یان لیانکے، کورونا وائرس، افراد کی یادیں اور غلطیاں


عالم گیر درجے کی وبا بن جانے والی اور نسلِ انسانی کے لیے تباہ کن خطرہ بن جانے والی کورونا وائرس کی بیماری کا جب سے آغاز ہوا، باقی دنیا کی نظریں چین کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ یہ بلا چین سے پھیلی تھی اور اس کا ردِّبلا بھی وہیں سے آنا چاہیے۔ اس وائرس سے آلودہ ہونے والے بیشتر ممالک میں نئے بیمار ہونے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جب کہ چین میں یہ تعداد کم ہونے لگی ہے۔ اس کے ساتھ ہی فتح مندی کے جذبات سے سرشار بیانات بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ ایسے وقت میں چین کے ممتاز ناول نگار یان لیانکے کا تازہ مضمون بیماری سے افاقہ پانے والے چین ہی میں نہیں، باقی ساری دنیا میں پڑھے جانے کے لائق ہے۔

معاصر چین کے ادیبوں میں یان لیانکے بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس کی شہرت اپنے ملک سے باہر بھی پھیل چکی ہے۔ چین میں اسے کتابوں پر پابندی اور مخالفت کا کئی بار سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء میں یان لیانکے کو مین بُکر ادبی انعام کے لیے نام زد کیا گیا۔ اس نام زدگی میں ہمارے انتظار حسین بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ اس تقریب میں شرکت کا مجھے بھی موقع ملا۔ وہاں لندن میں مجھے یان لیانکے کو دیکھنے کا موقع ملا، اس سے ہاتھ ملایا، کتاب پر دستخط لیے اور مترجم کے ذریعے سے تعارف ہوا۔ انتظار صاحب کے ساتھ ایک محفل میں اس کے ناول کے اقتباسات پڑھ کر انگریزی ترجمے میں سنائے گئے جو مجھے گرویدہ کردینے کے لیے کافی تھے۔ اس کے بعد میں نے اس کی کتابیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھنا شروع کر دیں اور جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ انعام کی تقریب میں جس مقام پر فائز دیکھا تھا، یہ اس سے بھی بڑے رُتبے کا مالک ہے۔ میری رائے میں یان لیانکے اس وقت دنیا کے سب سے اہم ناول نگاروں میں سے ایک ہے جو اپنے تخیّل کی جدّت، بیانیہ کی وسعت اور طنز میں لپٹی ہوئی گہرائی کی انوکھی مثال قائم کرتا ہے۔

یان لیانکے کے ناولوں میں ’’ڈنگ گائوں کا خواب‘‘ مجھے خاص طور پر پسند ہے۔ ایک چالاک اور لالچی شخص عام دیہاتی لوگوں کی غربت اور سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر خون خریدنے کے کاروبار کو فروغ دیتا ہے جو ناکافی حفظانِ صحت کی بدولت ایڈز کی وبا کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ کوئی خیالی منصوبہ نہیں بلکہ اس طرح کے کیس چین میں بڑی تعداد میں سامنے آچکے ہیں۔ جدّت کے ساتھ ناول میں بڑی جرأت کے ساتھ اخلاقی سوالات بھی بیان کا حصہ اس عمدگی سے بن جاتے ہیں کہ ہوسِ زر، ٹوٹتے رشتوں اور معاشرتی انتشار کے اس دور میں یہ ناول بہت معنی خیز معلوم ہوتا ہے۔

اس جرأت مندانہ تخلیقی روّیے کی وجہ سے مجھے انتظار تھا کہ یان لیانکے کی طرف سے موجودہ صورت حال کے بارے میں کوئی تحریر سامنے آئے۔ یان لیانکے اس وقت ہانگ کانگ یونیورسٹی آفس سائنس اینڈ ٹیکنولوجی میں چینی ثقافت کا پروفیسر ہے۔ 21 فروری 2020ء کو اس نے اپنے طالب علموں کو کورونا وائرس کے حوالے سے ’’ای لیکچر‘‘ دیا جو موجودہ صورت حال کے بارے میں اس کے رویے کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ لیکچر تھنک چائنا نامی جریدے میں گریس چونگ کے ترجمے میں شائع ہوا۔ اس لیکچر کے اہم حصوں کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

O O O

Yan Lianke

جب میں چھوٹا تھا اور ایک ہی غلطی متواتر دو تین دفعہ کردیتا تھا تو میرے والدین مجھے گھسیٹ کر اپنے سامنے لے آتے اور میرے ماتھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھتے:

’’تم اس قدر بُھلکڑ کیوں ہو؟‘‘

چینی زبان کے اسباق کے دوران جب کوئی ادبی متن بار بار دوہرانے کے بعد بھی میں سنا نہیں پاتا تھا تو میرے استاد مجھے کونے میں کھڑا کردیتے اور ساری جماعت کے سامنے مجھ سے پوچھتے:

’’تم اس قدر بُھلکڑ کیوں ہو؟‘‘

یاد رکھنے کی صلاحیت وہ مٹّی ہے جس میں یادیں نمو پاتی ہیں اور یادیں اس مٹی سے حاصل ہونے والا پھل ہیں۔ یادوں کی ملکیت رکھنا اور یاد رکھنے کی صلاحیت انسان اور جانوروں یا پودوں کے درمیان بنیادی فرق ہیں۔ یہ ہمارے آگے بڑھنے اور پختگی حاصل کرنے کی بنیادی ضروریات ہیں۔ اکثر مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ کھانے پینے، کپڑے پہننے اور سانس لینے سے بھی زیادہ اہم ہیں __ ہماری یادیں کھو جائیں تو ہم کھانا بھول جائیں یا پھر کھیتوں میں ہل چلانے کی صلاحیت بھول جائیں۔ صبح کو ہماری آنکھ کھلے تو ہم بھول جائیں گے کہ ہمارے کپڑے کہاں رکھے تھے۔ ہم یقین کرنے لگیں گے کہ بادشاہ سلامت ننگے ہو کر زیادہ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ آج میں یہ ساری باتیں کیوں کر رہا ہوں؟ اس لیے کووڈ 19 __ جو قومی اور عالم گیر تباہی ہے __ حقیقی معنوں میں قابو میں نہیں آ سکا ہے۔ کئی خاندان بچھڑے ہوئے ہیں اور دل خراش آوازیں ہوبی، ووہان اور دوسری جگہوں میں گونچ رہی ہیں۔ اس کے باوجود فتح کے ترانے بھی گردش میں آنے شروع ہوگئے ہیں۔ اس لیے کہ اعداد و شمار بہتر ہو رہے ہیں۔

لاشیں ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہیں اور لوگ ابھی تک ماتم میں ہیں۔ اس کے باوجود فتح مندی کے نغمے گائے جانے کے لیے تیار ہیں اور لوگ اعلان کرنے کے لیے تُلے بیٹھے ہیں کہ ’’ارے، کس قدر عقل مند اور کس قدر عظیم!‘‘

جس دن سے کووڈ 19 ہماری زندگی میں داخل ہوا ہے، اس سے لے کر آج تک ہمیں صحیح اعداد نہیں معلوم کہ کتنے افراد اس کی وجہ سے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے __ کتنے افراد اسپتالوں میں ہلاک ہونے اور کتنے افراد باہر مر گئے۔ ہم کو ان چیزوں کی تفتیش کرنے اور ان کے بارے میں پوچھنے کا موقع بھی نہیں ملا۔ اس سے بھی بدتر، ایسے سوالات اور تفتیش وقت گزرنے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے راز بنے رہتے ہیں۔ ہم مستقبل کی نسلوں کے لیے زندگی اور موت کے بہت سے الجھاوے چھوڑ جائیں گے جن کو کسی نے یاد بھی نہ رکھا ہوگا۔۔۔

یادیں ہم کو حقیقت کے بدلنے کی طاقت نہیں دیتی ہیں، جس وقت کوئی جھوٹ ہمارے سامنے آئے ہمارے دل میں سوال اٹھا سکتی ہیں ۔

ہمارے ماضی میں اور حال میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ المیے اور تباہیاں ہمیشہ ایک ایک کرکے فرد، خاندان، معاشرہ، عہد اور ملک پر وار کرتی جاتی ہیں؟ اور تاریخ کی تباہ کاریوں کی قیمت ہمیشہ سینکڑوں ہزاروں عام افراد کی زندگیوں سے ادا کی جاتی ہے؟ جن بے شمار عناصر کے بارے میں ہم جانتے نہیں، پوچھتے نہیں یا جن کے بارے میں پوچھنے سے منع کردیا جاتا ہے (اس ہدایت پر فرماں برداری کے ساتھ عمل کرتے ہیں __ ایک عنصر ایسا ہے __ اور وہ یہ کہ ہم انسان، جو اجتماعی طور پر نسل انسانی کہلاتے ہیں، چیونٹیوں کی طرح بے وقعت__ ہم بھول جانے والی مخلوق ہیں۔

ہماری یادوں کو قاعدے کی رو سے ڈھال دیا گیا ہے، تبدیل کیا گیا ہے، مٹایا گیا ہے۔ ہم وہ یاد رکھتے ہیں جو دوسرے ہم سے یاد رکھنے کو کہتے ہیں اور جو ہم سے بھول جانے کو کہا جاتا ہے اسے بھول جاتے ہیں۔ جب ہم سے کہا جاتا ہے تو چُپ رہتے ہیں اور حکم دیا جاتا تو گانے لگتے ہیں۔ یادیں اس دور کا اوزار بن گئی ہیں، کہ جن سے اجتماعی اور قومی یادیں ڈھالی جاتی ہیں، جو اس بات پر مبنی ہیں جس کے بارے میں ہم سے کہا جاتا ہے کہ یاد رکھیں یا بھول جائیں۔

تصور کرو: ہم کتابوں کے ان گرد آلود سرورق کی بات نہ کریں جو ماضی کا حصہ بن گئے ہیں؛ ہم صرف پچھلے بیس سال کے حالیہ واقعات کو ذہن میں لائیں۔ وہ واقعات جو تمہارے جیسے لوگ، وہ بچے جو 80ء اور 90ء کی دہائی میں پیدا ہوئے، یاد کرسکتے ہیں اور جن سے خود گزرے __ ایڈز، سارس اور کوووڈ 19 جیسی تباہ کاری__ کیا یہ انسان کی پیدا کردہ تباہیاں تھیں یا پھر قدرتی آفات ہیں جن کے سامنے انسان بے بس کھڑے رہ جاتے ہیں، جیسے تانگ شان اور وین چوان کے زلزلے؟ تو پھر ایسا کیوں ہے کہ ان قومی تباہیوں میں بھی انسانی عناصر تقریباً وہی ہیں؟ خاص طور پر سارس کی وبا جو سترہ سال پہلے پھیلی تھی اور موجودہ کووڈ 19 کی وبا میں تیزی، دونوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اسٹیج کے ایک ہی ہدایت کار کا کام ہے۔ وہی المیہ ہماری آنکھوں کے سامنے دوبارہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ہم انسان محض خاک کے ذرّے ہیں، اتنا معلوم کرنے کے قابل نہیں ہیں کہ یہ ہدایت کار کون ہے اور نہ ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ دوبارہ سے سنبھل جائیں اور کھیل کے مصنف کے خیالات، تصورات اور تخلیق کو دوبارہ سے جوڑ کر دیکھ لیں۔ مگر ہم ’’موت کے کھیل‘‘ کی اس نئی پیشکش کے سامنے ایک بار پھر کھڑے ہو گئے ہیں، تو کیا ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا نہیں چاہیے کہ آخری کھیل جس کا ہم حصہ بنے تھے اس کی یادیں کیا ہیں؟

کس نے ہماری یادوں کو مٹا دیا اور صاف کر دیا؟

بھول جانے والے لوگ فی الاصل، کھیتوں کی اور سڑکوں کی خاک ہیں۔ جوتے کے تلے پر بنے ہوئے نشان جس طرح جی چاہے ان پر قدم جما سکتے ہیں۔

بھول جانے والے لوگ فی الاصل لکڑی کے تختے اور ٹکڑے ہیں جو اس درخت سے رشتہ توڑ چکے ہیں جس نے ان کو زندگی دی۔ آرے اور کلہاڑیاں پوری طرح سے اس چیز پر قابو رکھتے ہیں جو وہ مستقبل میں بن جاتے ہیں۔

ہمارے لیے، ہم جو تحریر سے محبت کی وجہ سے زندگی کو معنی بخشتے ہیں ۔۔۔ اگر ہم اپنے خون خرابے اور زندگی کی یادوں سے دستبردار ہوجائیں تو پھر لکھنے کے معنی کیا رہ جائیں گے؟ ادب کی قیمت کیا ہے؟ معاشرے کو ادیبوں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟ تمہاری نامختتم تحریر، مشقت اور اتنی ساری کتابیں جو تم نے لکھ ڈالی ہیں، وہ اس کٹھ پتلی سے کس طرح مختلف ہیں جس کی ڈوری دوسرے ہاتھوں میں ہے؟ اگر نامہ نگار وہ نہ لکھیں جو انھوں نے دیکھا ہے اور اگر ادیب اپنی یادوں اور احساس کے بارے میں نہ لکھیں، اگر معاشرے کے وہ افراد جو اپنی مرضی سے بول سکتے ہیں اور جن کو معلوم ہے کس طرح بولا جائے، ہمیشہ دہرائے جائیں، پڑھے جائیں اور اعلان کیے جائیں غنائیت آمیز سیاسی درستی کے ساتھ، تو پھر ہمیں کون بتائے گا کہ اس زمین پر گوشت پوست اور خون کے طور پر زندہ رہنے کے معنی کیا ہیں؟۔۔۔

ہر زمانے کے عظیم الشان سیلابوں میں، ہماری اپنی یادیں اکثر سطح کے جھاگ کی طرح سطحی اور غیرضروری سمجھی جاتی ہیں، مدّوجزر اور شور شرابا جس کو زمانہ مٹا ڈالتا ہے یا بے رحمی سے ایک طرف ڈال دیتا ہے، پھر ان کو آوازوں اور الفاظ کے اندر جا کر خاموش کر دیتا ہے جیسے ان کا کبھی وجود مٹ جاتا ہے، گم نامی میں چلا جاتا ہے۔ گوشت پوست اور خون، جسم اور روح چلے جاتے ہیں۔ سب کچھ ٹھیک ہوجاتا ہے اور سچ کی وہ چھوٹی سی سلاخ (fulcrum) جو دنیا کو اپنے محور سے اٹھا سکتی ہے، گم ہو جاتی ہے۔ بجائے خود تاریخ جو روایات کا مجموعہ بن جاتی ہے، کھوئی اور تصور کی ہوئی کہانیاں جو بے بنیاد ہیں۔ اس تناظر میں یہ کتنا اہم ہے کہ ہم یاد رکھ سکیں اور اپنی ان یادوں پر دسترس رکھیں جو نہ مٹائی گئی ہیں نہ تبدیل کی گئی ہیں۔۔۔۔

درحقیقت، یاد رکھنے کی صلاحیت اور ہماری یادیں بھی اس دنیا کو اور حقیقت کو بدلنے کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ہیں، کم سے کم یہ ہماری مدد کرسکتی ہیں کہ ہم اندازہ لگا لیں کہ جس وقت ہم مرکز کے قابو میں آنے والے اور ’’باقاعدہ سچ‘‘ کا سامنا کریں تو اندازہ لگالیں کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ ہمارے اندر کی چھوٹی سی آواز پکار اٹھے گی، ’’یہ سچ نہیں ہے!‘‘ پھر کم سے کم یہ ہوگا کہ سچ مچ میں اس وبا کا زور ٹوٹنے کا وقت صحیح معنوں میں آنے سے پہلے فتح مندی اور جشن کے کان پھاڑ دینے والے شور میں ہم گریہ اور ماتم سن سکیں گے اور یاد رکھ سکیں گے جوافراد، خاندانوں اور حاشیے میں موجود انسانوں سے آرہا ہے۔

یادیں دنیا کو بدل نہیں سکتی ہیں مگر ہمیں سچا دل دے سکتی ہیں۔

یادیں ہمیں حقیقت کو بدل دینے کی طاقت نہیں دے سکتی ہیں، مگر ہمارے دل میں سوال اٹھا سکتی ہیں جب کوئی نہ کوئی جھوٹ ہمارے سامنے آئے۔ اگر کسی دن کوئی اور ’’آگے کی طرف عظیم چھلانگ‘‘ (مائوزے تنگ کا خوف ناک منصوبہ جس میں ترقی کے نام پر لاکھوں لوگ مارے گئے) ہمارے طرف آئے اور لوگ اپنے گھر کے صحن میں بھٹی بنا ڈالیں تو یہ ہمیں باور کرا دے گی کہ مٹی سے فولاد نہیں بن سکتا۔۔۔ ہمیں کم از کم یہ معلوم ہو جائے گا کہ یہ عقلِ سلیم کی موٹی سی بات ہے اور کئی ایسا معجزہ نہیں جس کے ذریعے شعور کے ذریعے مادہ پیدا ہونے لگے یا ہوا سے غذا حاصل ہونے لگے۔ اگر کوئی اور کسی قسم کا ثقافتی انقلاب آئے گا تو کم از کم ہم یہ ضمانت دے سکیں گے کہ اپنے ماں باپ کو زنداں یا مقتل کی جانب روانہ نہیں کریں گے۔

میرے عزیز طالب علمو، ہم سب فنون کے طالب علم ہیں کہ جو غالباً اپنی پوری زندگی زبان کے ذریعے سے حقیقت اور یادوں سے نمٹتے رہیں گے۔ آئو ہم سب اجتماعی یادیں، قومی یادیں یا اپنی قومیت کی یادوں کی بات نہ کریں بلکہ اپنی یادوں کی بات کریں۔ اس لیے کہ تاریخ میں قومی اور اجتماعی یادیں ہمیشہ ہماری یادوں کو کفن پہنا دیتی ہیں اور بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ آج اس لمحۂ موجود میں جب کہ کووڈ 19 ابھی تک یاد بن جانے کے مرحلے سے بہت دور ہے، ہم اپنے چاروں طرف فتح کے ترانے اور خوشی کے فاتحانہ نعرے سن رہے ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ تم میں سے ہر ایک اور ہم سب جو کووڈ 19 کی اس تباہ کاری کے تجربے سے گزرے ہیں، وہ لوگ بن سکیں گے جو یاد رکھتے ہیں، وہ لوگ جو یاد سے یادیں حاصل کرتے ہیں۔

قرین قیاس مستقبل میں، جب کہ کووڈ 19 کے خلاف اس قومی جنگ میں ہماری قوم اپنی فتح کا جشن رقص اور موسیقی کے ذریعے منا رہی ہے تو مجھے امید ہے کہ ہم خالی اور کھوکھلے ادیب نہیں بن جائیں گے جو محض بازگشت کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں بلکہ وہ لوگ ثابت ہوں گے جو بس اپنی یادوں کے ساتھ اصلیت اور صداقت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب عظیم جشن کا وقت آئے گا تو مجھے امید ہے کہ ہم اسٹیج پر آنے والے اداکار یا راوی نہیں ہوں گے، یا ان میں سے ایک جو محض اس جشن میں شریک ہونے کے لیے تالیاں بجاتے ہیں۔۔۔ مجھے امید ہے کہ ہم ان خاموش اور غم زدہ لوگوں میں سے ہوں گے جو اسٹیج کے ایک کونے پر کھڑے رہتے ہیں اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے اس کارروائی کو چپ چاپ دیکھے جاتے ہیں۔ اگر ہماری صلاحیت، ہمّت اور ذہنی طاقت ہمیں ایسے ادیب بنانے میں کامیاب نہیں رہتی جیسے کہ فینگ فینگ تھی تو پھر ہم ان لوگوں میں سے بھی نہ ہوں جو فینگ فینگ پر شک کرتے ہیں اور اس کا مضحکہ اڑاتے ہیں۔ نغموں اور ترانوں کی لہروں سے گھرے رہنے کے باوجود اطمینان اور آسودگی کی طرف آخرکار واپسی ہو گی تو ہم اس بارے میں سوال اٹھا سکیں یا نہ اٹھا سکیں کہ کووڈ 19 کا مآخذ اور اس کے پھیلائو کا ذریعہ کیا تھا تب بھی ہم دھیرے دھیرے بُڑبڑا سکتے ہیں اور گنگنا سکتے ہیں، اس لیے کہ یہ بھی ہمارے ضمیر اور ہماری بہادری کا مظاہرہ ہے۔ ناتسی جرمنی کے آش وٹز کیمپ کے بعد نظمیں لکھنا یقیناً وحشیانہ تھا لیکن اس سے بھی زیادہ وحشیانہ یہ ہوگا کہ ہم اسے اپنے الفاظ میں، گفتگو میں اور یادوں میں بھول جائیں۔ یہ کہیں زیادہ وحشیانہ اور خوف ناک ہے۔

اگر ہم لی وین لیانگ کی طرح سیٹی بجا کر بھانڈا پھوڑ دینے والے نہیں بن سکتے تو ہم سیٹی کی آواز سننے والوں میں تو شامل ہوسکتے ہیں۔

اگر ہم زور سے بول نہیں سکتے تو ہم سرگوشی کرنے والے بن جائیں۔ اگر ہم سرگوشی کرنے والوں میں سے نہیں ہوسکتے تو ہم خاموش افراد بن جائیں جن کے پاس اپنی یادیں ہیں۔ ہم کووڈ 19 کے آغاز، شدید حملے اور پھیلائو کے تجربے سے گزرے ہیں مگر ہم وہ لوگ بن جائیں جو خاموشی کے ساتھ ایک طرف ہو جاتے ہیں جب مجمع جنگ جیت لینے کے بعد فتح کا ترانہ شروع کردیتا ہے۔۔۔ وہ لوگ جن کے دل میں قبریں بنی ہوئی ہیں جن پر یادوں کے نشان ثبت ہیں؛ وہ لوگ جو یاد رکھتے ہیں اور کسی دن ان یادوں کو آنے والی نسلوں تک منتقل کر سکتے ہیں۔

Yan Lianke, Lydia Davis, Peter Stamm, Josip Novakovich, Marie N’Diaye, Intizar Husain and U R Ananthamurthy attend a photo call for the “MAN Booker Prize” at Queen Elizabeth Hall, South Bank. (2013)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments