ڈاکٹر مبشر حسن کی باتیں


ان سے ملاقاتوں کا احوال لکھنے بیٹھیں تو یادوں کے کئی بند دریچے کھل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مبشر حسن بڑے انسان تھے۔ بھٹو صاحب کے وزیر خزانہ رہے۔ بعد میں ان سے اصولی موقف پر وزارت چھوڑی۔ جب بھی میں ان سے پوچھتا کہ آپ نے وزارت کیوں چھوڑی کیا بھٹو صاحب آپ کی وزارت میں بطور وزیراعظم مداخلت کرتے تھے وہ نفی میں سر ہلا دیتے۔ ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا۔ پاکستان میں طاقت کے اصل مراکز کہیں اور ہیں۔ یہ وزیراعظم، وزرا تو کٹھ پتلیاں ہیں۔

میں نے بطور وزیر خزانہ ایک آفسر کو تبدیل کیا کیونکہ وہ میرے معیار کے مطابق کام نہیں کر رہا تھا مگر چند دن بعد اسے عدالت نے بحال کر دیا۔ میں نے سوچا ایسی بے اختیار وزارت کا کیا فائدہ جس میں آپ ایک آفسر بھی اپنی مرضی کے مطابق تبدیل نہیں کر سکتے۔ صنعتوں کو سرکاری تحویل میں لینے کے اپنے فیصلے کی ہمیشہ ڈٹ کر حمایت کرتے۔ کہتے تھے کہ مجھے دوبارہ موقع ملا تو ایسے ہی کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب بیوروکریسی کے بڑے سخت مخالف تھے۔

وہ کہتے تھے ہم نے طاقت ور بیوروکریسی کو لگام ڈالنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ سارے سرکاری آفسر جس نظام اور تعلیم نصاب کی پیداوار ہیں وہ عوام دشمن ہے۔ انگریز نے یہ نظام برصغیر میں حکومت کرنے کے لیے بنایا تھا۔ سرکاری آفسروں کی تربیت ایسے کی جاتی تھی وہ عوام کو اپنی رعایا سمجھیں، خود کو حاکم سمجھیں۔ عوام کا خادم بننے کی ان کو کوئی ضرورت نہیں۔ 1940 ء کے بعد پاکستان کے حکمران طبقات نے بھی اسی نظام کو اپنایا انگریز آفسروں کے جانے کے بعد مقامی آفسر جو رنگ کے کالے تھے مگر سوچ گوروں کی اپنا لی اور عوام کے لیے حاکم بن گئے۔ بیوروکریسی کی ہمیشہ سے یہ کوشش ہوتی ہے عوام، عوامی حکومتوں کے عوام دوست منصوبوں کو ناکام کیا جائے۔ صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے والے ہمارے فیصلے کے ساتھ بھی یہی کیا گیا۔

ڈاکٹر مبشر حسن پاکستان کی تاریخ کے واحد وزیر خزانہ تھے جو عالمی مالیاتی اداروں کی بات نہیں مانتے تھے۔ ان کے عوام دشمن اقدامات کی مخالفت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 3 سال ان کی وزارت خزانہ کے دور میں کسی عالمی مالیاتی ادارے کا عمل دخل پاکستانی معیشت میں نہیں تھا۔ وہ بتاتے ہیں جب میں وزیر خزانہ بنا تو ملک مقروض تھا۔ میں نے ایک عالمی ادارے کے آفسر سے کہا ہم تو قرضہ واپس ہی نہیں کر سکتے۔ آپ جو مرضی کر لیں۔ جس پر وہ آفسر ہکا بکا مجھے دیکھتا رہا۔

بھٹو صاحب کے ساتھ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ان کی آنکھوں میں چمک ابھرتی تھی۔ کہتے ہیں بطور وزیراعظم بھٹو صاحب کا خط آیا کہ لاڑکانہ میں بھٹو صاحب کا گھر چونکہ وزیراعظم ہاؤس میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا وہاں سیکورٹی گارڈ کے لیے رہائشی کمرے بنائے جائیں۔ میں نے اس خط پر اعتراض کر دیا اور لکھا کہ لاڑکانہ کا گھر وزیراعظم کا ذاتی ہے اگر سیکورٹی سٹاف کے لیے رہائشی کوارٹرز تعمیر کرنے ہیں تو وزیراعظم اپنی جیب سے کریں۔ جب یہ خط واپس وزیراعظم ہاؤس گیا تو اس پر وزیراعظم بھٹو نے لکھا آپ ٹھیک کہتے ہیں۔ پھر بھٹو صاحب نے کوارٹرز اپنی جیب سے بنوائے۔

ایک بار مجھے کسی نے بتایا کہ لاہور کے شادمان علاقے میں جب ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جا رہی تھی تو خاتونِ اول بیگم نصرت بھٹو کے نام سے دو پلاٹ الاٹ کیے گئے ہیں۔ میں نے یہ بات وزیراعظم بھٹو کو بتائی کہ آپ کی ساکھ پر بہت بڑا دھبہ لگ سکتا ہے جس پر بھٹو صاحب نے فوراً ایکشن لیا اور نصرت بھٹو کے نام سے الاٹ پلاٹ کینسل کرائے۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ بھٹو صاحب تو اپنی ساکھ کی بہت پروا تھی۔ ان کے دماغ کے کسی کونے میں یہ بات نہیں تھی کہ اب وزیراعظم بن گیا ہوں اپنے اثاثوں میں اضافہ کر لوں۔

بھٹو صاحب کو بس ایک خبط تھا کہ میں صرف پاکستان کا وزیراعظم ہی نہ بنوں بلکہ عالم اسلام کا لیڈر بن جاؤں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے لاہو رمیں اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے فیصلے کے حوالے سے میں نے ان سے پوچھا کیا بھٹو صاحب نے یہ فیصلہ کسی اندرونی یا بیرونی دباؤ کے تحت کیا تھا تو انہوں نے وہی جواب دہرایا جو سطور بالا میں لکھا گیا ہے۔ یعنی ان کو عالم اسلام کا لیڈر بننے کا شوق تھا۔

میں نے کہا اس فیصلے کو لاگو کرنے سے پہلے کابینہ میں کوئی صلاح مشورے ہوئے تھے انہوں نے جواب دیا ہاں میں نے مخالفت کی تھی او رکہا تھا آپ ایک غلط روایت ڈال رہے ہیں۔ کل کو آپ کو کہا جائے گا کہ فقہ جعفریہ کے حوالے سے بھی ایسا کریں مگر میری رائے کو سنی ان سنی کیا گیا۔ ایک بار بھٹو صاحب نے مجھے کہا کہ ڈاکٹر صاحب بینکوں کے افسروں کو سیدھا کرنے کے حوالے سے سخت بیان جاری کریں۔ میں نے مذاق سے کہا سخت بیان مصطفی کھر سے دلوائیں۔

1976 ء میں بطور سیکرٹری جنرل پیپلزپارٹی عہدہ چھوڑنے کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں، جب میں نے وزارت چھوڑی تو بھٹو صاحب نے کہا پارٹی کے جنرل سیکرٹری بن جاؤں۔ 1977 ء میں الیکشن کروانا تھے۔ میں نے 1976 ء سے ہی امیدواروں کے انٹرویو شروع کر دیے۔ وہ سارے جاگیردار اور سرمایہ دار جن کو پیپلزپارٹی کے کارکنوں نے 1970 ء کے الیکشن میں ہرایا تھا، وہ ٹکٹ کی درخواستیں لے کر میرے پاس آتے تو میں ان کو انکار کر دیتا وہ سیدھے بھٹو صاحب کے پاس جاتے جب ان کو وہاں سے ٹکٹ مل جاتا تو مجھے بڑی مایوسی ہوتی۔ پھر میں نے دیکھا کہ بھٹو صاحب نے الیکشن کے حوالے سے اپنی پارٹی کے راہنماؤں کی بجائے سرکاری آفسروں کی رپورٹوں پر زیادہ یقین کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس کے بعد میں نے بطور سیکرٹری جنرل استعفیٰ دے دیا۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے جنرل ضیا الحق کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے دو واقعات سنائے۔ ایک تو یہ کہ ایک جگہ بھٹو صاحب جنرل ضیا الحق اور میں کہیں بیٹھے تھے مجھے کسی کام سے تھوڑی دیر کے لیے وہاں سے جانا پڑ گیا جب میں واپس آیا تو ایک سرکاری اہلکار نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب کوفی پی رہے تھے کہ کوفی ان کے جوتوں پر گرگئی تو چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق نے اپنا رومال نکال کر بھٹو صاحب کے جوتوں سے چائے صاف کی۔ ڈاکٹر صاحب اپنی مخصوص زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ بات جاری رکھتے ہوئے بتاتے ہیں کہ میں نے اس اہلکار سے پوچھا جب جنرل ضیا الحق بھٹو کے جوتوں پر گری کوفی اپنے رومال سے صاف کر رہا تھا تو بھٹو صاحب نے کیا کہا تو اس اہلکار نے بتایا بھٹو صاحب نے اپنے جوتے جنرل ضیا الحق کے اور آگے کر دیے۔

دوسرا واقعہ بھٹو صاحب کی گرفتاری اور متوقع پھانسی رکوانے کے حوالے سے تھا۔ ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں کہ میں جنرل ضیا الحق سے ملنے آرمی ہاؤس گیا اس کو قائل کرنے لگا کہ بھٹو صاحب کو رہا کر دو میں ان کو بیرون ملک لیے جاؤں گا۔ اسی دوران مغرب کی اذان کی آواز سنائی دی۔ یک دم جنرل ضیا الحق نے مجھے کہا چلیں ڈاکٹر صاحب آئیں مغرب کی نماز اکٹھے باجماعت پڑھیں میں نے فوراً کہا چلیں جس پر جنرل ضیا الحق نے کہا وضو تو کر لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا مجھے پتہ تھا آپ سے ملاقات کرنی ہے میں گھر سے ہی باوضو آیا تھا۔

پی این اے سے مذاکرات کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہوئے ڈاکٹر صاحب بتاتے ہیں مولانا مفتی محمود مذاکرات کے لیے آئے تھے بھٹو صاحب نے تاکید کی تھی مفتی محمود کی کوک میں تھوڑی سی وسکی ڈال دیا کرو۔ ایک دن بھٹو صاحب نے شرارت سے منع کر دیا۔ آج کوک میں وسکی نہ ڈالنا۔ ملاقات کے بعد جب مولانا مفتی محمود جانے لگا تو بھٹو صاحب کو کہتا ہے کہ آج کوک کا مزہ نہیں آیا۔ بے نظیر بھٹو اور بھٹو صاحب کی ذات اور سیاست کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈاکٹر مبشر ایک ہی بات کہتے کہ وہ اپنے باپ سے بہت مختلف تھی۔ اس کے اندر پیسہ کمانے کی ہوس تھی۔ جن اصولوں پر پیپلزپارٹی بنائی گئی تھی وہ سب پالیسیاں بے نظیر نے ختم کر دیں وہ سوشلزم کی مخالف تھی اور سرمایہ داری نظام کی حامی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب بے نظیر کے بارے میں لفظ بدذات استعمال کرتے تھے۔ کہتے تھے پیسہ کمانا، کرپشن کرنا، بھٹو صاحب اور پیپلزپارٹی کا شیوہ نہیں تھا۔ جنرل ضیا الحق نے جب اقتدار پر قبضہ کیا تو سارے آفسروں کو اس کام پر لگایا کہ بھٹو صاحب کی کرپشن ڈھونڈو مگر سارے سرکاری آفسر بھٹو پر ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہ کر سکے اور بے نظیر کی دونوں حکومتوں کے خاتمے کی وجہ ہی کرپشن تھی۔

بے نظیر نے پیپلزپارٹی کی اساس ہی بدل دی تھی۔ سیاست کے علاوہ ڈاکٹر صاحب شعرادب سے بہت دلچسپی تھی ان کو میر تقی میر، غالب اور حالی کے سینکڑوں اشعار زبانی یاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب میر تقی میر کے منتخب اشعار کی ایک کتاب بھی مرتب کی اور غالب کے اشعار کی تشریح کے حوالے سے ایک کتاب لکھی۔ ان کی کتابیں شاہراہ انقلاب جلد اول اور دوم، رزم زندگی، پاکستان کے بحران اور ان کا حل، سیاست اور صحافت کے طالب علموں کو ضرور پڑھنی چاہیے۔ آخری دنوں میں وہ پانی پت جانے کی خواہش دل میں لیے چلے گئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments