اب بات امان اللہ کی قبر پر نہیں رکے گی


ہنی البیلا نے کہا تھا ”جب کسی فنکار کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر کی جانب سے کسی بھی تمغے یا اعزاز کا اعلان ہوا کرے گا تو یہ ایوارڈ وصول کرنے کی بجائے ایک ہی درخواست کریں گے کہ ہمیں تمغہ نہیں ’کسی قبرستان میں دفن ہونے کا اجا زت نامہ دیا جائے“۔ امان اللہ صاحب کی قبر کے تنازع پر مختلف لوگ، مختلف وجوہات بتا رہے ہیں، جن میں دو وجوہات زیادہ تواتر سے بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک یہ کہ قبر کی جگہ پر اختلاف تھا۔

اور دوسری یہ کہ کچھ لوگ ایک فنکار ’معذرت کے ساتھ، مراثی کا لفظ استعمال ہوا‘ کو اپنے قبرستان میں جگہ دینے کو تیار نہ تھے اور بہانہ قبر کی جگہ کا بنا دیا۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کامیڈین اور ون مین شو کے بے مثال فنکار کو قبر دلوانے کے لیے ایک منسٹر کو آ کر مداخلت کرنی پڑی اور اس کے باجود بھی لیت و لعل سے کام لیا گیا۔

آج بات ’مراثی‘ کی قبر تک پہنچی ہے، کل کسی بھی ناپسندیدہ باسی تک پہنچ جائے گی اور یہاں تو ہر کوئی کسی نہ کسی کا ناپسندیدہ ہے۔ کافر، غدار اور گستاخ کا سرٹیفیکیٹ ملتے دیر نہیں لگتی۔  اگر کسی پر یہ دھبہ لگ جائے، تو عمر بھر نہیں مٹتا۔ پگڑیاں اچھالنا ہمارا قومی کھیل ہے ۔ سرٹیفیکیٹ بانٹنا ہمارا قومی مشغلہ۔ اب یہ کھیل اور مشغلہ زندوں کے ساتھ ساتھ مردوں اور قبروں تک آن پہنچا ہے۔

کچھ لوگوں کا اسلام زندوں سے تو خطرے میں پڑتا تھا، اب مردوں سے بھی خطرے میں پڑنے لگا ہے۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ کسی سے کوئی زندہ شخص برداشت نہیں ہوتا۔ پر کسی مرے ہوئے شخص کا برداشت نہ ہونا، بہت تکلیف دہ اور خطرناک بات ہے۔ آنکھیں کھل جانی چاہییں کہ انتہا پسندی نے جینا تو حرام کر ہی رکھا ہے، مرنا بھی حرام کرتی جا رہی ہے۔ کوڑا پھینکنے والی کافرہ کی تیمار داری کرنے والی ہستی کے ماننے والے، اپنے ہی ہم مذہب کو قبر نہ دے رہے ہوں تو، آنکھیں کھل جانی چاہییں۔

قصور عوام کا نہیں، ریاست کا ہے۔ ہم عام لوگ تو طبعاًاورعقیدتاً، ہر طرح کے مذہبی بیانات کو الہامی احکامات سمجھ لیتے ہیں۔ جو نہیں سمجھتے، وہ زبان بندی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ کیونکہ انتہا پسندی نے ہمیں آپشن ہی ایک دیا ہے، کہ سر تسلیم خم، ورنہ سر قلم۔

مگر ریاست کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ تمام معاملات پر طائرانہ نگاہ رکھے، اور جو معاملہ حد عبور کرنے لگے، اسے وہیں سدھار دے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ ریاست سدھار نہ پائی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ ریاست بگاڑ میں شامل رہی۔ مساجد جائز اور ناجائز قرار دی جاتی رہیں، مگر ریاست خاموش رہی۔ ڈالر اور ریال ریاست کے مذہب اور جہاد کی تشریح کرتے رہے، ریاست گھٹن کی بجائے آسودگی محسوس کرتی رہی۔ خدا کے نام لیوا کافر کافر کھیلتے رہے۔ اور عوام کی نام لیوا ریاست، غدار غدار کھیلتی رہی۔

کافر اور غدار کا سرٹیفیکیٹ بانٹنے والوں نے ہاتھ ملایا، تو کہانی بدبودار ہونے کے ساتھ ساتھ زہریلی بھی ہوتی گئی۔ مرنے اور مارنے کی تمیز ختم ہو گئی۔ کہیں مرنے والے مردود قرار پائے تو کہیں مارنے والے۔ ہم ایک ایسی جنگ میں مرتے رہے، جس کا فیصلہ ہی نہ ہو پایا کہ یہ جنگ اپنی ہے یا پرائی۔ قیمت اتنی بڑی چکانی پڑی کہ اپنے پلے اعتبار بھی نہ رہا۔ کہیں پیسہ مانگنے کے لئے در در کشکول لیے پھر رہے ہیں، تو کہیں ملک میں کرکٹ کھیلنے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے اپنی نیک نیتی کی قسمیں اٹھاتے پھر رہے ہیں۔

بیرونی معاملات تو چھوڑیں، گلشن کے اندر جو گل کھلے ہیں، اس سے بھی کوئی بے خبر نہیں۔ مساجد سے لے کر سینماؤں تک اور تعلیمی اداروں سے لے کر دفاتر تک، ہر جگہ داخلے پر تلاشی دینا ایک فریضہ سا بن گیا ہے۔ جنت جیتنے کے جنون نے دنیا دوزخ بنا کر رکھ دی ہے۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ مساجد بھی فرقہ ورانہ رنگ میں رنگی جا چکی ہیں۔ احادیث کے ساتھ ساتھ، آیات کا بھی بٹوارا ہو چکا ہے۔ اب قبرستان بھی فرقہ ورانہ اور پیشہ ورانہ اعتبار سے الگ الگ بنیں گے۔ قبروں کی تقسیم اور اختلاف کی بنیاد رکھ دی گئی ہے، اپنا اپنا بندوبست کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments