی پیشانیاں مادی صنم خانوں میں جھکا کر یہ اعلان کردیا کہ ہماری وحدانیت کا فلسفہ اور نظریات کا تعلق صرف اوراق تک محدود ہے ’عملی اور زمینی دنیا سے اس کا تعلق نہیں ہے، قرآن تو یہ کہ رہا ہے‘ کہ جب آزمائشیں آئیں، حالات کی ہوائیں مخالف ہوجائیں، پریشانیاں وباؤں کی صورت میں پھیل جائیں تو صبر اور نماز سے مدد اور نصرت حاصل کرو یقینا اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے (البقرۃ آیت نمبر 153 )

مگر یہ کیسا ایمان ہے ’یہ کیسا یقین ہے اور اسلام کی یہ کیسی تصویر ہے‘ کہ اس کے علمبرداروں نے اس کے پیروکاروں نے اسی نماز جیسی عظیم عبادتوں کی تصویریں مسخ کردیں، اس کی عبادت گاہوں کو ہی سیل کرڈالا، ہونا تو یہ چاہیے تھا لوگوں کو مزید اس طرف متوجہ کیا جاتا، اس کی ترغیب دی جاتی، دعاؤں کا اہتمام کیا جاتا، جیسا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار تھا کہ ہواؤں کے سخت تیور اور پریشانیوں کے وقت وہ نماز کے لیے مسجد کی طرف دوڑ جاتے تھے، ان بے بصیرت اور اسلامی مزاج وروح سے نا آشنا مادہ پرست شاہان عرب کو کون بتائے کہ ان کے اس غیر اسلامی عمل کے باعث دوسرے ممالک میں کیسے تباہ کن اثرات ظاہر ہوئے ہیں، اور وہ شدت پسند عناصر اسلام کے خلاف منصوبہ بندیاں جن کا نصب العین ہیں ان کو اس سے حوصلہ ملا اور اپنے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے ایک حربہ ہاتھ آگیا ہے ’، چنانچہ حال ہی میں بی جے پی لیڈر پرگیہ سادھوی نے یہ آواز اٹھائی کہ ہندوستان میں بھی مسجدوں کو بند کرنا چاہیے، اور یہاں بھی جماعت کے ساتھ نمازوں پر پابندیاں عائد ہونی چاہیے،

اس کے برعکس جس ملک سے وبا کا یہ طوفان اٹھا ہے ’وہاں شدت پسندوں اور مذہب کے حوالے انتہا پسند قوتوں کی نگاہوں میں یہ حقیقت آشکارا ہو گئی ہے کہ مذہب اور ایمان کے علاوہ خداوندعالم کی دستگیری کے بغیر پروردگار عالم کی رحمت کے سوا دنیا کی کوئی طاقت کوئی قوت، وسائل وذرائع کا کوئی جہان اس لائق نہیں ہے کہ وہ حوادثات ومصائب کے طوفانوں میں ساحلوں سے ہم کنار کردے چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ وہاں ماحول کی سنگینی اور حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر معبود حقیقی کی طرف اہل اسلام کے ساتھ ساتھ شرک والحاد کے علمبردار بھی متوجہ ہوگیے وہ مساجد جو عرصہ سے بند تھیں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں سے بھی آباد ہوگئیں، ظلم وجبر کی آندھیاں جو پوری طاقت سے مسلمانوں پر چل رہی تھیں ان کی شدتوں میں کمی آگئی، وہ اذہان جس میں اسلام و مسلمانوں سے متعلق نفرتوں کے شعلے تھے ان میں اسلام کی محبتیں گھر کرگئیں، جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہوگئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے‘ ،

کاش عرب حکمرانوں کے دل ان خوبصورت اور چائنا کے حوصلہ افزا مناظر سے سبق حاصل کرلیتے اور دور جدید کی تمام ظاہری تدبیروں کے ساتھ عبادت گاہوں پر قدغن نہ لگا کر رشتہ خدا کے استحکام کا راستہ ہموار کرتے، روحانیت کی فضا قائم کرکے خدا کی رحمتوں کے لئے ماحول کو سازگار کرتے تاکہ رب دوجہاں کی غیبی نصرتوں کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کی آبرو اور اس کی حقانیت کا آفتاب بھی نصف النہار پر باقی رہتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments