وبا کے دنوں میں فاصلہ اور لاء آف ایٹریکشن کی بلا


اگر آپ نے Rhonda Byrne کی کتاب The Secret پڑھی ہے تو یقینا آپ لاء آف ایٹریکشن کے بارے میں جانتے ہوں گے۔ یا اگر یونیورسل لاز (Universal Laws) کا علم رکھتے ہیں تو بھی آپ کو معلوم ہو گا کہ انسانی ذہن جو کچھ سوچتا ہے، مثبت اور منفی، اس کے ہماری زندگی پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن جنہیں نہیں معلوم، ان کے لئے بتا دوں کہ لاء آف ایٹریکشن کا سادہ اور عام فہم مطلب یہ ہے کہ ہم جس چیز کا ذکر کرتے، سنتے، پڑھتے، اور سوچتے ہیں، اسی کو اپنی جانب مائل (attract) کرتے ہیں۔

اگر آپ منفی باتیں سوچتے ہیں تو منفیت کو اپنی طرف مائل کریں گے۔ مثلاً اگر آپ کی جیب میں کافی رقم یا کوئی قیمتی شے ہے اور اس کے کھو جانے کا خوف ہے تو یہ خوف آپ کی حرکات و سکنات اور چہرے سے ظاہر ہو جائے گا۔ آپ اردگرد نظر رکھتے ہوئے چلیں گے اور پرس یا بیگ پر گرفت مضبوط ہو گی۔ یوں آپ ایک مسلسل پریشانی کا شکار رہیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اردگرد کوئی شخص آپ کی اس حالت کو دیکھ کر اندازہ لگا لے کہ ضرور آپ کے پاس کوئی قیمتی چیز ہے۔

اور یوں آپ کا خوف ظاہر ہو کر کسی کو بدنیتی یا چوری جیسے جرم پر مائل کرنے کا سبب بن جائے۔ جبکہ درحقیقت آپ کے سوا کسی کو کیا معلوم کہ آپ کوئی بڑی رقم یا قیمتی شے رکھتے ہیں؟ ظاہر ہے کسی کو الہام تو نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر سڑک پر چلتے ہوئے آپ ایکسیڈنٹ کے خوف کا شکار ہیں تو نارمل ٹریفک میں بھی غیر ضروری احتیاط برتیں گے۔ خوف کی حالت میں بہت ممکن ہے کہ آپ کوئی ایسی غلطی کر گذ ریں جو حادثے کا سبب بن سکتی ہو۔ یہی خوف اگر بین الاقوامی سطح پر پھیل جائے تو خود ہی اندازہ لگا لیں کہ حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔

آج کل ایک وائرس (نام لینے کی ضرورت نہیں ) کا ہر طرف اور ہر ملک میں چرچا ہے، حتیٰ کہ اب بچے بھی اس سے واقف ہیں۔ ان کے سکولوں میں اس کی وجہ سے چھٹیاں جو ہو گئی ہیں۔ چین، جاپان، اٹلی، ایران، افغانستان وغیرہ کے بعد یہ بلا وطنِ عزیز کے لوگوں کو بھی متأثر کر رہی ہے۔ ”Nothing spreads faster than FEAR“۔ اس جملے کے مصداق یہ وائرس چند ہی ماہ میں دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔

ہم جس چیز سے خوفزدہ ہوتے ہیں، اس کے خلاف حفاظت کے چکر میں سوچ سوچ کے الٹا اسے attract کرتے ہیں۔ موجودہ حالات میں سوشل میڈیا صارفین اس وبا کو کافی سے زیادہ نقصان دہ قرار دے چکے ہیں۔ تعلیمی اداروں کی بندش؛ الیکٹرانک، ویب، اور سوشل میڈیا پر اس کے متعلق ہر وقت خبریں ؛ گھروں اور دفاتر میں الگ اس کا ذکر: اس کا مطلب ہے کہ ہم انجانے میں اس وبا کے پھیلاؤ میں اپنا کردار خوب ادا کر رہے ہیں۔

ہمیں کیا چاہیے؟

ہمیں چاہیے صحت و تندرستی اور سلامتی۔ تو پھر صحت و سلامتی کو attract کرنا ہو گا ناں۔ سادہ الفاظ میں یوں کہنا چاہیے کہ مسئلے کا حل کرنے کے لئے حل پر توجہ مرکوز کرنا ہوتی ہے نہ کہ مسئلے پر۔ سو حفاظتی تدابیر پر عمل کریں اور خواہ مخواہ بیماری کا ذکر کر کر کے دوسروں میں پریشانی تقسیم نہ کریں۔ کیا پتہ آپ کے بتانے سے سامنے والا صحت مند ہونے کے باوجود بھی خوفزدہ اور فکرمند ہو جائے اور آپ اسے بلاوجہ کی ٹینشن میں مبتلا کر نے کے مجرم بن جائیں۔ لاک ڈاؤن، خبریں سننے، ہر وقت ذکر کرنے، اور پریشان ہونے سے مصیبت مزید بڑھے گی۔ کہتے ہیں کہ لاعلمی ایک نعمت ہے۔ واقعی، جنہیں موجودہ وبا یا ملک کے موجودہ حالات کا علم نہ ہو، وہ یقینا اس کے خوف سے بھی آزاد ہوں گے۔

ہمیں جس چیز کی اشد اور حقیقتاً ضرورت ہے، وہ ہے احتیاطی تدابیر پر عمل، قوتِ مدافعت میں اضافہ، اور تیسری نہایت اہم بات یہ کہ کچھ عرصے کے لئے سوشل میڈیا سے فاصلہ اختیار کر لیں۔ تقریباً پندرہ سال قبل برڈ فلو آیا تھا، یہ بھی (اطلاعات کے مطابق) چین سے شروع ہوا تھا۔ تب ملک میں چکن کی قیمتیں گر گئی تھیں۔ اور بعض شوقین افراد نے چکن برگر اور دیگر چکن مصنوعات سے خوب لطف اٹھایا تھا۔ برڈ فلو نے اس قدر پریشانی نہیں پھیلائی تھی کیونکہ اس وقت سمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے آلات نہیں تھے خبریں پھیلانے کے لئے، وہ بھی تصدیق کا تکلف گوارا کیے بغیر۔

جہاں اطلاعات صرف پریشانی کی ہوں، وہاں یہ ضرب المثل درست ثابت ہوتی ہے کہ لاعلمی ایک نعمت ہے۔ وبا سے لڑنے اور اسے شکست دینے کا واحد طریقہ احتیاط ہے جس کا بنیادی حصہ ہے : تنہائی، اور بیرونی دنیا کے علاوہ سوشل میڈیا سے بھی فاصلہ رکھنا۔ ہاں مگر، اس تنہائی اور ”ترکِ تعلق“ کو حسین بنایا جا سکتا ہے اپنی پسندیدہ کتابوں اور موسیقی سے، روحانیت، ورزش، یوگا، مراقبے اور اللہ سے تعلق قائم کر کے۔ اور اس کے علاوہ جو بھی آپ کو پسند ہو۔ موجودہ حالات میں صرف اور صرف مثبت سوچیں تاکہ مثبت نتائج ملیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments