کرونا وائرس اور معاشرتی اقدار کا جنازہ


کرونا وائرس نے دنیا کے 160 سے زائد ممالک میں ڈیرے جما لئے ہیں۔ دنیا میں مختلف ممالک نے اس کی روک تھام کے لئے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔ یورپ کی ”کافر“ کمپنیوں نے Sanitizers بنانے کی مقدار میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اسے مفت تقسیم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ لیکن پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سن کر شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ مسلمان کہلانے والے کیا کر رہے ہیں۔ منافع خور ماسک اور سینیٹائزر کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ کر بیٹھے ہیں۔ ابھی تو اس وبا کا علاج دریافت نہیں ہوا ورنہ اس کی دوا حاصل کرنے کے لئے پتہ نہیں کتنے ہی پاپڑ بیلنے پڑتے۔

اس وبائی مرض کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کعبہ شریف میں طواف بھی روک دیا گیا۔ عرب ممالک میں مساجد سے آذان میں اس اعلان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے جس میں لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ نیز بعض عرب ممالک میں جمعہ پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام نہاد عالم دین کی ویڈیو ہے جو فرماتے ہیں کہ ان کے مذہبی جلسہ میں شامل ہوں اس میں شامل ہونے سے کسی کو اس وباء کا اثر نہیں ہوگا۔ اگر وبا کا اثر ہوا تو وہ ذمہ دار ہیں۔ ایک طرف ان جاہل علماء کے دعوے ہیں جس میں وہ وبا کے باوجود لوگوں کو جلسہ میں شریک ہونے پر زور دے رہے ہیں اور دوسری طرف رسول خدا ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ وبا کے علاقہ میں نہ جاؤ۔ حدیث کی مستند ترین کتاب میں یہ حدیث درج ہے کہ

” جب بھی کسی علاقے میں طاعون پھیلنے کی خبر سنو تو وہاں مت جاؤ، اور اگر جس علاقے میں تم موجود ہو وہاں پر طاعون پھوٹ پڑے تو وہاں سے ڈر کر باہر مت بھاگو۔ “

اب وقت ہے کہ پاکستان کے عوام سوچ سمجھ کر فیصلہ کر یں کہ کس کی بات مانیں؟

یہ سب کچھ تو اس بات کے سامنے حیثیت نہیں رکھتا جو اب بیان کرنا چاہتا ہوں۔ وہ دراصل ہماری اجتماعی سوچ کی غماضی کرتا بیان ہے۔ سوشل میڈیا کی سائٹ ٹویٹر پر ایک صارف نے ٹویٹ کی کہ

”یا اللہ پاک سب قادیانیوں کو کرونا وائرس میں مبتلا فرما۔ آمین ثم آمین“

اس ٹویٹ کے نیچے دیے گئے جواب میں آمین اور قادیانیوں کو گالیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ ہے ہماری اخلاقی اور معاشرتی حالت۔ ایک وبا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب بن کر نازل ہوئی ہے اس سے بچنے کے لئے بجائے توبہ کرنے اور عملی اقدامات کرنے کے ہم مختلف عقیدہ رکھنے والے انسانوں کے اس میں مبتلا ہونے کے لئے دعائیں کر رہے ہیں۔ یہ ایک ٹویٹ نہیں بلکہ ہزاروں انسانوں کی آواز تھی۔ اگر ہزاروں کی آواز نہیں تھی تو کم از کم ایک ”دینی مجاہد“ کی آرزو ضرور تھی۔

کیا ہم مخالفت اور دشمنی میں اتنا آگے چلے گئے ہیں کہ رسول خدا کے عملی رویے کو بھول گئے ہیں؟ حضورﷺ کا رویہ کیا تھا اس بارے میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! مشرکوں پر بد دعا کیجئے۔ تو نبی رحمت نے فرمایا : میں لعنت کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں۔ میں تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

مسلمانوں اور رسول اللہ ﷺ کے جانی دشمنوں پر جب قحط کا عذاب آیا تو آپﷺ کا رویہ کیا تھا؟ کیا آپ نے ان کے مرنے کی دعا کی؟ نہیں بلکہ جب ابو سفیان بحالت کفر چند رؤسائے قریش کو ساتھ لے کر آپ ؐکے آستانہ رحمت پر حاضر ہوا اور گڑ گڑ ا کر کہنے لگا کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ) تمہاری قوم برباد ہو گئی، خدا سے دعا کرو کہ یہ قحط کا عذاب ٹل جائے۔ آپ ؐکو ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ وزاری پر رحم آ گیا۔ چنانچہ آپؐ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے فوراً ہی آپ کی دعا مقبول ہوئی اور اس قدر زور دار بارش ہوئی کہ سارا عرب سیراب ہو گیا اور اہل مکہ کو قحط کے عذاب سے نجات ملی۔

آنحضورﷺ جب طائف تشریف لے گئے تو انہوں نے آپؐ سے جو برا سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ کو لہو لہان کر دیا ایسی حالت میں پہاڑوں کے فرشتہ نے آپؐ سے عرض کی: اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں ان دونوں پہاڑوں کو ان کافروں پر گِرا دوں تو میں گِرا دوں گا۔ یہ سُن کر حضور رَحْمتِ عالَم ﷺ نے جواب دیا کہ ایسا نہ کرو بلکہ میں اُمّید کرتا ہوں کہ اللہ پاک ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا جو اللہ پاک کی عبادت کریں گے۔

یہ چند مثالیں ہیں رحمت عالم ﷺ کی اپنے دشمنوں سے سلوک کی۔ اس کے مقابلے پر ہماری قوم اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے کیا دعا مانگ رہی ہے وہ ہمارے سامنے ہے۔ جب کرونا کی ابتدا ہوئی تو سوشل میڈیا پر بے شمار ایسی پوسٹس آئیں کہ یہ عذاب حرام چیزیں کھانے کی وجہ سے آیا۔ باوجود اس کہ کہ تا حال اس وائرس کی ابتدا کا علم نہیں ہوسکا۔ لیکن اس کے مقابلے ہمارے ملک کے ”مسلمان“ منافع خوروں، دھوکے بازوں اور انسانوں کے خلاف بددعائیں کرنے والوں کے بارے میں ہم سب آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ دراصل یہ ہماری مجموعی جہالت اور ہماری عدم رواداری کی تصویر ہے۔ کیا یہ ہماری اقدار ہیں؟ کیا یہ ہماری معاشرتی تصویر ہے؟ کیا یہ ہماری ذمہ داری ہے؟ کیا یہ ہمارا دین ہمیں سیکھاتا ہے؟ سوچنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments