محمود درویش کی شاعری: جغرافیے کے معتوب


مارچ کے مہینے میں خواتین کے مارچ، دیگر پروگراموں اور الیکٹرونک چینلز پر ہونے والی لڑائیوں نے سب کو الجھائے رکھا مگر تسنیم احمر نے ذرا کچھ ہٹ کر میڈیا کے پارینہ اوراق پلٹنے کا سوچا اور ذرائع ابلاغ میں سینئرخواتین کے بارے میں ایک پروگرام منعقد کر ڈالا۔ جب میں حاضرین کو یہ بتا کر ہٹی کہ صحافت کو مشن سمجھنے والوں میں ہم بھی شامل تھے۔ ہم نے صحافت برائے صحافت نہیں بلکہ صحافت برائے انقلاب کی اور زندگی کے سارے فیصلے انقلاب کی خاطر ہی کئے تو انور سن رائے میرے پاس آئے اور بولے، محمود درویش نے کہا ہے کہ اگر زندگی دوبارہ ملی تو میں پھر وہی سب کچھ کروں گا جو اس مرتبہ کیا ہے اور تب میں نے سوچا کہ آج واپس جا کے محمود درویش کی نظمیں ضرور پڑھوں گی جن کا ترجمہ انور سن رائے نے ”جفرافیے کے معتوب“کے نام سے کیا ہے گو کہ وہ خود اسے ترجمہ نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں یہ ماخوذ ہیں اور ماخوذ ان معنوں میں ہیں کہ یہ ان کیفیتوں کا اظہار ہیں جن سے وہ ان نظموں کو پڑھتے ہوئے گزرے۔ ان کے لئے یہ شاعری ان کی ہے اور انہوں نے اسے محمود درویش سے لیا ہے۔

گھر آکر رات گئے نظمیں پڑھنا شروع کیں تو عجیب سی کیفیت طاری ہوئی۔ سب سے پہلے تو وہی نظم ڈھونڈی:”اگر ابتدا میرے بس میں ہوئی“۔۔۔

ایک بار پھر،

اگر ایک بار پھر آغاز مجھے کرنا پڑے،

تو میں سب کچھ وہی کروں گا جو میں نے پہلے کیا تھا“

ساٹھ، ستر کی دہائی کا یونیورسٹی کا زمانہ یاد آ گیا۔ فلسطینیوں کے لئے کتنا دل دکھتا تھا۔ یاسرعرفات نوجوانوں میں کتنے مقبول تھے اور محمود درویش ہمیں بتا رہا تھا کہ زمین تنگ ہو رہی ہے اور فلسطینیوں کو آخری راستے پر دھکیل رہی ہے۔ فلسطینی ماں اپنے جوان مرگ بیٹے کی یاد میں آنسو بہاتی ہے تو محمود درویش کہتے ہیں:

اے ماں اپنے آنسوؤں کو جڑوں سے مت اکھاڑ۔

دو آنسو چھوڑ دے دل کے کنوئیں میں۔

شاید کل اس کا باپ مر جائے۔

یا اس کا بھائی۔ یا میں۔۔۔ اس کا ساتھی۔

کچھ تو بچا رکھ۔ ان کے لئے

جو مر سکتے ہیں کل۔

صرف دو آنسو، دو آنسو صرف۔

شاعری کے بارے میں ان کی خوبصورت باتیں پڑھیں تو سلمان حیدر (میں بھی کافر۔ تو بھی کافر، نظم کے خالق) کی یاد آئی اور میں نے وہی باتیں فیس بک پر انہیں بھیج دیں:

”جب تک میری نظمیں۔

میرے دوستوں کو خوش کرتی ہیں۔

اور میرے دشمنوں کو اپنے بال نوچنے پر مجبور کرتی ہیں

میں شاعر ہوں اور میں کہتا رہوں گا نظمیں“

جنگ کا مطلب خونریزی کے سوا کچھ نہیں لیکن یہ ایک عجیب جنگ ہے جو کئی نسلوں سے لڑی جا رہی ہے۔ ایک فریق کے تربیت یافتہ فوجی جوانوں کے ہاتھوں میں جدید اسلحہ ہے اور دوسری طرف نوجوانوں کے ہاتھوں میں غلیلیں ہیں، وہ گولی چلاتے ہیں، یہ غلیل سے پتھر مارتے ہیں۔ میں اکثر سوچتی ہوں کہ دنیا کہ سارے مسائل کی جڑ ناانصافی میں پوشیدہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اسرائیل کے قیام کی شکل میں فلسطینیوں سے جو نا انصافی کی گئی، اس نے ان گنت مسائل کو جنم دیا۔

محمود درویش کی شاعری بھی اسی ناانصافی کی پیداوار ہے۔ 1948 میں اسرائیل بنا تو ان کے قصبے کو مسمار کر دیا گیا اور ان کے خاندان کو لبنان میں پناہ لینی پڑی۔ وہ سال بھر بعد لوٹے تو انہیں جیل، گھر میں نظربندی اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اسرائیلی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوئے اور 1970 میں حصول تعلیم کے لئے ماسکو گئے۔ انہیں فلسطین کا قومی شاعر مانا جاتا ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں کو ناانصافی کی آگ پر مصلوب ہوتے دیکھا اور وہ یہی سوچا کئے کہ کس طرح ایک دن فلسطینی خود ہی اپنی اس صلیب سے اتریں گے مگر کس طرح لوٹیں گے وہ ننگے پیر اور برہنہ جسم!

محمود درویش ایک حساس اور دردمند دل رکھنے والے انسان تھے، وہ صرف اپنے اور اپنی قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور نا انصافیوں پر دکھی نہیں ہوتے تھے بلکہ اس اسرائیلی فوجی سے بھی خیالی گفتگو کرتے تھے جو اپنے گھر اور اپنی ماں سے دور آگ اور موت اگلنے والی مشین بنا ہوا تھا۔ دونوں طرف کے نوجوان ماں کی بنائی ہوئی روٹی اور ماں کے لمس کے لئے ترستے ہیں۔

اپنی نظم شناختی کارڈ میں محمود درویش کہتے ہیں:

 لکھ لو اس رجسٹر میں

میں عرب ہوں اور تم نے

میرے آباؤ اجداد کے وہ باغ اور زمینیں

ہڑپ لی ہیں

جو میرے لئے اور میرے بچوں کے لئے تھیں

کچھ نہیں چھوڑا تم نے

اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں کسی سے کوئی نفرت یا بغض نہیں، وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں دخل اندازی نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود بھی اگر انہیں بھوکا رہنا پڑا تو وہ غاصب کا گوشت کھانے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔

”بس اسی لئے کہتا ہوں

ڈرو میری بھوک سے اور۔۔۔ خبردار رہنا

میرے غصے سے“

محمود درویش کی شاعری اس شخص اور اس قوم کی شاعری ہے جو جلا وطنی کا دکھ اور وطن کو کھونے کا عذاب جھیل رہی ہے

میری جلا وطنی کے ننھے پرندے

زخم اور چاقو بن کر

 کہاں جائیں گے ہم؟

خون اور دکھوں میں ڈوبی ہوئی یہ شاعری محمود درویش کی شاعری ہے جو عربی کا سب سے مقبول شاعر ہے اور اس کا ترجمہ انور سن رائے نے کیا ہے جو اردو نثری شاعری کی تحریک کے اولین لوگوں میں شامل تھے۔ انور کا شکریہ کہ انہوں نے تاریخ کی اس سب سے بڑی ناانصافی کے بارے میں ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments