کورونا وائرس، ملکی معیشت اور پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین


کورونا وائرس نے اس وقت ملک میں اپنے پنجے گاڑنا شروع کردئے ہیں لیکن وفاقی حکومت اور بالخصوص سندھ حکومت دونوں ہی اپنے عوام کو ریلیف دینے کے لئے کوشاں ہیں۔ اس صورتحال میں بلاول بھٹو کا یہ بیان کہ عمران خان ہم سب کے وزیراعظم ہیں اس وقت کوئی تنقید نہیں کروں گا یہ ظاہرکرتا ہے کہ ملک کو اس وبا سے نکالنے کے لئے ملکی سیاسی رہنما اختلاف ایک طرف رکھ کر کوشاں ہیں۔ یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ اس وائرس کے باعث ملکی معیشت کو شدید قسم کا نقصان پہنچے گا۔

ملک میں اس وقت کاروبار بند ہیں، ڈیلی ویجز پر کام کرنے والوں کے گھروں میں فاقہ کشی کی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ پولیس کوئی دکان کھولنے نہیں دے رہی ٹھیلے پتھارے والا، مزدور دیہاڑی دار سب کہ دل میں یہ سوال آٓتا ہی ہوگا کہ میں کورونا سے مروں گا یا بھوک سے؟ میں کورونا سے مروں گا یا اپنے بچوں کو بھوک سے بلبلاتا دیکھ کر؟

پاکستان کی موجودہ حکومت کی کارکردگی پر اس حوالے سے سوالیہ نشان ہیں لیکن اس نازک صورتحال میں ہمیں عمران خان کی وفاقی حکومت اور بلاول بھٹو کی سندھ حکومت کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں اپنے ارد گرد یکھنا ہوگا کہ کہیں ہمارے قریب کوئی دن بھر کا بھوکا تو نہیں۔ ہمیں اس حد تک بھی جانا پڑ سکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا ہم کھائیں اور ایک وقت کا پڑوسی کو کھلائیں لیکن اس وبا سے ڈرنا نہیں حکومت کے ساتھ مل کر لڑنا ہے۔

کیا پاکستانی عوام کی یہ حالت پہلی بار ہوئی ہے؟ ملک میں ایک ادارہ ایسا بھی ہے جس کے ملازمین کی یہ مشکلات کورونا وائرس سے قبل بھی تھیں۔ یہ ادارہ کبھی ملک کا سب سے مستحکم ادارہ ہوا کرتا تھا لیکن پھر کرپشن کا جن بے قابو ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے اربوں روپوں کا مالک ادارہ پاکستان اسٹیل ملز کئی ارب کا مقروض ہوگیا۔ عمران خان نے بھی اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے کے کئی دعوے کیے۔ عمران خان نے جو وعدے اقتدار میں آنے سے قبل کیے ان کی تکمیل اب تک نہیں ہوسکی۔

یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ تحریک انصاف کو جب حکومت ملی اس وقت پاکستانی معیشت ایک طوفان میں پھنسی ہوئی تھی۔ ملک قرض کے دلدل میں ڈوبتا ہی چلا جارہا تھا۔ ایسی صورتحال میں کسی تجربہ کار حکمران کو بھی حکومت ملتی تو اس کی ٹانگیں ضرور لڑکھڑاتی۔ کرکٹ کے میدان کے کپتان کو جب ملک کا کپتان بنایا گیا تو ان کی ٹانگیں تو نہ لڑکھڑئیں لیکن ملک کے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ عمران خان نے ایسی صورتحال میں کئی بار قوم سے خطاب کیا اور تمام تر معاملات عوام کی عدالت میں رکھے۔

پاکستان اسٹیل ملز تباہی سے قبل ایشیا کا سب سے بڑا فولادی پیداوار کا ادارہ تھا۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ ملازمین کئی کئی ماہ کی تنخواہوں سے محروم تھے۔ ملازمین کو ہفتے میں تین دن کی چھٹی دی جاتی۔ اسٹیل ملز ملازمین ہفتے میں صرف چار دن مل جاتے اور وہ بھی مل کی بندش کے باعث اکثریت بیٹھ کر واپس آجاتے جس حوالے سے معزز چیف جسٹس صاحب نے کچھ روز قبل ریمارکس بھی دیے۔ میڈیکل کی سہولیات بھی ملازمین کو میسر نہ تھیں۔ چند ایک خدا ترس ڈٖاکٹر اسپتال میں تو موود ہوتے لیکن ملازمین کو دینے کے لئے ادویات نہ ہوتیں۔ پاکستان اسٹیل ملز سے ریٹائرڈ ہونے والے ملازمین بھی اپنے جائز واجبات کے حصول کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

اس حوالے سے گزشتہ دنوں انصاف لیبر یونین پاکستان اسٹیل ملز سی بی اے کے چیئرمین یاسین جامڑو سے ملاقات ہوئی۔ ریٹائرڈ ملازمین کے حوالے سے یاسین جامڑو سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہم صدر پاکستان سے ملے ہیں اور انہیں ریٹائرڈ ملازمین کی مشکلات سے آگاہ کیا ہے۔ ہماری کوششوں سے وفات پاجانے والے ریٹائرڈ ملازمین کی بیواؤں کو واجبات ملے ہیں ہم اس حوالے سے اب بھی کوشش کررہے ہیں اور اپنی حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کیے جائیں۔

انکا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اسٹیل ملز بحالی کے لئے کوشاں ہے، جلد بہتری آئے گی۔ عمران خان چاہتے ہیں کہ اسٹیل ملز ابھی چل جائے لیکن اسٹیل ملز میں اب بھی ایک مافیا موجود ہے جو ملازمین کا دشمن ہے وہ نہیں چاہتا کہ اسٹیل ملز چلے۔ یاسین جامڑو نے وفاقی حکومت کی جانب سے بھیجے جانے والی نئی انتظامیہ کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا انہوں نے کہا جو لوگ آئے ہیں وہ ادارے کو چلانا چاہتے ہیں اور ہم بھی بھرپور انداز میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔

انہوں نے نئی انتظامیہ سے گزارش کی کہ گمراہ کرنے والے مل دشمنوں سے ہوشیار رہیں ہم مل کی بحالی کے لئے ہر ممکن تعاون کے لئے تیار ہیں۔ چیئرمین سی بی اے (ورکرز یونین) کا کہنا تھا کہ ہم نے مزدوروں سے کیے وعدے حکومت تک پہنچائے ہیں جلد ان کی تکمیل ہوجائے گی اور ہم اپنی یہی کارکردگی لے کر عوام کے پاس جائیں گے پھر ان کی مرضی وہ دوبارہ ہمیں منتخب کریں یا کسی اور کو لیکن سی بی اے جس کی بھی ہو ہماری مزدوروں کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔ انہوں نے قانون نافظ کرنے والے اداروں سے بھی گزارش کی کہ اسٹیل ملز میں احتساب کا عمل تیز کیا جائے ان کا کہنا تھا اس حوالے سے قانون نافظ کرنے والے اداروں کو خطوط بھی لکھیے ہیں۔

اسٹیل ملز کے ملازمین اس وقت اضطرب کا شکار ہیں لیکن بلاشبہ کہیں نہ کہیں بہتری نظر آرہی ہے تین چار ماہ تک تنخواہوں سے محروم رہنے والے ملازمین کو اب تنخواہ بھی وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کی جارہی ہے۔ غیر ملکی وفود کو بھی اسٹیل ملز کا دورہ کرانا اس بات کی جانب نشاہدہی کرتا ہے کہ حکومت اسٹیل ملز کو چلانے میں سنجیدگی رکھتی ہے۔ ایسے موقعے پر ملازمین کو انتظامیہ اور حکومت کا بھرپور ساتھ دینا ہوگا۔ اسٹیل ملز پاکستان کا اہم ادارہ اس کی بحالی پاکستانی معیشت کے لئے اہم ہے اگر حکومت، ملازمین، انتظامیہ اور ٹریڈ یونین کو اس معاملے پر ایک پیج پر ہوکر اقدامات کرنا ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments